اللہ پاک قرآن مجید میں علمائے کرام کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا ۔(پ3،اٰل عمران: 18)مفتی نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس آىت سے تىن فضىلتىں علم کى ثابت ہوئىں : (1) خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ انتہاءنہىں رکھتا۔ (2) علما کو فرشتوں کى طرح اپنے ایک ہونے کا گواہ اور اُن کى گواہى کو اپنے معبود ہونے کی دلیل قرار دىا۔ (3) اُن کى گواہى فرشتوں کی گواہی کی طرح معتبر ٹھہرائى۔(فضل العلم والعلماء،ص8)

احادیث مبارکہ میں بھی علمائے کرام کے بکثرت فضائل موجود ہیں ،چند ملاحظہ کیجئے!

عالم کی عابد پرفضیلت :حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ نے رواىت کىا کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے ۔ (سنن الترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

علما کو مرتبۂ شفاعت ملے گا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن عالم و عابد کو لایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا: تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔( شعب الایمان،باب فی طلب العلم ، فصل فی فضل العلم وشرفہ،2/268، حدیث: 1717)

انبیائےکرام کے وارث :حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللہ پاک اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گا اور بے شک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے لئے آسمانوں و زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور یقیناً عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور یقین رکھو کہ علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کی میراث دینار و درہم نہیں بلکہ ان کی میراث تو علم ہی ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اُس نے میراث کا بہت بڑا حصہ پالیا۔( سنن ابی داود، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم،4/485، حدیث:3641)

لوگوں میں افضل: حضرت عمر بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے افضل وہ مؤمن عالم ہے کہ جب اس کی ضرورت پڑے تو نفع دے اور اگر اس سے بے پرواہی کی جائے تو وہ اپنے آپ کو بے نیاز رکھے۔ (تاریخ ابن عساکر، عمر بن علی بن ابی طالب،45/303،حدیث:9886 )

درجہ نبوت کے قریب: لوگوں میں سے علما و مجاہدین درَجہ نبوت کے سب سے زیادہ قریب ہیں ۔ علما تو رسولوں کی لائی ہوئی باتوں کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لئے تلواروں سے جہاد کرتے ہیں ۔ (الفقیہ والمقفقہ، ذکر احادیث واخبارالخ،1/148،حدیث:132)


اللہ پاک کا فرمان ہے:اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اللہ پاک سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ پاک کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ پاک سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو اس کا خوف بھی کم ہو گا ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔(مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 28، ص977، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534، ملتقطاً)

ایک شخص نے اما م شعبی رحمۃُ اللہِ علیہ سے عرض کی:مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے؟۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ پاک سے ڈرتا ہو۔ اورحضرت ربیع بن انس رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جس کے دل میں اللہ پاک کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534)

علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہوں اور ان کے عقائد و اَعمال درست ہوں۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. وَرَّثُوا الْعِلْمَ. مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا، سَهَلَ اﷲُ لَهُ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ. ترجمہ:بے شک علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے، اللہ پاک اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔(اخرجہ البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب العلم، قبل القبول، 1/ 37)

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يُوْزَنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ وَدَمُ الشُّهَدَاءِ فَيَرْجَحُ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَی دَمِ الشُّهَدَاءِ ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔(مسند الفردوس، 5/ 486، حدیث: 488)

قال النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مَا عُبِدَ اللّٰہ بِشَئْیٍ اَفْضَلَ مِنْ فِقْہٍ فِی الدِیْنِ وَ لَفَقیِہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ وَلِکُلِّ شَئْیٍ عِمَادٌ وَ عِمَادُ الدِّیْنِ اَلْفِقْہُ ترجمہ: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ: تفقہ فی الدین سے بہتر خدا کی عبادت کسی اور طریقے سے نہیں کی گئی،اور یقینا ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے اور ہر چیز کا ستون ہوتاہے اور دین کاستون فقہ ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : كُنْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا ، أَوْ مُحِبًّا أَوْ مُتَّبِعًا ، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلِكَ ترجمہ: عالم بنو یا طالب علم بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو یا ان کی اتباع کرنے والے بنو پانچویں نہ بننا، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔(سنن کبری للبیہقی)

حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد یعنی ایک فقیہ ،شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔(ترمذی ،ابن ماجہ)

کَانَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ يَقُوْلُ: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِعِزِّ النَّفْسِ لَمْ يُفْلِحْ وَمَنْ طَلَبَهُ بِذُلِّ النَّفْسِ وَخِدْمَةِ الْعُلَمَاءِ أَفْلَحَ ترجمہ: امام شافعی فرمایا کرتے تھے: جس نے عزتِ نفس (انا)کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہا، کامیاب نہ ہوا اور جس نے اسے نفس کی ذلت اور علماء کی خدمت کے ذریعے حاصل کرنا چاہا وہ مقصد پا گیا۔(الطبقات الکبری،ص 77 )

عَنْ إِبْرَاهِيْمَ الآجُرِّيِّ، يَقُوْلُ: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِالْفَاقَةِ وَرِثَ الْفَهْمَ۔ ترجمہ: امام ابراہیم آجری بیان کرتے ہیں: جس نے فقر و فاقہ کے ساتھ علم طلب کیا وہ فہم کا وارث بنا۔

عن يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ، قَالَ: لَا يُسْتَطَاعُ الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ ترجمہ: حضرت یحیيٰ بن ابی کثیر بیان کرتے ہیں: علم آرام طلبی سے حاصل نہیں ہوتا۔(مسلم ، کتاب المساجد، باب أوقات الصلاة الخمس، 1/ 428، حدیث: 612)

اللہ پاک ہمیں با عمل عالم دین بنائے اور علماء کی صحبت میں اور ان کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور صحیح معنوں میں خشیت الہی عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ علما ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ ان کے دم سے علم کا وجود ہے جب اللہ پاک  اس دنیا سے علما کو اٹھالے گا تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اٹھ جانے کے سبب ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ ہوگا، ہر شخص گمراہی کے عمیق غار میں سرتاپیر غرق ہوگا، جہلا ، علما کی جگہ بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں بتائیں گے۔ جن پر عمل کرکے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس لئے علما کے وجود کو باعث خیر و برکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے اور ان سے محبت رکھنے کو اپنے لئے سعادت خیال کرنا چاہئے۔ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مبارک ہے: اِنَّ اللہ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعَلَمَاءَ(بخاری،مسلم)اللہ پاک دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گا کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے۔بلکہ علماء کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے یہ نہیں ہوگا، بلکہ اللہ پاک حاملین علم کو اٹھالیں گا اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لیے علماء کے چند فضائل حاضر خدمت ہیں:

(1) حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ:عالم کی فضیلت عابدپرایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر، علماء انبیاء کے وارث ہیں ،انبیاء نے ترکہ میں درہم ودینار نہیں چھوڑےبلکہ انہوں نے علم کی میراث چھوڑی ہے ،جس نے علم حاصل کیااس نے بڑاحصہ پایا۔(مشکوٰةالمصابیح،کتاب العلم،1/62)

(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کی عبادت دین اور علم دین سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے ،ایک عالم دین شیطان کے اوپر ہزار عابد سے زیادہ سخت ہے ،ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون علم دین ہے۔(اتحاف الخیرةالمھرة،کتاب العلم،1/200)

(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کایہ ارشادنقل کرتے ہیں کہ:ایک فقیہ(عالم دین)ابلیس کے اوپر ایک ہزار عبادت گزاروں سے بڑھ کربھاری ہے۔(مشکوةالمصابیح،کتاب العلم،1/63)

(4) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: اللہ جس کا بھلا چاہتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے۔ میں بانٹنے والا ہوں اللہ دیتا ہے۔(مشکوةالمصابیح،کتاب العلم،1/59)

(5) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ: علما کی مثال زمین پر ایسی ہے جیسے ستارے آسمان پر کہ ان سے خشکی وتری کی تاریکیوں میں رہنمائی ملتی ہے،اگرستارے معدوم ہوجائیں تورہنمابھی بھٹک جائیں۔(الترغیب والترھیب،کتاب العلم،1/100)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علماء کرام کا ادب نصیب فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علما کے فضائل قرآن و سنت سے ظاہر ہیں کیونکہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے پیارے حبیب پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات سیکھنے سکھانے میں گذار دی انکی شان اور قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود خالق کائنات اور خاتم النبیین علیہ الصلاةولسلام نے علما کی شان کو بیان کرکے اور بلندی عطا فرمادی۔

