دنیا کے تمام ادیان(دین کی جمع)میں صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس کو یہ فخر و شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کےلیے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی وحی جو رسولِ کُل،وسیلۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئی اس کا پہلا لفظ ہی اقراء(پڑھو)ہے ۔علمِ دین کا حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش،نجات اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔دنیا آخرت کی بہتری کا سبب ہے۔علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔الغرض علم بے شمار خوبیوں کا جامع ہے۔لہٰذا عقل مند وہی ہے جو طلبِ علمِ دین میں مشغول ہو کر آخرت کا سامان کر جائے۔

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے ہر ایک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر علم حاصل کرنے اور علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمہ:پھر ہم نے اپنے منتخب اور چیدہ بندوں کو قرآن کا وارث بنایا۔(پ22،الفاطر:32)قرآنِ پاک اپنے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمایا اور پھر آپ کے بعد اپنی کتاب کا وارث ان کو بنایا جنہیں بندوں میں سے چن لیا اس لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہیں۔(ابوداود،ص1493،حدیث:3641)علمِ دین حاصل کرنے والا بہت خوش نصیب ہے۔علمائے کرام کی فضیلتیں ان کی شان و عظمت قرآنِ پاک میں بھی بیان کی گئی ہیں،چنانچہ فرمایا گیا:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علمائے کرام عام مومنین سے 700 درجے بلند ہوں گے۔ہر دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔(کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص6)(قوت القلوب،1/241)عالمِ دین کی قسمت پر رشک کرنا چاہیے کہ علمائے کرام کو نہ صرف جنت نصیب ہوگی بلکہ جنت میں عام مومنین سے سات سو درجے بلند مقام بھی حاصل ہوگا۔ علمِ دین حاصل کرنے کے فضائل بے شمار ہیں۔علمائے کرام کے فضائل پر مشتمل احادیثِ کریمہ میں سے چند حدیثیں پڑھتی ہیں۔فرمانِ مصطفٰے ہے:(1)جو کوئی اللہ پاک کے فرائض کے متعلق ایک یا دو یا تین یا چار یا پانچ کلمات سیکھے اور اسے اچھی طرح یاد کر لے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب والترھیب،1/54،حدیث:20-کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص7)علمِ دین حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے والد کے بارے میں منقول ہے:وہ اگرچہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن عالمِ دین کی اہمیت کا احساس رکھنے والے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کے دونوں صاحبزادے محمد غزالی اور احمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہما زیور ِعلمِ شریعت و طریقت سے آراستہ ہوں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ اثاثہ بھی جمع کر رکھا تھا جو ان کے بیٹوں کے حصولِ علم میں بہت کام آیا۔ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح دین حاصل کرنے اور اپنی اولاد کو بھی علمِ دین سکھانے اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ بننا چاہیے۔(اتحاف السادۃ المتقین،1/9ملخصاً)(2)رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ خوشبودار ہے:لوگوں میں درجہ ٔنبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(سیراعلام النبلاء،14/52ملخصاً) (3)حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔(مسند الفردوس،2/833، حدیث:4036)(4)حضورپرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:بروزِ قیامت تین طرح کے لوگ سفارش کریں گے:انبیا، علما،شہدا(ابن ماجہ،ص2739،حدیث:4313)۔حضور تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی جس نے عالم سے مصافحہ کیا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اورجس نے عالم کی صحبت اختیار کی اس نے میری صحبت اختیار کی اورجس نے دنیا میں میری صحبت اختیار کی اللہ پاک اس کو قیامت کے روز میرا نشین بنائے گا۔(تنبیہ الغافلین-فیضان سنت،نیکی کی دعوت،ص289) علمائے کرام کے فضائل بے حد و بے شمار ہیں کے عالم ستر ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے۔علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے مگر آج کل لوگ علمِ دین سے بے بہرا ہو رہے ہیں۔مغربی تعلیم کو اہمیت دی جا رہی ہے مگر سنتوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ علمائے کرام کا منصب نہایت ہی عالی ہے۔اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے والا اور علم کو عام کرنے والا بنا دے۔علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتااور بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں نیک بخت لوگوں میں شامل کر لے۔آمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم