عفوکا مفہوم دوسروں کی غلطیوں، زیادتیوں پر در گزر کرنا
اور ان کو مہربان ہو کر معاف کر دینا ہے۔
عفو ایسی محمود پسندی صفت اور فضائل اخلاق میں شمار
ہوتی ہے کہ اس کے سبب سے دل میں کدورت (رنجش) نہیں رہتی اور صفائی پیدا ہوتی ہے
اور انسانوں سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہمی زندگی میں ہمدردی محبت پیدا ہو
جاتی ہے۔
قرآن حکیم اس کا شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی
موقعوں پر مسلمانوں کو اس کی جانب اس طرح متوجہ فرمایا: ارشاد ربانی ہے: اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ
فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا(۱۴۹)(پ
6، النساء: 149) ترجمہ کنز العرفان: اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا چھپ کر یا
کسی کی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والاہے۔
احادیث کی روشنی میں:
1۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا
جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے
معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے
ناطہ جوڑے ۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
2۔ بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور
درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 5/546، حدیث: 8216)
3۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے میرے رب!
تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/
319، حدیث: 8327)
4۔ حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا میں نے ابتداً
رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: یارسول الله مجھے فضیلت والے اعمال
بتائیے۔ آپ نے فرمایا: اے عقبہ! جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو
محروم کرے، اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔
5۔ جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک
منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت
میں داخل ہو جائے۔ پھر دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم
پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر
اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں(کی خطاؤں) کو معاف
کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے لے ذمہ
کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا
حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542،
حدیث: 1998)اللہ کریم ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور
ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین