علم کی طلب اور اس کی تلاش آج اس دور میں جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔علم سے مراد قرآن و حدیث اور تفسیر و فقہ اور وہ جو دین کے لیے مفید ہوں وہی مراد ہے۔ کالج،اسکولوں اور دوسرے فنون مراد نہیں ہے۔ آج کے دور میں علومِ اسلامیہ کو صرف مخصوص طبقے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے حالانکہ علمِ دین، علم شرعی حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ علم کی فرضیت سے متعلق قرآن و حدیث سے ہمیں روشنی حاصل ہوتی ہے،اسی طرح علم پڑھانے والوں، سکھانے والوں کے بھی بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے، چنانچہ حج کا ثواب:(1)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص دین کی حالت صبح یا شام کو چلا وہ جنت میں ہے۔(حلیۃ الاولیا،جلد2-ھامع صغیر،ص176) شیخ عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کو ان لفظوں میں نقل فرماتے ہیں:جو شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت چلے اور اس کا ارادہ صرف یہ ہو کہ وہ علمِ دین سیکھے اور سیکھائے تو اس کے لیے پورے حج کا ثواب ہے ۔(طبرانی)(2)دنیا میں جنتی لوگ:سید المبلغین،رحمۃ اللعلمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو صبح شام جائے اس حال میں کہ وہ اپنے دین سکھانے میں مصروف ہو تو وہ جنت میں ہے۔(حلیۃ الاولیاء) شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:(3)امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،ص48،حدیث:139)(4)علما شفاعت کریں گے:احیاء العلوم میں مرفوعاً(مرفوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تک پہنچتی ہو) روایت کرتے ہیں: خدا پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ!علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جائیں گے۔(فیضان علم و علما،ص14)(3):اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص19)سبحان اللہ!فرامینِ مصطفٰے کی روشنی میں علمائے کرام کی کیسی عظیم شان معلوم ہوتی ہے کہ ان کے لیے چرند پرند بھی فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں، بھلائی چاہتے ہیں،اللہ پاک کی حفاظت اور رحمت میں ہوتے ہیں،دنیا میں رہتے ہوئے علما کے لیے جنت کی فضیلت ہے،دنیا والے علما کی قدر کرتے ہیں ۔حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔معلوم ہوا!عالم کی زیارت و صحبت بھی عبادت ہے۔دورِ حاضر میں دعوتِ اسلامی لاتعداد مرد و خواتین کو عالم/عالمہ کورس کی مفت تعلیم دے رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے اور والیاں علم وعمل کے پیکر بن کر نکلیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ معلمِ عظیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں علم وعمل کی دولت اور علما کے بابرکت فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:علم مدارِ کار اور قطبِ دین ہے۔یعنی علم دین میں کامیابی کی بنیاد ہے یعنی علم کے بغیر کوئی انسان خدا پاک تک معرفت حاصل نہیں کر سکتا۔فی الواقع کوئی کمال دنیا و آخرت میں بغیر اس صفت یعنی علم کے حاصل اور ایمان کے بغیر اس کے کامل نہیں ہوتا۔بے علم نتواں خدارا شناخت یعنی بغیر علم کے خدا کو پہچان نہیں سکتے۔اللہ پاک کی طرف علم سے قریب تر اور کوئی چیز خدا کے نزدیک جہل یعنی بے عملی سے بدتر نہیں ۔اگر خدا پاک کے نزدیک کوئی شے علم سے بہتر ہوتی تو حضرت آدم علیہ السلام کو مقابلہِ ملائکہ یعنی فرشتوں کے مقابل میں دی جاتی۔فرشتوں کا پاکی بیان کرنا علم اسماء کے برابر نہیں ٹھہری اور پھر دین کا علم کس قدر مرتبے والا اور اس علم کے ماہر اور جاننے والے کیسے ہوں گے!قرآنِ کریم سے علما کے فضائل:قرآنِ مجید پارہ 22،سورۂ فاطر: 28 میں فرمانِ رب العزت ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ ڈر کو علما کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر اور بے پروائی اور احوالِ دوزخ اور احوالِ قیامت کو تفصیل سے نہیں جان سکتا اور تفصیل ان چیزوں کی علما کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں علما کی فضیلت:حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:1:ایک عالم شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے کیونکہ عابد اپنے لیے کرتا ہے اور عالم دوسروں کے لیے کرتا ہے۔(کنزالعمال،ص76،حدیث:28904)حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:2:اس عالم سے بڑھ کر شیطان کی کمر توڑ کر رکھ دینے والی کوئی شے نہیں جو اپنے قبیلے میں ظاہر ہو۔ (کنزالعمال:28751)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:3:ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے اندر عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر اور علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث و جانشین ہیں۔انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کا ترکہ دینار و درہم نہیں ہیں۔انہوں نے وراثت میں صرف علم چھوڑا جس نے اسے حاصل کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔ (ترمذی،حدیث:2691)4:شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا، روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آ جائے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،حدیث:139)5:علما شفاعت کریں گے:احیاء العلوم میں روایت ہے کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ!علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا، حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو ،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس وہ شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جائیں گے۔(احیاء العلوم،ص26)6:علما کی مجلس میں حاضری کی فضیلت:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔(قوت القلوب،ص257)7:درجۂ نبوت سے قریب تر:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے یعنی لوگوں میں سے درجۂ نبوت سے علما اور مجاہدین ہیں۔(احیاء العلوم،ص20)رات بھر عبادت سے بہتر:ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان علم والے اور علم والوں کی قدر کرنے والے تھے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان علم حاصل کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لینا پسند فرماتے چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مجھے ایک مسئلہ سیکھنا رات بھر کی عبادت سے زیادہ عزیز ہے۔حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عالم روزہ دار شب دار یعنی دن رات عبادت کرنے والے مجاہد سے افضل ہے۔ مخلوق کی بربادی کا سبب:حضرت امام محی السنۃ بغوی رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ہلاکِ خلق یعنی مخلوق کی بربادی کی علامت موت علما کی ہے یعنی جب علما مر جائیں گے لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ ہمیں اللہ پاک سے دعا کرتی رہنا چاہیے کہ ہمیں علمائے اہل سنت سے محبت کرنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی چلائے ۔رضائے الٰہی کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنے اور علما کے فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


علمائے ربانی وہ ہیں جو خود اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں،جن کی محبت سے خدا کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے۔ جس عالم کی محبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت میں کمی نہ آئے وہ عالم ہے۔ علمِ دین یقیناً بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا سہرا انہی خوش نصیبوں کے سر پر سجتا ہےجنہیں اللہ پاک اپنے فضل سے خاص نوازتا ہے۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔علما کے فضائل پر اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: گواہی دی اللہ نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوائے اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے وہ اللہ باانصاف یعنی انصاف کرنے والا ہے۔ آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول: ملک شام کے غیر مسلم علما میں سے دو افراد سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب انہوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا:نبیِ آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہر کی یہی صفت ہے جو اس شہر میں پائی جاتی ہے۔پھر جب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صورتِ مبارکہ اور اوصافِ کریمہ کو تورات کے مطابق دیکھ کر فوراً آپ کو پہچان لیا اور عرض کی:آپ محمد(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) ہیں؟ تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہاں !انہوں نے پھر عرض کی:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کی :ہم آپ سے ایک سوال کریں گے اگر آپ نے درست جواب دے دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: سوال کرو ،انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے؟ اس پر مذکورہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اسے سن کر وہ دونوں شامی علما مسلمان ہو گئے۔ اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیا علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیا رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس سے معلوم ہوا اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ رب کریم نے انہیں اپنی توحید کاگواہ اپنے ساتھ بنایا لیکن علمائے دین سے مراد علمائے ربانی ہیں یعنی صحیح العقیدہ اور صالحین علما ہیں۔علما کے فضائل: حدیث نمبر1: امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا، ایک عابد اور دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا: بزرگی عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر ۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694) حدیث نمبر2:احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ! علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو ،پس پہلے علما شفاعت کریں گے پھر جنت میں جائیں گے ۔