جیساکہ رب کریم پاک کافرمان ہے:شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر۔(پ3،اٰل عمران: 18)ایک اور مقام پر اللہ پاک کا فرمان ہے:فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں(پ 14،النحل:43)اسی طرح احاديث رسول علیہ السلام میں میں بھی علم سیکھنے کی اہمیت اور علما کے فضائل مذکور ہیں جیساکہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ علم کی طلب و تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(1)علما انبياء کے وارث ہیں اور انبیا درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ انہوں نے ورثے میں علم چھوڑا ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔

(2)جوشخص طلب علم کے لیے گھر سے نکلا وہ جب تک واپس نہ لوٹے اللہ کی راہ میں ہے۔(ترمذی کتاب العلم، حدیث: 2656)

(3)اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور اسے یاد کیا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچایا۔(ترمذی ،کتاب العلم ،حدیث:2665(

(4)عالم کی مجلس میں حاضر ہونا۔ ہزار رکعت (نفل)پڑھنے ۔ ہزار مریضوں کی عیادت کرنے ۔ ہزار نمازِ جنازه میں شرکت کرنے سے افضل ہے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا قرآن کی تلاوت(سےبھی افضل )ہے؟ فرمايا: قرآن بھی تو علم کے ساتھ ہی نفع دیتا ہے۔(احیاء العلوم ،1/ 56)

(5) علمائےکرام کا اٹھایا جانا قیامت کی نشانی ہے :حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک علم کو نہیں اٹھائے گا انتزاعًا (اکھیڑکر) اس طرح کہ لوگوں کہ سینوں سے نکال دے اور لیکن اللہ پاک علم کو اٹھائے گا علماء کو اٹهانے کے ذریعے یہاں تک کہ نہیں چھوڑے گا کسی عالم کو (پهر) لوگ جاہلوں کو اپنا رئیس بنائيں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ فتوٰی دیں گے بغير علم کے تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور(دوسروں کو بھی ) گمراہ کریں ۔(جامع الترمذی، 2/ 94 )

ان آیات و احادیث سے ظاہر ہے کہ علم اور علما دین کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ اس کے علاوہ علم والوں  کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں، لہٰذا علما کو عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ پاک سے زیادہ ڈرنا چاہئے اور لوگوں  کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں  کو اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ پاک کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے، اللہ پاک کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔

علما سے مراد کونسے علما ہيں:علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں  علم والوں  سے مراد وہ ہیں  جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں۔(تفسیرصراط الجنان،سورہ فاطر،تحت الآیہ 28)

لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں اور لوگوں کو اللہ پاک والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا پاک کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔

دعا ہے کہ  اللہ پاک ہمیں  زندگی کے تمام پہلوؤں   میں  در پیش معاملات کے بارے میں  اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم و علما  کی شان و فضیلت کے بارے میں بہت سی آیات و احادیث وارد ہوئی ہے ، آئیے سب سے پہلے عالم کی تعریف جانتے ہیں۔عالم کی تعریف: عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے۔( ملفوظات اعلی حضرت، حصہ اول ،ص 58) اللہ پاک نے قرآن پاک میں عالم کی شان بیان کرتے ہوئے پارہ 23 سورۃُ الزمر کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا:قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمہ کنزالعرفان: تم فرماؤ علم والے اور بے علم والے برابر ہیں؟۔(پ 23 ،الزمر : 09)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے علما کی شان اس طرح بیان فرمائی کہ اپنی گواہی کو اور علماء کی گواہی کو کافی فرما دیا پارہ 13 سورۃ الرعد کی آیت نمبر 43 میں ارشاد ہوتا ہے:قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠(۴۳)ترجَمۂ ترجمہ کنزالعرفان: تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور ہر وہ آدمی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔(پ13، الرعد : 43) صراط الجنان میں مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے علماء کی گواہی اپنے ساتھ بیان فرمائی اس سے علم کی افضیلت معلوم ہوئی۔

اسی طرح اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بکثرت احادیث میں علم اور علماکی شان بیان کی گئی ہے آئیے اس ضمن میں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنئے:۔

(1) ستر(70) صدیقین کا ثواب:حدیث میں آیا ہے جو شخص ایک علم کا باب دوسرے کو سکھانے کے لیے سیکھے اس کو 70 صدیقوں کا اجر دیا جائے گا۔( الترغیب و الترہیب،کتاب العلم، التغیب فی العلم......الخ،1/68، حدیث: 119)

(2) شہداء کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن علماء کی دواتوں کی سیاہی اور شہداء کا خون تولہ جائے گا علماء کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلماءعلی الشہداء، ص 48، حدیث:139)

(3) سب سے بڑے سخی:امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں اللہ پاک بڑا جواد(سب سے بڑا نوازنے والا) ہے اور میں سب آدمیوں میں سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا۔( شعب الایمان، باب فی نشر العم ،2/281، حدیث 1767،باختصار)

(4) علم کے ذریعے بخشش: حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ پاک قیامت کے دن اپنی کرسی پر بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے کے لیے بیٹھے گا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہوگا) تو علما سے فرمائے گا: میں نے اپنا علم تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کوئی پروا نہیں۔( المعجم الکبیر،2/84، حدیث:1381)

(5) ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ ہے فرماتے ہے کہ اللہ کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رات میں ایک گھڑی علم کا پرھنا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے۔( مشکاۃ المصابیح ،ص 36)

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقات میں فرماتے ہیں اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں عالم کی تکرار کرنا، استاد سے پڑھنا، شاگرد کو پڑھانا، کتاب کی تصنیف کرنا، یا کتب کا مطالعہ کرنا، رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ ،1/ 251) اللہ پاک ہمیں علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دراصل اللہ پاک نے جنسِ انسان میں سے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ پھر اس کے بعد  کثیر مخلوق کو پیدا فرمایا ۔اس کے بعد پھر ان کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء ورسول کوبھیجاجنہوں نے آکر ان کو اللہ پاک کی واحدانیت کے بارے میں بتایاا ور ان کو حق کا راستہ دکھایا ۔اور یہ سلسلہ چلتے چلتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ تک پہنچا اور نبوت کے سلسلہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ سب سے آخری نبی ہیں ۔اور ان کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے ۔تو پھر اس کے بعد لوگوں کو اللہ پاک کی واحدانیت اور لوگوں کو حق کا راستہ دکھانے کےلیے یہ حق علما کو حاصل ہوا۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام کی حدیث مبارکہ میں ہے۔(اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنّْبِیَاءِ) کہ جو علماء ہے وہ انبیاء کے وارث ہیں ۔اس حدیث مبارکہ سے علما کی شان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ جو کام اللہ پاک نے اپنی انبیاء و رسولوں کو دیا وہی کا م بعد میں علماء کو انبیاء کی وراثت میں حاصل ہوا۔

اسی طرح علما کی شان کے بارے میں اللہ پاک نے قران مجید میں فرمایا :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 28، ص977)

(1) ترمذی کی حدیث میں ہے۔ تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی سمندر میں یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والوں پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے ہیں ۔(ترمذی کتاب العلم،ص 313تا314 ،حدیث: 2694)

(2) ذہبی نے روایت کیا کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی (یعنی سیاہی)شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی ۔(فیضان علم و علما ،ص14)

(3) حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہُ عنہ کی حدیث میں ہے کہ عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز ،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے ۔کسی نے عرض کیا ۔یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراءت قرآن (یعنی کیا عالم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سےبھی افضل ہے )فرمایا !کیا قرآ ن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے ۔(قوت القلوب ، باب ذکر الفرق بین علماء الدنیاء الخ،1/257)

(4) حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا کہ عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے افضل ہے ۔(فیضان علم و علما ،ص15)

(5) امام محی السُّنّہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ معالم التنزیل میں لکھتے ہیں کہ،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا !ایک عالم شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔(فیضان علم و علما ،ص18)


جس طرح چاند، سورج سے روشنی لے کر رات میں سارے عالَم(دنیا) کو روشن کرتا ہے ایسے ہی عالِم نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے علم کا فیض حاصل کر کے علم دین سے دنیا کو معطَّر و معنبَّر کرتا ہے۔ عالِم جہالت کے طوفان میں لوگوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نکال کر کنارے پر لگادیتا ہے۔ علما کی بہت بڑی شان ہے جس کو خود رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا ہے۔ آئیے سنتے ہیں:

(1) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِى عَلَى اَدْنَاكُمْ کہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کمتر پر۔ (مشکوٰۃ المصابيح، 1/ 62، کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث: 212، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس حدیث پاک کے تحت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عالم کو عابد پر دینی فضیلت حاصل ہے نہ کہ دنیوی اگرچہ ان دونوں فضیلتوں میں بہت فرق ہے جیسے بادشاہ کو عوام پر سلطنت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے، مالدار کو فقیر پر مال کی، طاقتور کو کمزور پر قوت کی، حسین کو بدشکل پر خوبصورتی کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر یہ فضیلتیں دنیوی اور ختم ہوجانے والی ہیں، نبی کو مخلوق پر دینی فضیلت حاصل ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی ایسے ہی عالم کو جاہل پر۔ (مرآۃ المناجیح، 1/ 195، کتاب العلم، بتغير مطبوعہ: قادری پبلشرز)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن علماء کی دَواتوں (Inkpot) کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو علماء کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی۔ (فیضان علم و علما، ص 14،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(3) حضرت ابن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: فَقِيْهٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ کہ ایک فقیہ( دین کی صحیح سمجھ رکھنے والا) شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ (مشکوٰۃ المصابيح، 1/ 63، کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث:217، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت) والد اعلی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم عالَم(بہت سے لوگوں) کو ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔ (فیضان علم و علما، ص 18، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)

(4) رحمت عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الاَنْبِيَاءِ کہ بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں(مشکوٰۃ المصابيح، الحدیث: 212)۔اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی نبی کی مالی میراث نہ بٹی ان کا چھوڑا ہوا مال دین کے لیے وقف ہوتا ہے اور قیامت تک علما ان کے وارث ہیں۔ اسی لیے علماء کو وارثین انبیاء کہا جاتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح،1/ 194،مطبوعہ: قادری پبلشرز)

(5) اللہ پاک  کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: صُبْح کر اس حالت میں کہ تو عالم ہے یا علم سیکھتا ہے یا عالم کی باتیں سنتا ہے یا ادنی درجہ یہ کہ عالم سے مَحبت رکھتا ہے اور پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت، ص 58)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر ۔(پ3،اٰل عمران: 18)

اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسّلام اور اولیاء رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم  نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا،لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں اور لوگوں کو اللہ پاک والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا  کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔ ( سراط الجنان تحت سورہ آل عمران آیت 18)

علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا چنانچہ اللہ پاک ارشا فرماتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں : صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں  کو اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ پاک کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے، اللہ پاک کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔(قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 7 / 250، الجزء الرابع عشر)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں  سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 28، ص977، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534، ملتقطاً)

بکثرت اَحادیث میں  علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،ان میں  سے 5اَحادیث یہاں  ذکر کی جاتی ہیں ، چنانچہ(1)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، 3 / 92، حدیث: 3960)

(2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں  رات کے چاند کی تمام ستاروں  پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3 / 444، حدیث: 3641)

(3) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں  دو آدمیوں  کا ذکر کیا گیا،ان میں  سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا’’اللہ پاک اس کے فرشتے، آسمانوں  اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں  اپنے سوراخوں  میں  اور مچھلیاں  لوگوں  کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4 / 313، الحدیث: 2694)

(4) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں  داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں  کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717)

(5)حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔( مسند الفردوس، 5/ 486، حدیث: 488)

