دین اسلام میں مسلمانوں کو اخلاقیات کی انتہائی
اعلیٰ،جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی
طرف سے تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرو، کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تواس
پر حلم و بردباری کا مظاہرہ کرواوراپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عفو و درگزر سے کام
لو۔
امیر معاویہ کا حلم: حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بردباری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اس حوالے سے آپ کے
واقعات بہت مشہور ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں: میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ زمین پر کوئی
جہالت سے کام لےاور میرا حلم اس پر حاوی نہ ہو اور کوئی جرم کرے اور میرا عفو و
درگزر اس پر غالب نہ ہو اور کسی کو کوئی حاجت ہو اور میری سخاوت اسے پورا نہ
کرسکے۔
ایک شخص نے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نازیبا بات کہی تو آپ نے بردباری سے کام
لیتے ہوئے فرمایا: یہ بات میرے والد حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سنتے تو بڑا تعجب
کرتے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)
(پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور
بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔اس آیت میں نبی کریم ﷺ کو تین باتوں
کی ہدایت فرمائی گئی ہے:
(1) جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آئے تو
اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔
(2) اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے۔
(3) جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان
سے الجھئے نہیں بلکہ حلم کا مظاہرہ فرمائیں۔
بیوی بچوں کے قصور معاف کردینا اللہ تعالیٰ کو
محبوب ہے، جو مخلوق پر رحم کرے گا خالق اس پر رحم فرمائے گا۔
اللہ پاک غنی و بے پرواہ ہو کر بھی حلیم ہے کہ
بندوں کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور ہم تو ثواب کے محتاج ہو لہٰذا ہم بھی
فقراء و مساکین اور اپنے ماتحتوں کی خطاؤں سے در گزر کریں۔ حلم سنت الٰہیّہ بھی
ہے اور سنت مصطفویّہ بھی۔سبحان اللہ کیسے
پاکیزہ اخلاق کی کیسی نفیس تعلیم دین اسلام میں دی گئی ہے۔
حلم و عفو و درگزر کا واقعہ: حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک
نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے
آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر
خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس
میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے، پھر
اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔پھر ارشاد فرمایا کہ اے اعرابی: کیا تم سے اس
کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا:
کیوں نہیں؟ اعرابی نے عرض کی: کیونکہ آپ کی یہ عادت کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا
بدلہ برائی سے لیں۔ اس کی یہ بات سن کر سرکار دو عالم ﷺ مسکرا دئیے اور ارشاد
فرمایا: اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجور سے بھر دو۔ (بخاری، 2/359، حدیث:
3149)
اذیتیں پہنچانے والوں کے ساتھ سلوک: علامہ
عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس (خطاب) کے بعد (جو آپ نے فتح
مکہ کے موقع پر مسلمانوں اور کفار کے مجمع سے فرمایا تھا) شہنشاہ کونین ﷺ نے اس
ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے
ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ
بھی تھے جنہوں نے آپ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر
پتھروں کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ پر قاتلانہ
حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور
آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی
بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و
درندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے
تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت
زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا
تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی
چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔
ان مجرموں سے
آپ نے پوچھا کہ’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا
ہوں؟ اس دہشت انگیز سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اٹھے لیکن جبین رحمت کے
پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر امید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر
بولے کہ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔ ‘‘ سب کی للچائی ہوئی
نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب
سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا
کہ آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمان
رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی
گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے
اور کفار کی زبانوں پر لاالٰـہ الّا اللہ محمّدٌ رّسول اللہ کے
نعروں سے حرم کعبہ کے در و دیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