علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو نکھرا
ہوا موتی بنا دیتی ہے۔علم نفع بخش حاصل کرنا زندگی کا اہم فریضہ ہے کہ علم کا حاصل
کرنا مرد و عورت پر فرض ہے۔علم رکھنے والا عالم کہلاتا ہے۔اسی طرح عالم کی بھی دو
قسمیں ہیں:1:عالمِ باعمل2: عالمِ بے عمل۔عالمِ با عمل وہ ہوتا ہے جو علم حاصل کرے اور
اس پر عمل بھی کرے۔عالمِ بے عمل جو اس کے برعکس ہو اور مرتبۂ نبوت میں سب سے
زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہیں جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے:(1)سب لوگوں سے افضل وہ
مومن عالم ہے کہ جب اس کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نفع دے اور جب اس سے بے نیازی
برتی جائے تو وہ بھی بے نیاز ہو جائے۔مزید ارشاد فرمایا:مرتبۂ نبوت میں سب سے
زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہیں۔علما اس لیے کہ انہوں نے رسولوں کے پیغامات لوگوں
تک پہنچائے اور مجاہد اس لئے کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
کے احکامات کو بزورِ شمشیر پورا کیااور ان کے احکامات کی پیروی کی۔(مکاشفۃ
القلوب،ص579)اسی
طرح عالم کی فضیلت عام لوگوں سے افضل ہوئی لیکن عالمِ با عمل زیادہ فضیلت کا حق دار
ہے۔مزید فرمانِ نبوی ہے:(2)عالم علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ جنت میں
پہنچ جاتا ہے۔(مکاشفۃ
القلوب،ص579)علما
کی فضیلت میں تو یہاں تک آتا ہے کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔سبحان اللہ!علما کی کیا
ہی شان ہے۔اس بارے میں مزید فرمانِ مصطفٰے پیشِ خدمت ہیں:نبیِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(3)علما انبیا کے
وارث ہیں اور یہ بدیہی بات ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیا کے وارثوں سے بڑھ کر کسی وارث کا مرتبہ نہیں۔(مکاشفۃ
القلوب،ص579)سبحان
اللہ!تمام امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں اور دوسروں
تک پھیلائیں۔مزید عالم کی فضیلت میں حدیثِ نبوی ہے:عالموں کی دواتوں کی روشنائی
قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔(کنزالعمال،حدیث:28711)سبحان
اللہ! کتنی شاندار فضیلت ہے علم والوں کی!تو ہمیں چاہیے کہ علمِ دین حاصل کریں اور
اگر یہ نہ ہو پائے تو عالمات کی صحبت اختیار کریں۔عالم کو تو عابد پر بھی فضیلت
حاصل ہے اگرچہ فرض نماز یا فرض عبادات تو تمام امت پر فرض ہیں لیکن علم حاصل کرنا
نوافل وغیرہ سے افضل ہیں جیسا کہ ایک حدیثِ نبوی میں ہے:ایک فقیہ ایک ہزار عابدوں
سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔(ابن ماجہ،ص69،حدیث:222)سبحان
اللہ!علم کی بھی بہت ہی اقسام ہیں جیسے علم القرآن،علم حدیث،علم الفقہ،علمِ باطنی،علمِ
ظاہری وغیرہ ۔حدیثِ نبوی میں بھی علم کی اقسام بیان فرمائی گئی ہیں۔حدیثِ نبوی کی
طرف بڑھتی ہیں کہ فرمانِ مصطفٰے ہے:علم کی دو قسمیں ہیں(1)ربانی علم:جو لوگوں پر
اللہ پاک کی حجت ہے ۔(مکاشفۃ القلوب،ص566)(2)قلبی علم:یہ
علم لوگوں کو نفع دینے والا ہے۔اللہ پاک ہمیں لوگوں کو نفع دینے والا یعنی علم
نافع عطا فرمائے۔آمین۔جب علم حاصل کیا جائے تو اسے پھیلایا بھی جائے اور بخل نہ
کیا جائے کیونکہ علم ایک ایسا خزانہ ہے جو بانٹنے سے بڑھتا ہے اور علم میں بخل
کرنا بہت زیادہ سخت بات ہے کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اپنا علم چھپاتا ہے اللہ
پاک اسے آگ کی لگام دے گا۔(مکاشفۃ القلوب،ص566)الامان
والحفیظ۔پیاری اسلامی بہنو!ہمیں علم حاصل کر نے میں کوشاں رہنا چاہیے اور اسے
دوسروں تک پھیلانا چاہیے۔اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمارے سینوں کو علمِ
نافع سے منور فرمائے۔آمین۔ علم چھپانا ایک بہت بری بات ہے اور ایسوں کا شمار
علمائے سو میں ہوتا ہے یعنی وہ علما جو علم کے حصول سے دنیاوی نعمتوں کے کمانے کا
ارادہ رکھتے ہیں یا دنیاوی قدر و منزلت چاہتے ہیں یا دینی واہ وا کے لیے تو یہ علمائے
سو کے زمرے میں آتے ہیں۔برے علمائے کرام کے بارے میں حضرت عیسی علیہ
السلام
نے فرمایا:برے علما کی مثال ایسی چٹان کی سی ہے جو نہر کے منہ پر گر گئی ہو، نہ وہ
خود سیراب ہوتی ہے نہ ہی وہ پانی کو راستہ دیتی ہے کہ اس سے کھیتیاں سیراب ہوں۔(مکاشفۃ
القلوب،ص569)اس
لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرے ،اس پر عمل پیرا ہو کر دوسروں تک
پہنچانا اپنا اہم فریضہ سمجھے اور علما کی فضیلت کو پائے۔اللہ پاک ہمیں علم حاصل
کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین