الحمدللہ علی احسانہ کہ اللہ پاک نے ہمیں دعوت ِاسلامی
کے دینی ماحول میں ایسے ایسے علما عطا فرمائے کہ وہ ہمارے زندگی کے ہر ہر قدم پر
ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔بچپن کے تمام معاملات ہوں یا زمانے کے معاملات ہوں یا
بڑھاپے کے الغرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں علما کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ان کے پاس
نور و ہدایت والی لازوال نعمت علم موجود ہے۔علم و علما کی فضیلت پر مشتمل آیات و
احادیث سے استفادہ حاصل کے سینوں کو منور کرتی ہیں۔علم اور علما کی فضیلت کے بارے
میں قرآنِ مجید میں بے شمار دلائل ہیں چنانچہ اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے:ترجمہ:اللہ
تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔ حضرت ابنِ
عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں:علمائے کرام عام مومنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے
درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔(2)ترجمہ:تو تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے
اور انجان۔(پ23،الزمر:9)(3)ترجمہ:اللہ
سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28)(4)ترجمہ:اور
یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ20،العنکبوت:43)۔علمائے
کرام کے فضائل پر احادیثِ مبارکہ:(1)حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں درجۂ
نبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم
السلام
کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے
کرام علیہم
الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے
ہیں ۔(احیاء
العلوم،ص24)(2)اسی
طرح حضور سید المبلغین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بروزِ قیامت تین طرح کے لوگ سفارش
کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔(احیاء العلوم،ص24)(3)رسولِ
محترم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح مختلف کانیں ہیں جو کفر میں اعلیٰ تھے
وہ اسلام میں بھی اعلیٰ ہیں جبکہ عالم بن جائیں۔(مراۃ
المناجیح،1/184،حدیث: 190)یعنی جو زمانۂ کفر میں عمدہ اخلاق کی
وجہ سے اپنے قبیلوں کے سردار تھے پھر جب وہ مسلمان ہو کر علم سیکھ لیں،عالم بن
جائیں تو مسلمانوں کے سردار ہی رہیں گے ۔(4)خاتم النبیین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو علم کی تلاش میں نکلا وہ
واپسی تک اللہ پاک کی راہ میں ہے۔(مراۃ المناجیح،1/197،حدیث:208)یعنی
وہ شخص مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا غازی کی
طرح گھر لوٹنے تک وہ اس کا سارا وقت اور ہر وقت،ہر حرکت عبادت ہوگی ۔(5) رحمۃ
اللعلمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:یقیناً اللہ پاک اس امت کے لیے
ہر سو سال پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا ۔(مراۃ
المناجیح،1/207،حدیث:229)یعنی اس امت کی خصوصیت ہے کہ یوں تو اس
میں ہمیشہ ہی علما اور اولیاء ہوتے ہیں اور ہوتے رہے لیکن ہر صدی کے اول یا آخر
میں خصوصی مصلحین پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی اشاعت کرتے رہیں گے۔منقول ہے:عالم
اس امت کا طبیب جبکہ دنیا اس امت کی بیماری ہے،جب طبیب اچھا ہو تو امت اچھی ہوگی
جب طبیب خود ہی بیماری طلب کرتا ہو تو دوسروں کا علاج کیسے کرے گا؟(دین
و دنیا کی انوکھی باتیں،ص69) حضرت امام زبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:علما
میں سے چار علما یہ ہیں:مدینہ منورہ میں حضرت
سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ
کوفہ میں عامر شعبی، بصرہ میں حسن بصری،
شام میں مکحول دمشقی رحمۃُ اللہِ علیہم۔(دین ودنیا کی انوکھی باتیں،1/77)دانا
لوگوں کے اقوال ہیں کہ افضل ترین علم یہ ہے کہ عالم اپنے علم کی حد پر ٹھہر جائے
یعنی اپنے علم سے بڑھ کر باتیں نہ کریں۔ایک دانا کا قول ہے : علم وہ نہیں جو
کتابوں میں موجود ہے بلکہ علم تو وہ ہے جو سینوں میں محفوظ ہے۔علم عہدۂ صدارت پر
لے جاتا ہے۔جس کا علم روشن ہوگا اس کا چہرہ بھی روشن ہوگا۔ایک بزرگ کا قول ہے:عالم
جاہل کو پہچانتا ہے جب کہ جاہل عالم کو نہیں پہچانتا کیونکہ عالم پہلے جاہل تھا
جبکہ جاہل کبھی عالم نہیں رہا۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/80)
الحاصل علم ایسا نور ہے کہ قبر ،حشر تک ساتھ دے گا۔ اللہ کریم ہمیں باعمل عالمات
بنائے اور بہترین عالمات میں ہمارا شمار فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم