الحمدللہ علی احسانہ کہ اللہ پاک نے ہمیں دعوت ِاسلامی کے دینی ماحول میں ایسے ایسے علما عطا فرمائے کہ وہ ہمارے زندگی کے ہر ہر قدم پر ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔بچپن کے تمام معاملات ہوں یا زمانے کے معاملات ہوں یا بڑھاپے کے الغرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں علما کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ان کے پاس نور و ہدایت والی لازوال نعمت علم موجود ہے۔علم و علما کی فضیلت پر مشتمل آیات و احادیث سے استفادہ حاصل کے سینوں کو منور کرتی ہیں۔علم اور علما کی فضیلت کے بارے میں قرآنِ مجید میں بے شمار دلائل ہیں چنانچہ اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے:ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:علمائے کرام عام مومنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔(2)ترجمہ:تو تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔(پ23،الزمر:9)(3)ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28)(4)ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ20،العنکبوت:43)۔علمائے کرام کے فضائل پر احادیثِ مبارکہ:(1)حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں درجۂ نبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں ۔(احیاء العلوم،ص24)(2)اسی طرح حضور سید المبلغین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بروزِ قیامت تین طرح کے لوگ سفارش کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔(احیاء العلوم،ص24)(3)رسولِ محترم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح مختلف کانیں ہیں جو کفر میں اعلیٰ تھے وہ اسلام میں بھی اعلیٰ ہیں جبکہ عالم بن جائیں۔(مراۃ المناجیح،1/184،حدیث: 190)یعنی جو زمانۂ کفر میں عمدہ اخلاق کی وجہ سے اپنے قبیلوں کے سردار تھے پھر جب وہ مسلمان ہو کر علم سیکھ لیں،عالم بن جائیں تو مسلمانوں کے سردار ہی رہیں گے ۔(4)خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو علم کی تلاش میں نکلا وہ واپسی تک اللہ پاک کی راہ میں ہے۔(مراۃ المناجیح،1/197،حدیث:208)یعنی وہ شخص مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا غازی کی طرح گھر لوٹنے تک وہ اس کا سارا وقت اور ہر وقت،ہر حرکت عبادت ہوگی ۔(5) رحمۃ اللعلمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یقیناً اللہ پاک اس امت کے لیے ہر سو سال پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا ۔(مراۃ المناجیح،1/207،حدیث:229)یعنی اس امت کی خصوصیت ہے کہ یوں تو اس میں ہمیشہ ہی علما اور اولیاء ہوتے ہیں اور ہوتے رہے لیکن ہر صدی کے اول یا آخر میں خصوصی مصلحین پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی اشاعت کرتے رہیں گے۔منقول ہے:عالم اس امت کا طبیب جبکہ دنیا اس امت کی بیماری ہے،جب طبیب اچھا ہو تو امت اچھی ہوگی جب طبیب خود ہی بیماری طلب کرتا ہو تو دوسروں کا علاج کیسے کرے گا؟(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص69) حضرت امام زبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:علما میں سے چار علما یہ ہیں:مدینہ منورہ میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کوفہ میں عامر شعبی، بصرہ میں حسن بصری، شام میں مکحول دمشقی رحمۃُ اللہِ علیہم۔(دین ودنیا کی انوکھی باتیں،1/77)دانا لوگوں کے اقوال ہیں کہ افضل ترین علم یہ ہے کہ عالم اپنے علم کی حد پر ٹھہر جائے یعنی اپنے علم سے بڑھ کر باتیں نہ کریں۔ایک دانا کا قول ہے : علم وہ نہیں جو کتابوں میں موجود ہے بلکہ علم تو وہ ہے جو سینوں میں محفوظ ہے۔علم عہدۂ صدارت پر لے جاتا ہے۔جس کا علم روشن ہوگا اس کا چہرہ بھی روشن ہوگا۔ایک بزرگ کا قول ہے:عالم جاہل کو پہچانتا ہے جب کہ جاہل عالم کو نہیں پہچانتا کیونکہ عالم پہلے جاہل تھا جبکہ جاہل کبھی عالم نہیں رہا۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/80) الحاصل علم ایسا نور ہے کہ قبر ،حشر تک ساتھ دے گا۔ اللہ کریم ہمیں باعمل عالمات بنائے اور بہترین عالمات میں ہمارا شمار فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علم وہ نعمت عظمی ہے جس کو حاصل کرنے کا حکم قرآنِ عظیم میں بھی آیا ہے۔جس علم کو حاصل کرنے کا حکم قرآنِ پاک میں آیا ہے۔اس سے مراد علمِ دین ہے۔اسی طرح اگر ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو جو علمِ دین حاصل کرتا ہے اسے عالم کہتے ہیں۔ عالم ہمارے درمیان وہ بلندپایاں ہستیاں ہیں جن کی فضیلت قرآنِ پاک و احادیثِ کریمہ میں جا بجا وارد ہوئی ہے۔قرآنِ پاک میں خود ربِّ کائنات نے کہیں اولوا العلم کہہ کر تو کہیں اوتوا العلم کہہ کر علما کی شان بلند فرمائی ہے۔اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور مقام پر ربِّ قدیر کا ارشاد ہے: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر ۔(پ3،ال عمران:18)اس سے معلوم ہوا!اہل ِعلم بڑے ہی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا لیکن علمائے دین سے مراد علما ربانی ہیں وہ جن کی صحبت سے خدا اور رسول یاد آئیں نہ کہ وہ جن کی صحبت سے اللہ پاک و رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں کمی آئے وہ عالم نہیں بلکہ ظالم ہے۔