اللہ پاک ہمیں  علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عالم کا معنی ہے جاننے والا ۔اسلامی کے فرائض واجبات۔ عقاہد اور اس کے علاوہ اسلام کی ضروریات کا علم رکھنے والے کو عالم کہا جاتا ہے ۔اللہ پاک نے عالم کی بہت زیادہ فضیلت رکھی ہے یہاں تک کہ عالم کی اتنی فضیلت رکھی ہے کہ بروز محشر وہ لوگوں کی شفاعت کریں گا ان لوگوں کی بھی کہ جن لوگوں نے اس عالم کو وضو کے لیے پانی دیا ہوگا ۔چنانچہ اسی ضمن میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند احادیث مبارکہ عالم کی فضیلت میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔

(1)ترمذی نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) حدیث شریف میں ہے کہ جب پروردگار قیامت کے دن اپنی کرسی پر واسطہ فیصلہ کے ( فیصلہ فرمانے کے لیے ) بیٹھے گا ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) علما سے فرمائے گا :خلاصہ معنی یہ ہے کہ میں نے اپنا علم و حلم(نرمی ) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ (المعجم الکبیر حدیث: 1371)

(3) اسی طرح پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علما کے شان کو بیان فرمایا :خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت (جنت) مىں جاوىں گے۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 26)

(4) بخاری اور ترمذی نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:من یرید اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ۔ ترجمہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔(بخاری کتاب العلم باب العلم قبل الاول والعمل، 1/41)اشباہ النظاہر میں لکھا ہے کہ کوئی آدمی اپنے انجام سے واقف نہیں ہوتا سوا فقیہ کے کیونکہ وہ باخبر مخبر صادق یعنی سچی خبر دینے والے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتانے سے جانتا ہے کہ اس کے ساتھ خدائے پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔

(5) ابو داؤد نے سیدنا ابو درداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص طلب علم میں ( یعنی کسی ایک ) راہ چلے اللہ پاک اس کو بہشت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالب علم کے رضا مندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک اور عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی سب ستاروں پر اور بے شک علما وارث انبیاء کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کریں اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔ (ابو داؤد،کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم ،حدیث: 3641)

بے شک عالم کی بہت زیادہ فضیلت ہے اللہ پاک نے خود علم والوں کی مدح فرمائی ۔اللہ پاک نے پارہ 3آل عمران میں ارشاد فرمایا: قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠(۴۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں اور وہ جسے کتاب کا علم ہے۔(پ13، الرعد : 43)چناچہ ہمیں چاہیے کہ علم والوں کی یعنی عالموں کی خدمت کریں ان کی صحبت صالح اختیار کریں کیونکہ کیا پتہ کل بروز قیامت اللہ پاک کے کرم سے یہ ہماری شفاعت کریں۔

اللہ پاک ہمیں ان کی خدمت اور ان سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ (پ 23 ،زمر : 09)اس آیت میں استفہام(سوال) ”نفی“کے معنی میں ہے۔ یعنی علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں۔ کیونکہ علم والے انبیاء ورسل کے وارث ہیں اور انبیاء ورسل سے وراثت میں مال و دولت نہیں بلکہ علم ملا ہے ۔اسی لئے جس طرح انبیاءورسل تمام مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح ان کی وراثت یعنی علم بھی سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔

جو شخص عبادات و ریاضات میں مشغول رہتا ہو تو اس کا علم صرف اپنی عبادات تک محدود رہتا ہے، جتنی عبادت کرتا ہوگا صرف اسی کا علم رکھتا ہوگا۔ اسی کے مقابل ایک عالمِ دین ممکن ہے کہ عبادات کم کرتا ہو لیکن وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اصلاح کا ذمہ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک عابد خود تیر کر کنارے تک پہنچتا ہے جبکہ عالم دین اپنے ساتھ کئی ڈوبتوں کو بھی پار لگاتا ہے۔ عابد آگ سے صرف اپنی کملی بچاتا ہے جبکہ عالم لوگوں کی جان بھی بچاتا ہے۔یہی وجہ ہی کہ احادیثِ مبارکہ میں عالم کی عابد پر فضیلت کا بیان کثرت سے ملتا ہے۔ اسی موقع کے اعتبار سے علماء کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کئے جاتے ہیں:

(1)تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت میرے ادنی صحابی پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر ۔ (سنن ابوداود، کتاب العلم، باب الحث علی الطلب العلم،4/444،حدیث :3641)

