عفو کا لغوی معنی معاف کرنا چھوڑ دینا درگزر کے لغوی
معنی چشم پوشی کرنا بھلانا۔ (فرہنگ آصفیہ، 2/242) عفو کا مفہوم دوسروں کی غلطیوں، زیادتیوں
پر درگزر کرنا اور ان کو مہربان ہو کر معاف کر دینا ہے۔ عفو و درگزر کا اصطلاحی
معنی کسی کی ظلم اور زیادتی کو بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود معاف کر دینا، عفو
ایسی محمود پسندی صفت اور فضائل اخلاق میں شمار ہوتی ہے کہ اس کے سبب انسانی
تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہمی زندگی میں ہمدردی ومحبت پیدا ہو جاتی ہے ہمارے
سامنے انسانیت کے سب سے بڑے محسن، ہادی اعظم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے کہ بقول ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ نے کسی سے اپنے ذاتی معاملہ میں
اختیار کے باوجود انتقام نہیں لیا سوائے اس صورت کے کہ جب کسی نے احکام الہی کی
ہنسی اڑائی یا اس کی شدید مخالفت کی۔
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ
تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹)(پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز
العرفان: اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی سے درگزر تو بے
شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والاہے۔
وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز
الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ
تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
احادیث مبارکہ: قرآن
کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ ﷺ کے اپنے عفو و درگزر کے سینکڑوں بلکہ
ہزاروں واقعات ملتے ہیں، وہاں پر آپ ﷺ نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم، ص
1071، حدیث: 2588)
2۔ تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا
اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)
3۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات
تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیئے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے
جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے
والے سے صلہ رحمی کا سلوک کرے۔
4۔ جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو
اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔
5۔ تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ
قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل
فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ
کون سی تین عادات ہیں؟ آپ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم
سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب
تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
عفو درگزر سے متعلق واقعہ: حضرت
انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک
نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے
آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر
خراش آگئی۔ وہ کہنے لگا اللہ تعالی کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس
میں سے کچھ مجھے مل جائے۔ حضور پر نور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے، پھر
اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حديث: 3149)
عفو و درگزر کے فوائد: معاف
کرنے سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی اور گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے، اللہ کی رحمت نازل
ہوتی ہے، آپسی دشمنی اور نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے، انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے،
فرمان رب العالمین کی تعمیل ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات
کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے، ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی
ہے، ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، غلطی اور جرم
سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے، افسوس کہ آج
ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی
ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا
ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و
جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے
ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