(صراط الجنان)اسی طرح متعدد احادیث ِکریمہ میں بھی علما کے فضائل وارد ہوئے ہیں جن میں سے لفظ فاطمہ کی نسبت سے 5فرامینِ مصطفٰے درج ذیل ہیں :1:علما انبیا کے وارث ہیں۔2: زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔ لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا جس کے لیے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں! یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے ان کے لیے استغفار میں مشغول ہیں۔3:قیامت کے دن علما کی سیاہی شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی ۔4:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔5:قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔(احیاء العلوم،1/45،46،47،48) مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ سے علما کی فضیلت واضح ہے۔ اسی طرح ایک بزرگ کا قول ہے:علم سے بڑھ کر عزت والی شے کوئی نہیں۔بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جبکہ علما بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں۔مذکورہ فرامین سے ہمیں علمائے کرام کی اہمیت کا پتہ چلا۔ربِّ قدیر سے دعا ہے کہ پروردگار ہمیں علمائے کرام کا احترام اور ان کا حق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔علما کے حق میں یہ بھی ہے کہ جس مسئلے کا حل علما کے پاس تھا وہ خود اپنی سے نہ بتاتابلکہ علما سے رجوع کیا جائے۔


علمِ دین پڑھنے پڑھانے کی فضیلت اور اس کے اجر و ثواب کے کیا کہنے! اس علم سے آدمی کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں اور یہی علم ذریعۂ نجات ہے۔اللہ پاک قرآنِ کریم،فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اللہ ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جن کو علم دیا گیا بہت درجات بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)ہمارے پیارے، مکی مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بہت سی احادیث میں علما کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور علمِ دین پڑھنے پڑھانے والوں کی بزرگیوں اور ان کے مراتب و درجات کی عظمتوں کو بیان فرمایا چنانچہ ایک حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔ پھر فرمایا:اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ سب اس کی بھلائی چاہنے والے ہیں جو عالم لوگوں کو اچھی بات کی تعلیم دیتا ہے۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694)حدیثِ پاک میں فرمایا:عالموں کی دواتوں کی روشنائی کل بروزِ قیامت شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر سبقت لے جائے گی۔(کنزالعمال،10/61،حدیث:28711)ایک اور حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے جن میں سے خشکی اور سمندر میں راستہ کا پتہ چلتا ہے۔ اگر ستارے مٹ جائیں تو چلنے والے بھٹک جائیں۔(مسند امام احمد،4/314،حدیث:12600)حدیثِ پاک:ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت ہے۔(ابن ماجہ،1/61،حدیث:222)حدیثِ مبارکہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:ایک گھڑی رات میں پڑھنا ساری رات عبادت کرنے سے افضل ہے۔(مشکوۃ المصابیح،1/117،حدیث:256)


       علم بہت بڑی دولت ہے۔دولت مندوں کو ہر وقت اپنی دولت کے چوری ہونے کا خطرہ رہتا ہےلیکن علم ایک ایسی دولت ہے اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔دولت خرچ کرنے سے گھٹتی ہے اور علم کو جوں جوں خرچ کیا جائے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(احیاء العلوم،1/42) علما کی فضیلت:ترجمہ:اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے ۔اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اس بات کی گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اپنی گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور اہلِ علم کی گواہی کو ملا یا۔یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیتِ عظیمہ کو بیان کیا گیا ہے۔(علم و علما کی شان،ص27)علما کی فضیلت پر 5فرامینِ مصطفٰے:(1)نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب قیامت کے دن اللہ پاک عابدوں اور مجاہدوں سے فرمائے گا:جنت میں داخل ہو جاؤ تو علما عرض کریں گے:ہمارے علم کے طفیل وہ عابد اور مجاہد بنے یعنی وہ جنت میں گئے اور ہم رہ گئے۔اللہ پاک ارشاد فرمائے گا:تم میرے نزدیک میرے بعض فرشتوں کی طرح ہو۔تم شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو گی چنانچہ وہ شفاعت کریں گے پھر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔(احیاء العلوم،1/ 60)(2)نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اچھوں میں سب سے اچھے علمائے حق ہیں۔(مشکوۃ المصابیح،ص37)(3)قیامت کے دن اللہ پاک عبادت گزاروں سے فرمائے گا:اے علما کے گروہ!میں تمہیں جانتا ہوں، اسی لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب مبتلا کروں! (جاؤ !میں نے تمہیں بخش دیا۔)(احیاء العلوم،1/49)(4)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں اہلِ جنت میں سب سے زیادہ مرتبے والے آدمی کا پتا نہ بتاؤں؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !ضرور بتائیے ،تو آپ نے فرمایا:وہ میری امت کے علما ہیں۔