اللہ رب العزت نے جو مقام، مرتبہ، عزت و عظمت، جلال و کمال،غیرت و حیا مسلمان کو عطا کیا ہے، کسی اور کو نہیں دیا اس کا اندازہ اس آیت سے چلتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ۔اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِؕ(7)ترجمہ کنزالایمان: بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں۔(پ30، البینۃ:7) اس آیت میں اللہ رب العزت نے پہلے ایمان کو ذکر کیا اس کےبعد اعمال صالحہ کو۔ جو ایمان والا بھی ہو اور نیک اعمال بھی کرتا ہو تو اللہ رب العزت کی طرف سے اعلان آتا ہے کہ یہ لوگ بہترین ہے۔ بہترین کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں، اللہ کے ہر حکم پر جان دینے کو تیار ہوتے ہیں،اپنی پسند کو اللہ رب العزت کی پسند پر قربان کرتے ہیں دن کو بھی اللہ کی رضا کی کوشش کرتے ہیں رات کو بھی گڑ گڑا کر رونے سے اللہ سے سرخروئی تسلیم کرتے ہیں۔پھر اللہ رب العزت نے بھی ان لوگوں کے لیے اعزاز و اکرام کا بندوبست کیا ہوا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَان جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو باغ ہیں۔

کیسے باغ ہیں جواب آتا ہے: ذَوَاتَا أَفْنَانٍ جن میں بہت سی شاخیں ہیں۔ اور کیا ہے؟ جواب آتا ہے: فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ ان دونوں میں چشمے بہتے ہیں۔ اور کیا ہے؟ جواب آتا ہے: فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ ان دونوں میں ہر قسم کے میوے ہوں گے۔ اور کیا ہے؟ جواب آتا ہے: مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے بچھونوں پر جن کا استر ریشم کا ہوگا۔

اگر ہم اپنے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں اپنی قیمت کو پہچان لیں تو ہم سے کبھی کوئی کام ایسا سرزد نہیں ہوسکتا ہے جس سے اللہ رب العزت ہم سے ناراض ہوجائے۔ اللہ رب العزت نے مسلمان کے لیے بہت سی چیزوں کو پیدا کیا، اگر ہم مسلمان تھوڑا سا بھی سوچ لیں تو ہم سب مسلمان کامیاب ہوسکتے ہیں۔

حدیث مبارکہ: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کریم صلی اللہ علہ والہ وسلم نے فرمایا، مسلمان پر دوسرے مسلمانوں کے پانچ حقوق ہے (1) سلام کا جواب دینا (2)مریض کی عیادت کرنا، (3)جنازے کے ساتھ جانا، (4)دعوت قبول کرنا(5) چھینکنے والے کا جواب دینا۔ (بخاری، کتاب الجنائن، باب الامر باتيال الجنائز، 42/1/حدیث 124 )

مسلمان کی دلجوئی کرنا: علامہ شہاب الدین احمد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کی تسکین یا تسلی کے لیے تحفہ قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کی اور فرمایا کہ ہم احرام میں ہیں اس لئے تمہارا ہدیہ لوٹا رہے ہیں۔ یہ بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسن اخلاق میں سے ہے۔ کہ اپنے صحابی کی پریشانی دیکھ کر ان کی دلجوئی فرمائی اور پر یشانی دور فرمادی۔ (ارشاد لساری۔کتاب جزاء الصيد، باب اذا الھدى للمحرم حمار اوحشا الخ 5003 حدیث کی 182 بتغیر)

اپنے اپنے قول و فعل سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچایئے: رسول اکرم شاہ بنی آدم الْمُسْلِمُ مَنْ سَلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَلَدِهِ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسر امسلمان محفوظ رہے (صحیح البخاری کتاب الایمان، باب المسلم من سلمہ)

جو اپنے لیے پسند کرے وہ ہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند کریں: حضرت سیدنا نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ با ہمی محبت اور رحم دلی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب باب رحمۃ الناس ولبھائم 131/4 الحدیث 6011 بتغیر)

مسلمانون سے تکلیف دہ چیز وں دور کرنے کاانعام: سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان باقرینہ ہے میں نے جنت میں اس شخص کو ٹہلتے دیکھا جس نے دنیا میں مسلمانوں کے راستے سے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو ان کی تکلیف کا باعث تھا۔( صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ باب فضل ازلۃ الاذى عن الطريق الحديث من 140)

اپنے بھائی کو معاف کرنے کا انعام: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ آقَالَ مُسلِمًا عَشَرَفَهُ أَقَالَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ یعنی جو کسی مسلمان کی لغزش کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ الکریم اس کی لغزش کو معاف کرے گا۔ (سنن ابی ماجہ، کتاب التجارات، باب اقالہ 136/3 حدیث 199)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