(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی کوئی عبادت ایسی نہیں کی گئی جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے افضل ہو اور ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ ہے۔( المعجم الاوسط،4/337، حدیث:6166)

(4) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مومن عالم مومن عابد پر 70درَجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔( جامع بیان العلم وفضلہ،حدیث:84، ص36)

(5) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔( شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717)

ان احادیث مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح ہورہی ہے کہ علمِ دین حاصل کرنا اور سکھانا باقی تمام تر نفلی عبادات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کو عابد پر نہیں بلکہ عابدوں پر کئی درجات فضیلت حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ بروزِ محشر انبیاءورسل کے ساتھ شفاعتِ امت کا حق بھی حاصل ہوگا کہ جس کی چاہیں گے بخشش کروائیں گے گویا کہ عالمِ دین پر اللہ پاک کا خاص کرم دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا ۔

اللہ پاک ہمیں علم سیکھنے، سمجھنے، دوسروں کو سکھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور کروانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


1۔ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ کے سامنے دو  آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی (فضیلت)عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔ (ترمذی کتاب العلم۔ باب ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313 ،حدیث: 2694)

2۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ ورسولہ ترجمہ عالموں کی عزت کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں ۔ تو جس نے انکی عزت کی تحقیق اس نے اللہ و رسول کی عزت کی۔ (کنز العمال ،10/78)

3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اول من یشفع یوم القیامۃ الانبیاء ثم العلماء ثم الشھداء ترجمہ:قیامت والے دن سب سے پہلے انبیاء شفاعت فرمائیں گے پھر علماء پھر شہداء ۔( تفسیر کبیر ،1/86)

4۔امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔( فیضان علم و علما،ص14)

5۔اورمَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھا ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں سفر کرتا ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اُس پر ساىہ کرتے ہىں اور مچھلىاں درىا مىں اور آسمان وزمىن اس کے حق مىں دعا کرتے ہىں۔(ابوداود، کتاب العلم، باب فی کتاب العلم، 3/ 445، حدیث : 3641، بتغیر)


دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ علمائے دین وارثِ علم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں یہ اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے مخلوق میں سے بہترین  ٹھہرے اور وحی الہی کے چشمے سے سیراب ہوکر صحرائے عرب سے نکلےاور اس کائناتِ ارضی کے گوشہ گوشہ میں دولت علم سے انسانوں کی جھولیوں میں دین اسلام کی خیرات ڈال دی وہ جہالت کے پردوں کو ہٹاتے گئے اور ظلمات کو نور سے اڑاتے گئے اسی تہذیب کے مشعل برادر علمائے ربانی کی انتھک کوشش اور محنت تھی کہ یہ آفاق کے ہر ہر گوشہ میں کلام الہی اور سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سناکر بنی آدم کو کفر اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی چاشنی سے متعارف کروا کے علم دین کی روشنی عطا کی اور سرور دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتیں سکھا کر انسان کو زندگی گزارنے کی راہ دکھائی۔یہی علمائے اسلام ہیں جنکے فضائل پر مبنی فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتب احادیث میں علیحدہ ایک عنوان کی شکل اختیار کرگئے۔

(1) روزقیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی ۔(اخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس 486/5 حدیث 488)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد اور دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم.ترجمہ:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے. جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313،حدیث: 2694)

(3) علماء نبیوں کے وارث ہیں ۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں ۔اور جب علماء انتقال کر جاتے ہیں تو مچھلیاں پانی میں قیامت تک ان کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ (کنز العمال،10/77)

(4) خدائے تعالی قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بہشت (جنت) میں جاؤ۔ علماء عرض کریں گے:الہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔ حکم ہو گا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو ، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس (علماء پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت (جنت میں جاویں گے)۔(احياء علوم الدين، كتاب العلم ، الباب الاول في فضل العلم... الخ، 1/ 22)

(5) علمائے حق زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ستارے غروب ہو جائیں گے تو یقیناً ان (ستاروں) سے راہنمائی حاصل کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ (یعنی علماء حق نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔(اخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 157، حدیث: 12621)