(منہاج العابدین،ص23)(5)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:عالم کا سونا جاہل کی نماز سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص27)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قرآن و حدیث میں علم اور علما کے فضائل بیان ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمِ دین کتنی عمدہ عبادت بلکہ عبادت کی اصل ہے۔علما کا دین میں کتنا مقام و مرتبہ ہے کیونکہ دین کو جتنا علما جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ اگر علما نہ ہوں تو معاشرہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ایک عالم کی موت پورے عالم یعنی دنیا کی موت ہے۔قرآن و حدیث سے علما کے فضائل جانتی ہیں: اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔(پ3،ال عمران:18)اس آیتِ مبارک میں اللہ پاک نے اس بات کی گواہی دینے کے لیے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور علم والوں کی گواہی کو ملایا۔یقیناً اس میں علم والوں کی بہت عظمت ہے۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بکثرت احادیثِ مبارکہ میں بھی علم و علما کی شان بیان کی گئی۔فرامینِ مصطفٰے پڑھیے:حدیث نمبر 1:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور اسے راہِ راست کی ہدایت فرماتا ہے۔(معجم کبیر،حدیث:784،مکاشفۃ القلوب،ص574)حدیث نمبر 2: ارشاد فرمایا:علما،انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارثوں سے بڑھ کر کسی کے وارث کا مرتبہ نہیں۔(ترمذی،حدیث:2491،مکاشفۃ القلوب،ص574)حدیث نمبر3:ارشاد فرمایا: مرتبۂ نبوت میں سب سے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما اس لیے کہ انہوں نے رسولوں کے پیغامات لوگوں تک پہنچائے اور مجاہد اس لیے کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے احکامات کو تلوار کے زور کی طرح پورا کیا اور ان کے احکامات کی پیروی کی۔ مزید ارشاد فرمایا:پورے قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے آسان ہے۔حدیث نمبر4:ارشاد فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی کی دواتیں شہدا کے خون کے برابر تولی جائیں گی۔(مکاشفۃ القلوب،ص574)حدیث نمبر5:نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:عالم علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ جنت پہنچ جاتا ہے۔ نیز فرمایا :عالم بن یا متعلم یعنی طالبِ علم یا علمی گفتگو ے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں یعنی علم سے بغض رکھنے والا نہ بن کہ ہلاک ہو جائے گا۔(مکاشفۃ القلوب،ص575)حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:جو شخص علما کی محفل میں اکثر جاتا ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ ذہن کی الجھنیں کھل جاتی ہیں۔جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے باعثِ مسرت ہوتا ہے۔ اس کا علم اس کے لیے ایک ولایت اور فائدہ ہوتا ہے۔(مکاشفۃ القلوب،ص575)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی علما کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علم ع سے عطیۂ الٰہی،ل سے لازوال نعمت،م سے میراثِ انبیا یعنی انبیا علیہم السلام کی میراث۔علم نور،روشنی اور ہدایت ہے۔ اے عاشقانِ رسول!یقیناًعلمِ دین کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔اسی سے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ قرآن و سنت میں علم اور علما کی بہت اہمیت بیان فرمائی گئی ہے۔علم کی اہمیت و فضیلت سے انکار ممکن نہیں ۔علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت ہے۔اللہ پاک کے ہاں علم کی اہمیت جاننے کے لیے یہی دو باتیں کافی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد سے پہلے انہیں علم کی دولت سے ہی نوازا گیا اور ہمارے پیارے آقا،مکی مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پربھی سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ بھی علم کے متعلق ہی تھی۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں علمائے کرام کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔علم والوں کے آخرت میں درجے بلند ہوں گے فرمانِ باری ہے:ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28، المجادلۃ: 11) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ:تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(پ23، الزمر:9) والدِ اعلی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:یعنی جاہل کسی طرح عالم کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔ (فیضانِ علم و علما ،ص12)اب احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں علمائے کرام کے فضائل پڑھتی ہیں:(1)عالم کی عابد پر فضیلت:جنتی صحابی حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر اور بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں اور بے شک انبیا علیہم الصلوۃ و السلام درہم اور دینار یعنی دنیاوی مال و دولت کا وارث نہیں بناتے بلکہ ان کی وراثت علم ہے تو جس نے اس میں سے لے لیا اس نے بڑا حصہ پا لیا۔( ابن ماجہ،حدیث:219)(2)فرمانِ مصطفٰے! زمین اور آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔(ابن ماجہ،1/146،حدیث:223)لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا جس کے لیے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہوں۔(3)علما کی شہدا پر فضیلت:سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:قیامت کے دن انبیائے کرام علیہم السلام سب سے پہلے شفاعت کریں گے ،پھرعلما اور ان کے بعد شہدا۔(ابن ماجہ،ص2739،حدیث:4313)(4)علمائے کرام کے محتاج:سید المرسلین، خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جیسے لوگ دنیا میں علمائے کرام کے محتاج ہیں جنت میں بھی ان کے محتاج ہوں گے۔ (5)عالم کی 70 درجے فضیلت:اللہ پاک کے آخری نبی،مکی مدنی،محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن عالم، مومن عابد پر70 درجے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص36،حدیث:84)اللہ کریم ہمیں علمِ دین حاصل کرنے اور علمائے کرام کا ادب و احترام اور ان سے راہ نمائی لیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔الحمدللہ علمائے کرام ہمارے راہ نما ہیں ان شاءاللہ ان کی راہ نمائی کی بدولت ہم گمراہی سے محفوظ رہیں گی۔

ہم کو اے عطار !سنی عالموں سے پیار ہے دو جہاں میں ان شاء اللہ اپنا بیڑا پار ہے


علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو نکھرا ہوا موتی بنا دیتی ہے۔علم نفع بخش حاصل کرنا زندگی کا اہم فریضہ ہے کہ علم کا حاصل کرنا مرد و عورت پر فرض ہے۔علم رکھنے والا عالم کہلاتا ہے۔اسی طرح عالم کی بھی دو قسمیں ہیں:1:عالمِ باعمل2: عالمِ بے عمل۔عالمِ با عمل وہ ہوتا ہے جو علم حاصل کرے اور اس پر عمل بھی کرے۔عالمِ بے عمل جو اس کے برعکس ہو اور مرتبۂ نبوت میں سب سے زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہیں جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے:(1)سب لوگوں سے افضل وہ مومن عالم ہے کہ جب اس کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نفع دے اور جب اس سے بے نیازی برتی جائے تو وہ بھی بے نیاز ہو جائے۔مزید ارشاد فرمایا:مرتبۂ نبوت میں سب سے زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہیں۔علما اس لیے کہ انہوں نے رسولوں کے پیغامات لوگوں تک پہنچائے اور مجاہد اس لئے کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے احکامات کو بزورِ شمشیر پورا کیااور ان کے احکامات کی پیروی کی۔(مکاشفۃ القلوب،ص579)اسی طرح عالم کی فضیلت عام لوگوں سے افضل ہوئی لیکن عالمِ با عمل زیادہ فضیلت کا حق دار ہے۔مزید فرمانِ نبوی ہے:(2)عالم علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔(مکاشفۃ القلوب،ص579)علما کی فضیلت میں تو یہاں تک آتا ہے کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔سبحان اللہ!علما کی کیا ہی شان ہے۔اس بارے میں مزید فرمانِ مصطفٰے پیشِ خدمت ہیں:نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(3)علما انبیا کے وارث ہیں اور یہ بدیہی بات ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیا کے وارثوں سے بڑھ کر کسی وارث کا مرتبہ نہیں۔(مکاشفۃ القلوب،ص579)سبحان اللہ!تمام امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں اور دوسروں تک پھیلائیں۔مزید عالم کی فضیلت میں حدیثِ نبوی ہے:عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔(کنزالعمال،حدیث:28711)سبحان اللہ! کتنی شاندار فضیلت ہے علم والوں کی!تو ہمیں چاہیے کہ علمِ دین حاصل کریں اور اگر یہ نہ ہو پائے تو عالمات کی صحبت اختیار کریں۔عالم کو تو عابد پر بھی فضیلت حاصل ہے اگرچہ فرض نماز یا فرض عبادات تو تمام امت پر فرض ہیں لیکن علم حاصل کرنا نوافل وغیرہ سے افضل ہیں جیسا کہ ایک حدیثِ نبوی میں ہے:ایک فقیہ ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔(ابن ماجہ،ص69،حدیث:222)سبحان اللہ!علم کی بھی بہت ہی اقسام ہیں جیسے علم القرآن،علم حدیث،علم الفقہ،علمِ باطنی،علمِ ظاہری وغیرہ ۔حدیثِ نبوی میں بھی علم کی اقسام بیان فرمائی گئی ہیں۔حدیثِ نبوی کی طرف بڑھتی ہیں کہ فرمانِ مصطفٰے ہے:علم کی دو قسمیں ہیں(1)ربانی علم:جو لوگوں پر اللہ پاک کی حجت ہے ۔(مکاشفۃ القلوب،ص566)(2)قلبی علم:یہ علم لوگوں کو نفع دینے والا ہے۔اللہ پاک ہمیں لوگوں کو نفع دینے والا یعنی علم نافع عطا فرمائے۔آمین۔جب علم حاصل کیا جائے تو اسے پھیلایا بھی جائے اور بخل نہ کیا جائے کیونکہ علم ایک ایسا خزانہ ہے جو بانٹنے سے بڑھتا ہے اور علم میں بخل کرنا بہت زیادہ سخت بات ہے کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اپنا علم چھپاتا ہے اللہ پاک اسے آگ کی لگام دے گا۔(مکاشفۃ القلوب،ص566)الامان والحفیظ۔پیاری اسلامی بہنو!ہمیں علم حاصل کر نے میں کوشاں رہنا چاہیے اور اسے دوسروں تک پھیلانا چاہیے۔اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمارے سینوں کو علمِ نافع سے منور فرمائے۔آمین۔ علم چھپانا ایک بہت بری بات ہے اور ایسوں کا شمار علمائے سو میں ہوتا ہے یعنی وہ علما جو علم کے حصول سے دنیاوی نعمتوں کے کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا دنیاوی قدر و منزلت چاہتے ہیں یا دینی واہ وا کے لیے تو یہ علمائے سو کے زمرے میں آتے ہیں۔برے علمائے کرام کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:برے علما کی مثال ایسی چٹان کی سی ہے جو نہر کے منہ پر گر گئی ہو، نہ وہ خود سیراب ہوتی ہے نہ ہی وہ پانی کو راستہ دیتی ہے کہ اس سے کھیتیاں سیراب ہوں۔(مکاشفۃ القلوب،ص569)اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرے ،اس پر عمل پیرا ہو کر دوسروں تک پہنچانا اپنا اہم فریضہ سمجھے اور علما کی فضیلت کو پائے۔اللہ پاک ہمیں علم حاصل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین


علم دنیا و آخرت میں باعثِ اکرام و نجات ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جبکہ علما بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں۔عالم کی عظمت کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تم فرماؤ! کیا علم والے اور بےعلم برابر ہیں؟(الزمر:9)اللہ پاک نے عالم کو جاہل سے ممتاز فرمایا اور جاہل کسی طرح بھی عالم کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔ علما کی فضیلت پر احادیث:1: ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔( فیضان علم و علما،ص18) اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کی دوزخ سے بچاتا ہے اور عالم ایک عالَم کو ہدایت فرماتا اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص18)2:شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا،روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(فیضان علم وعلما،ص14)3:علما کی شفاعت:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔(احیاء العلوم،1 /48) 4:عالم کی زیارت:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کی طرف ایک نظر میرے نزدیک سو برس روزے رکھنے اور سو برس رات کو وافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص38)5:انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث: آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔(احیاء العلوم،1/45) معلوم ہوا !انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی میراث درہم و دینار نہیں بلکہ علم ہے۔غرض علمِ دین سے جس کو بھی حصہ دیا گیا اسے خیر کثیر دی گئی ۔علم ہی وہ معزز چیز ہے جسے انبیا علیہ السلام چھوڑ کر گئے۔علما سے وابستگی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔علما ایسے روشن ستارے ہیں جو لوگوں سے فرضِ کفایہ ساقط کرتے ہیں۔غرض علما کے کیا کیا فضائل ذکر کیے جائیں۔دنیا میں تو ہم ان کی محتاج ہیں ہی آخرت میں بھی ان کی محتاج ہوں گی۔ ہاں! اس کرب کے دن میری مراد آخرت میں بھی لوگ ان کے شفاعت پائیں گے۔اللہ کریم ہمیں علما کا احترام اور ان سے وابستگی عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علمِ دین تو یقیناً بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کاسہرا انہی خوش نصیبوں کے سر پر سجتا ہے جنہیں اللہ پاک اپنے خاص فضل سے نوازتا ہے جیسا کہ محبوبِ رحمن صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔حقیقی علمائے ربانی وہ ہیں جو اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں،جن کی صحبت سے خدا کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے۔علما کی شان تو ربِّ کائنات قرآن میں بیان کرتا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمہ: گواہی دی اللہ نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوا اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے وہ(اللہ)باانصاف(انصاف والا)ہے۔(پ3،اٰلِ عمران:18)تو اس آیت سے تین فضیلتیں معلوم ہوئیں:اول:خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ ہے کہ نہایت یعنی انتہا نہیں رکھتا۔دوم:ان علما کو فرشتے کی طرح اپنی وحدانیت یعنی ایک ہونے کا گواہ اور ان کی گواہی کو وجہِ ثبوتِ الوہیت یعنی اپنے معبود ہونے کی دلیل قرار دیا۔سوم: ان علما کی گواہی مانندِ گواہیِ ملائکہ کے معتبر ٹھہرائی۔علما کی فضیلت پر مبنی پانچ احادیث:حدیث نمبر ایک:ترمذی نے روایت کیا کہ رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم تو آپ نے فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(ترمذی،حدیث:2694)حدیث نمبر2:علم کے سبب بخشش:حدیثِ مبارکہ میں ہے: جب پروردگار قیامت کے روز اپنی کرسی پر فیصلہ فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو علما سے فرمائے گا( جس کا خلاصہ معنی یہ ہے)میں نے اپنا علم و حلم یعنی نرمی تم کو صرف اسی ارادے سے دی کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پروا نہیں۔(معجم کبیر،حدیث: 4694)حدیث نمبر 3:سب سے بڑے سخی:بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک بڑا جواد(یعنی سب سے زیادہ نوازنے والا )ہے اور میں سب سے بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلایا۔(شعب الایمان،2/281،حدیث:1761)حدیث نمبر4:شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے روز علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،ص48،حدیث:139)حدیث نمبر5: 70صدیقین کا ثواب:حدیث شریف میں آیا ہے :جو شخص ایک باب علم کا اوروں یعنی دوسروں کو سکھانے کے لیے سیکھے اس کو 70 صدیقوں کا اجر دیا جائےگا۔ (الترغیب والترہیب،حدیث119) اللہ کریم ہمیں علما کی صحبت سے مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علم وہ خوبصورت اور افضل شے ہے جو ربِّ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد آپ کو سب سے پہلے عطا فرمائی اور جس سے رب کریم بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے ہی اس نعمتِ عظیم سے روشناس فرماتا ہے۔ علم کے بے شمار فضائل و فوائد ہیں جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں صراحتاً موجود ہے۔ علم ایسی افضل نعمت ہے کہ اس نعمت کو حاصل کرنے والا عالم تمام مخلوق میں افضل و برتر ہے ۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔صاحبِ علم ہونے کے بعد ایک عام شخص کو تمام مخلوق میں جو فضیلتیں ملتی ہیں ان کا ذکر حدیثِ مبارکہ میں ملتا ہے۔1:عالم عابد سے افضل:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابی پر۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر۔(احیاء العلوم،ص48)عالم عابد سے افضل ہے اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالم ایک عالَم( بہت سے لوگوں) کی ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکروہ فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص19)حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رات بھر عبادت کرنے والے دن بھر روزہ رکھنے والے مجاہد سے عالم افضل ہے۔(احیاء العلوم،ص49) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :مجھے ایک مسئلہ سیکھنا رات بھر کی عبادت سے زیادہ عزیز ہے۔(فیضان علم و علما،ص21)2:عالم شہید سے افضل:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی۔(احیاء العلوم،ص47)اس ضمن میں حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:علما کی سیاہی شہدا کے خون سے وزن کیا جائے گا تو علما کی سیاہی شہدا کے خون سے بھاری ہوگی۔(احیاء العلوم،ص52)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!راہِ خدا میں مارے جانے والے شہدا جب علما کا مقام دیکھیں گے تو تمنا کریں گے کہ کاش! انہیں بھی عالم اٹھایا جاتا ۔(احیاء العلوم،ص52)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عالم کو عابد اور شہید سے افضل قرار دیا۔احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت ہے کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ،علما عرض کریں گے:انہوں نے ہمارے بتلائے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو۔پس شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر جنت میں جائیں گے۔(فیضان علم و علما،ص16)مجاہد اور شہید کی کتنی فضیلت ہے لیکن عالم کی فضیلت ان سے بھی زیادہ ہے۔جبھی عالم کی فضیلت کو شہید کی فضیلت سے بیان کیا گیا ہے کہ شہید کا کیا ہی مرتبہ ہوگا لیکن بروزِ محشر انہیں بھی یہ حسرت ہوگی کہ کاش! وہ بھی عالم اٹھائے جاتے !شہید تلوار سے لڑتا ہے اور دینِ اسلام کی اپنے خون سے مدد کرتا ہے جبکہ ایک عالم قلم کی مدد سے لڑتا ہے اور کئی لوگوں بلکہ کئی نسلوں کی راہ نمائی کرتا ہے اور قلم کی سیاہی سے دینِ اسلام کو پروان چڑھاتا ہے۔ بروزِ حشر علمائے کرام کے اقلام کی سیاہی شہدا کے خون سے زیادہ ہو گی۔عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور شہید اپنی جان سے دینِ اسلام کی حفاظت کرتا ہے جبکہ عالم اپنے نفس کے ساتھ بہت سے لوگوں کو دوزخ سے بچاتا ہے اور دینِ اسلام کی حفاظت کے ساتھ دینِ اسلام کی تعلیمات سے کئی لوگوں کو مزین بھی کرتا ہے۔اس لیے رب کریم نے عالم کو شفاعت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔علمائے کرام کی فضیلت میں ہے کہ ان کو شفاعت عطا فرمائی گئی۔3:اللہ پاک کے محبوب،نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے ابراہیم!میں علیم ہوں اور ہر صاحبِ علم کو پسند کرتا ہوں۔(احیاء العلوم،ص47)سب سے بڑی فضیلت علمائے کرام کے لیے یہی ہوئی کہ رب کریم ان سے محبت فرماتا ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:میں پسند کرتا ہوں عالم ِدین کو کہ میری صفت علیم ہے اور یہ صفت جس میں آ جاتی ہے وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک علما سے فرمائے گا:اے علما کے گروہ!میں تمہیں جانتا ہوں اسی لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔جاؤ!میں نے تمہیں بخش دیا۔(احیاء العلوم،ص69)سبحان اللہ!اللہ پاک اپنے محبوب بندوں کو بروزِ حشر بخش دے گا اور وہ علمائے کرام سے بہت محبت فرماتا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک اللہ پاک کی ایک چادر محبت ہے۔جو علم کا ایک باب حاصل کر دیتا ہے اللہ پاک اسے چادر پہنا دیتا ہے۔(احیاء العلوم،ص53) 4:اللہ پاک کے امین اور انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔علمائے کرام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔(احیاء العلوم،ص45)جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت یعنی علم سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔علمائے کرام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں کہ نبیوں کی لائی ہوئی شریعت اور علم کو آگے پہنچانے والے ہیں اور اسی طرح یہ علم جو نبیوں کی وراثت ہے آگے سے آگے منتقل ہوتا رہے گا۔علمائے کرام اللہ پاک کے امین ہیں یعنی علم اللہ پاک کی امانت ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اسی لیے علمائے کرام کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور یہ بھی علما کی فضیلت ہے کہ نبیوں کے وارث ہیں اور اللہ پاک کے امین ہیں ۔درجۂ نبوت کے قریب تر ہیں۔ لوگوں میں علما مجاہدین درجۂ نبوت کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔علما تو رسولوں کی لائی ہوئی باتوں کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(احیاء العلوم،ص46)یعنی علما حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرامین لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور مجاہدین شریعت کی حفاظت کے لیے کفار سے لڑتے ہیں۔5:خلق کے محبوب:علمائے کرام اللہ پاک کے محبوب ہیں اور جو رب کریم کا محبوب ہو تو خلق بھی اس کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اس کا ذکر بھی کرتی ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں۔(فیضان علم و علما،ص14)تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔(فیضان علم و علما)سمندر میں مچھلیاں اور سوراخوں میں چونٹیاں،ہوا میں پرندے، زمین والے آسمان والے فرشتے سب اس کا ذکر کرتے ہیں اور ان عظیم ہستیوں کی جدائی پر اس مخلوق کو بہت رنج پہنچتا ہے۔ کسی دانا کا قول ہے: عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔عالم کا چہرہ اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔(احیاء العلوم،ص54)بے شک عالم کا اس دنیا سے رخصت ہونا بہت ہی بڑا صدمہ ہے دنیا والوں کے لیے۔مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم کی موت سے اسلام میں ایسا فتنہ یعنی شگاف پڑتا ہے جسے اس کے نائب کے سوا کوئی نہیں بھر سکتا۔(احیاء العلوم،ص50)ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے آسان ہے۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز روزوں سے بہتر ہے۔ عالم کی زیارت ثواب ہے اور عالم کی موت اسلام میں خلا کر دیتی ہے۔عالم تمام مخلوق میں افضل ہے اور تمام مخلوق عالم سے محبت کرتی ہے ۔بے شک صاحبِ علم ہی عزت دار ہے۔ اللہ پاک علمائے اہل ِسنت کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے اور ان کے علم و عمل میں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین


دنیا کے تمام ادیان(دین کی جمع)میں صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس کو یہ فخر و شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کےلیے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی وحی جو رسولِ کُل،وسیلۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئی اس کا پہلا لفظ ہی اقراء(پڑھو)ہے ۔علمِ دین کا حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش،نجات اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔دنیا آخرت کی بہتری کا سبب ہے۔علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔الغرض علم بے شمار خوبیوں کا جامع ہے۔لہٰذا عقل مند وہی ہے جو طلبِ علمِ دین میں مشغول ہو کر آخرت کا سامان کر جائے۔

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے ہر ایک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر علم حاصل کرنے اور علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمہ:پھر ہم نے اپنے منتخب اور چیدہ بندوں کو قرآن کا وارث بنایا۔(پ22،الفاطر:32)قرآنِ پاک اپنے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمایا اور پھر آپ کے بعد اپنی کتاب کا وارث ان کو بنایا جنہیں بندوں میں سے چن لیا اس لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہیں۔(ابوداود،ص1493،حدیث:3641)علمِ دین حاصل کرنے والا بہت خوش نصیب ہے۔علمائے کرام کی فضیلتیں ان کی شان و عظمت قرآنِ پاک میں بھی بیان کی گئی ہیں،چنانچہ فرمایا گیا:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علمائے کرام عام مومنین سے 700 درجے بلند ہوں گے۔ہر دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔(کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص6)(قوت القلوب،1/241)عالمِ دین کی قسمت پر رشک کرنا چاہیے کہ علمائے کرام کو نہ صرف جنت نصیب ہوگی بلکہ جنت میں عام مومنین سے سات سو درجے بلند مقام بھی حاصل ہوگا۔ علمِ دین حاصل کرنے کے فضائل بے شمار ہیں۔علمائے کرام کے فضائل پر مشتمل احادیثِ کریمہ میں سے چند حدیثیں پڑھتی ہیں۔فرمانِ مصطفٰے ہے:(1)جو کوئی اللہ پاک کے فرائض کے متعلق ایک یا دو یا تین یا چار یا پانچ کلمات سیکھے اور اسے اچھی طرح یاد کر لے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب والترھیب،1/54،حدیث:20-کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص7)علمِ دین حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے والد کے بارے میں منقول ہے:وہ اگرچہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن عالمِ دین کی اہمیت کا احساس رکھنے والے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کے دونوں صاحبزادے محمد غزالی اور احمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہما زیور ِعلمِ شریعت و طریقت سے آراستہ ہوں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ اثاثہ بھی جمع کر رکھا تھا جو ان کے بیٹوں کے حصولِ علم میں بہت کام آیا۔ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح دین حاصل کرنے اور اپنی اولاد کو بھی علمِ دین سکھانے اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ بننا چاہیے۔