عفو و درگزر از بنت عبد الستار مدنیہ، فیضان عائشہ
صدیقہ نندپور سیالکوٹ
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا
بخش دینا درگزر کرنا بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت
میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی و برائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام
نہ لینا اور معاف کر دینا ہے۔ قدرت و طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اگر انسان انتقام نہ
لے سکتا ہو تو یہ عفو معاف کرنا نہیں ہو
گا بلکہ اسے بے بسی کا نام دیا جائے گا، عفو صرف قادر ہونے کی صورت میں ہے۔
عفو کا ادنی درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کر دے خواہ
طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو۔عفوو درگزر ایک ایسا وصف ہے کہ جس کی وجہ سے دشمنی دوستی
میں بدل جاتی ہے۔ باہمی تعلقات کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ لچک، نرمی اور درگزر سے
پروان چڑھتے ہیں۔ غلطیاں یقینا انسانوں ہی سے ہوتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کر
کے اس پر معافی مانگ لینا اور متاثرہ شخص کا اسے معاف کر دینا یہی بڑا پن ہے اور
خدا کو بہت پسند بھی ہے۔ معاف کرنا خدائی صفت دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں
معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے۔ یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا
ہے وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ
لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(۱۲۶) (پ 14، النحل:
126) ترجمہ كنز العرفان: اور اگر تم کسی کو
سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر
کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
اسی طرح سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 43 میں اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ
غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳)ترجمہ کنز العرفان:اور بیشک جس نے صبر
کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
عفو در گزر کے بارے میں چند احادیث:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی
ہیں: رسول الله ﷺ عادتاً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً نہ بازاروں میں شور کرنے
والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ اپنے مجرموں کو معاف
کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)
ظالموں نے طرح طرح کے ظلم کئے لیکن آپ نے بدلہ لینے
کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں معاف فرمایا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا مانگی۔
جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر
مکہ میں
عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان
کیا
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام نے عرض کی: اے
ربّ اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی
قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الايمان، 2/ 319، حدیث: 8327)
پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس
پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند
امام احمد، 7/71،
حدیث:1926)
فرمانِ مصطفیٰ: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا
اور معاف کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث:
7062)
حساب میں آسانی کے تین اسباب: رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو
اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یارسول
الله عز وجل ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: (1) جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر
داور (2) جو
تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور (3) جو
تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔(معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
جنت کا محل: جسے یہ پسند
ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے
چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے
اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرك للحاكم، 3/ 12،
حدیث: 3215)
عفو در گزر کے چند فائدے: معاف
کرنے سے اللہ کی محبت ملتی ہے۔ اللہ کی رحمت ملتی ہے۔ گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ دشمنی
کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ عزت میں اضافہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