(اتحاف السادۃ المتقین،1/9ملخصاً)(2)رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ خوشبودار ہے:لوگوں میں درجہ ٔنبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(سیراعلام النبلاء،14/52ملخصاً) (3)حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔(مسند الفردوس،2/833، حدیث:4036)(4)حضورپرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:بروزِ قیامت تین طرح کے لوگ سفارش کریں گے:انبیا، علما،شہدا(ابن ماجہ،ص2739،حدیث:4313)۔حضور تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی جس نے عالم سے مصافحہ کیا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اورجس نے عالم کی صحبت اختیار کی اس نے میری صحبت اختیار کی اورجس نے دنیا میں میری صحبت اختیار کی اللہ پاک اس کو قیامت کے روز میرا نشین بنائے گا۔(تنبیہ الغافلین-فیضان سنت،نیکی کی دعوت،ص289) علمائے کرام کے فضائل بے حد و بے شمار ہیں کے عالم ستر ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے۔علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے مگر آج کل لوگ علمِ دین سے بے بہرا ہو رہے ہیں۔مغربی تعلیم کو اہمیت دی جا رہی ہے مگر سنتوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ علمائے کرام کا منصب نہایت ہی عالی ہے۔اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے والا اور علم کو عام کرنے والا بنا دے۔علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتااور بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں نیک بخت لوگوں میں شامل کر لے۔آمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علمائے کرام وہ خوش نصیب افراد ہیں جن کی تعریف خود ربِّ کائنات نے قرآنِ کریم میں فرمائی ۔اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی علم کے وصف کے متصف فرمایا۔ارشادِ باری ہے:ترجمہ:انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔ (رحمن:3)معلوم ہوا !پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام مخلوق میں سب سے بڑے عالم ہیں صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم گر چنانچہ فرمایا:ترجمہ:بے شک مجھے سکھانے والا بنا کر بھیجا گیا ۔اس چشمۂ علم سے سیراب ہو کر حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم آسمانِ علم و حکمت کے درخشندہ ستارے بنے ۔اپنی امت میں ذریعۂ حصولِ علم بیدار کرنے کے لیے اپنے فرامین کے ذریعے علما کی شان و عظمت کو واضح فرمایا۔چنانچہ فرمایا:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ (ابن ماجہ،1/146،حدیث:223)اس سے پتہ چلا! جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت یعنی علم سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(احیاء العلوم،1/95) ایک جگہ فرمایا:عالم کی فضیلت پر عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابی پر۔(ترمذی،4/214،حدیث:2694)سبحان اللہ!عالم کے رتبے کا کیا کہنا!عابد یعنی عبادت گزار پر عالم کو فضیلت دی گئی۔ عابد خود اپنی ذات کو نفع دیتا ہے جبکہ عالم دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ لیکن یہ بھی تب جبکہ عابد کو خود اپنے فرائض کا علم ہو ورنہ بغیر علم کے عبادت میں مجاہدہ کرنے والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے ۔علما صرف دنیا میں کام نہ آئیں گے بلکہ آخرت میں بھی شفاعت فرمائیں گے۔چنانچہ فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔(ابن ماجہ،4/526،حدیث:4313)بہارِ شریعت میں ہے: اپنے علما اپنے متوسلین یعنی وسیلہ ڈھونڈنے والوں کی شفاعت کریں گے۔ لوگ علما کو اپنے تعلقات یاد دلائیں گے۔ اگر کسی نے عالم کو دنیا میں وضو کے لیے پانی لا کر دیا ہوگا تو وہ بھی یاد دلا کر شفاعت کی درخواست کرے گا حتی کہ اہلِ جنت بھی علما کے محتاج ہوں گے۔ابنِ عساکر کی حدیثِ مبارکہ ہے:اہلِ جنت جنت میں علما کے محتاج ہوں گے۔(89 آیاتِ مبارکہ،ص134)علما کی صرف گفتگو یا عمل ہی فائدہ نہیں دیتا بلکہ ان کے چہرے کی زیارت کرنا بھی عبادت ہے۔فرمانِ آخری نبی ہے:عالم کی طرف ایک بار نظر میرے نزدیک سو برس روزے رکھنے اور سو برس رات کو نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(المقاصد الحسنۃ،ص454،حدیث:125)علمائے کرام تو وہ گروہ ہیں کہ جن کے باعمل کی تو چاندی ہے ہی جو بے عمل ہو وہ بھی محروم نہیں۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے اور خود کو بھلائے ہوئے ہے اس جلتے چراغ کی طرح ہے جو لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتا ہے۔ (بزار،طبرانی) سبحان اللہ!علمائے کرام کے کتنے فضائل ہیں!اے کاش!امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ کی یہ خواہش پوری ہو کہ ہر گھر میں ایک عالمِ دین ضرور ہونا چاہیے۔ الحمدللہ دعوتِ اسلامی حصولِ علم کے بہت ذرائع فراہم کرتی ہے۔ عالم و عالمہ کورس کرنا چاہیں تو جامعۃ المدینہ،مطالعہ کرنا ہو تو مکتبۃ المدینہ سے شائع شدہ کتابیں و رسائل،اگر آن لائن میں آسانی ہے تو فیضان آن لائن اکیڈمی،اگر گھر بیٹھی ہوں تو الیکٹرونک مبلغ مدنی چینل آپ کے گھر میں موجود۔الغرض بے شمار ذرائع موجود ہیں۔تو جلدی کیجیے!علمائے کرام کے فضائل کو پانے کے لیے کسی بھی حصولِ علم کے ذریعے کو اپنا کر سعی شروع فرما دیجیے۔ اللہ پاک ہم سب کو عالمہ با عمل بنائے۔