(احیاء العلوم،1/62)حدیث نمبر 3:امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔ (منہاج العابدین،ص11)حدیث نمبر4: امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا،روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ (جامع البیان و فضلہ،ص47،حدیث:139)حدیث نمبر5: ابو داؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص طلبِ علم میں کسی راہ پر چلا تو خدا اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور آسمان والے یہاں تک مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت سب ستاروں پر اور بے شک علما وارثِ انبیا ہیں اور بے شک پیغمبروں نےدرہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔علما کی مجلس کے فوائد:حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص عالم کی مجلس میں جائے اس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگرچہ اس سے استفادہ یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرے۔1: جب جب تک اس مجلس میں رہتا ہےگناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔2:طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔3:طلبِ علم کا ثواب پاتا ہے۔4: اس رحمت میں کہ جلسۂ علم پر نازل ہوتی ہے۔5:جب تک علمی باتیں سنتا ہے عبادت میں ہے۔6:جب کوئی مشکل بات ان علما کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی تو دل ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں میں لکھا جاتا ہے۔7: علم و علما کی عزت اور جہل وفسق کی ذلت سے واقف ہو جاتا ہے۔اقوالِ علما:1:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالمِ با عمل کو ملکوتِ آسمان میں عظیم یعنی بڑا شخص کہتے ہیں۔2حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے درجۂ نبوت سے علما ومجاہدین ہیں یعنی ان علما کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبے سے بنسبت تمام خلق مخلوق کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز پر جو پیغمبر لائے تلاوت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس پر کہ پیغمبر تلواروں سے لڑتے ہیں۔حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم روزہ دار، شب بیدار یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے مجاہد سے افضل ہے۔دعا:الحمد للہ ہم نے اس مضمون میں علم و علما کے فضائل پڑھے۔اللہ پاک ہمیں علم و علما کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔آمین اللھم آمین 


علمِ دین یقیناً بہت بڑی نعمت ہے اور جو خوش نصیب لوگ اسے حاصل کرتے ہیں یقیناً وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا فضل خاص ہوتا ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں علما کے متعلق فرماتا ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28)مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ڈر کو علما کے ساتھ خاص لیے کیا گیا کہ ظاہر ہے کہ جب تک انسان اللہ پاک کے غضب اور بے نیازی اور دوزخ کے احوال اور قیامت کی ہولناکیوں کو تفصیل کے ساتھ نہیں جانتا اس وقت تک حقیقتِ خوف و خشیت اس کو حاصل نہیں ہوتی اور ان چیزوں کی تفصیل علما کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔(فیضان علم و علما،ص11)علمِ دین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اللہ پاک کے نزدیک کوئی شے علمِ دین سے بہتر ہوتی تو وہ ملائکہ کے مقابلے میں حضرت آدم علیہ السلام کو دی جاتی کہ فرشتوں کی تسبیح حضرت آدم علیہ السلام کے علم ِاسما کے برابر نہ ٹھہری تو پھر دیگر علومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہو گی اور غور کیجیے!جب کوئی اس علم کو حاصل کر لے تو اس کی عظمت و بلندی کا کیا مقام ہوگا! نورِ علم کو جہاں میں بانٹتے پھریں چراغ کو چراغ سے جلائیں گے یہ عزم ہے۔اس کے علاوہ بہت سی آیات و احادیث میں علما کے فضائل بیان ہوئے،چنانچہ 5 فرامینِ مصطفٰے پڑھئے۔1:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خدائے پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے یعنی کوئی انسان اپنے انجام سے واقف نہیں ہوتا لیکن فقیہ، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اخبار کے ذریعے اپنے انجام کو جانتا ہے اور یہ اللہ پاک نے اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا۔(فیضان علم و علما،ص16) 2:آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا: ایک عابد اور دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر ۔(فیضان علم و علما،ص14)3:آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ یعنی عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے جبکہ عالم پوری دنیا کو ہدایت کرتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے بچاتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص18)4: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو علما کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(فیضان علم و علما،ص14)5:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو طلبِ علم میں کسی راہ پر چلے خدا اسے بہشت کی راہوں میں سے ایک راہ پر چلا دے گا۔بے شک فرش اپنے بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں۔بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر۔ بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا ۔(فیضان علم و علما)

ہم کو اے عطا ر سنی عالموں سے پیار ہے ان شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے


راہِ ہدایت پر چلنے کے لیے گناہوں اور گمراہی والی اندھیری زندگی میں علم چراغ کی  روشن لو اور علما اس روشن چراغ کے تیل کی مانند ہیں کہ چراغ میں تیل نہ ہو تو وہ روشن بھی نہ ہو اور نہ بندہ ہدایت پا سکے ۔اللہ پاک کے نیک اور علم والے بندے ہی اس سے ڈرتے ہیں اور اس کی معرفت رکھتے ہیں اور وہ ہی امت کے لیئے راہنما ہوتے ہیں ۔ علمائے کرام کو اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ اس کا مکمل بیان کرنا مشکل ہے۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو روکا ہوگا حساب کتاب کے لیئے اور علما کو شفاعت کے لیئے۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے علما کے کثرت سے فضائل بیان کیےقرآنِ پاک میں ہے:اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعلماءُ۔ترجمۃ:اللہ پاک سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ بندےکے دو احوال ہیں دنیاوآخرت اور علما ئے کرام دونوں احوالوں میں نہ صرف عام لوگوں پرفضیلت رکھنے والے ہیں بلکہ عابدین پر بھی فضیلت رکھتےہیں چنانچہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ(علم فقہ جاننے والا) ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔ (فیضان امہات المؤمنين،ص:118) ،بلکہ ان کے دواتوں کی روشنائی اور شہدا کے خون کا وزن کیا جائے گا۔ فرمایا ہے:عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی ۔(فیضان امہات المؤمنين،ص:118)اس کے لئے دعائےمغفرت کی جاتی ہے۔سرکاردوعالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمین کی مخلوق یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو دین کا علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(مشكواةالمصابیح ،کتاب العلم ،ج 1، ح:202)۔اور ان کو مقام شفاعت عطا ہو گا۔حضورِ انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:’’ تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717) اور جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہونگے۔آپ کا فرمان عالیشان ہے:جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہونگے اس لئے کے وہ ہر جمعہ کو اس لئے کے وہ ہر جمعہ کو اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہونگے۔اللہ پاک فرمائے گا:یعنی مجھ سے مانگو جو چاہواور وہ جنتی علمائے کرام کی طرف متوجہ ہونگے کہ اپنے رب کریم سے کیا مانگیں؟یہ مانگو وہ مانگو!جیسے وہ لوگ دنیا میں علما کے محتاج تھے جنت میں بھی ان کے محتاج ہونگے۔(مدنی پنج سورہ،ص:118) یاد رہے! یہ تمام فضائل علمائے حق کے لیئے ہیں جنہوں نے اخلاص کےساتھ علمِ دین پھیلایا ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین


اللہ پاک نے فرمایا:میں چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں عیاں  ہوجاؤں تو میں نے کائنات تخلیق فرما دی۔اس کائنات میں اللہ پاک نے بہت سی مخلوقات کو پیدا فرمایا جن میں حضرت انسان کو بھی تخلیق فرمایا اور اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا،پھر انہی انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ پاک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جنہوں نے انسان کو اس دنیا میں آنے کا مقصد سمجھایا۔ پیغمبروں کا یہ سلسلہ نبیِ آخر الزماں،حضور محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آ کر اختتام پذیرہوا۔آپ جناب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ نبیوں کے علم کے وارث کون ہوں گے؟ کون اب آنے والی نسل کو شریعتِ محمدی کی تعلیم دے گا؟ تو اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے علمائے کرام کو یہ شرف بخشا۔ یہ لوگ اللہ پاک کے بہت ہی خاص بندے ہوتے ہیں۔قرآن و حدیث میں علمائے کرام کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر علما نہ ہوتے تو لوگ چوپائیوں کی مثل ہوتے۔شرح: مطلب یہ کہ علما لوگوں کو علم سکھا کر حیوانیت سے نکال کر انسانیت میں داخل کرتے ہیں۔ حدیثِ پاک نمبر 1:پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کے دن اللہ پاک عابدوں اور مجاہدوں سے فرمائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ تو علما عرض کریں گے: ہمارے علم کے طفیل وہ عابد اور زاہد بنے وہ جنت میں گئے اور ہم رہ گئے! اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: تم میرے نزدیک میرے بعض فرشتوں کی طرح ہو، تم شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوئی چنانچہ وہ شفاعت کریں گے پھر وہ جنت میں داخل گے۔(احیاء العلوم،1/60) کسی دانا کا قول ہے:عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔عالم کا چہرہ اوجھل ہوجاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔عالم کے فضائل پر ایک اور حدیث پڑھئے:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ پاک ہے:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی، جس نے عالم سے ہاتھ ملایا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جو دنیا میں میرے پاس بیٹھا وہ روزِ حساب بھی میرے پاس ہی بیٹھے گا۔(تنبیہ الغافلین،ص167)حدیث نمبر3:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علما دنیا کے چراغ ہیں اور انبیا کے جانشین، میرے اور دیگر انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔(کنزالعمال،10/77)ایک بزرگ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے:علما کی سیاہی کا شہدا کے خون سے وزن کیا جائے گا تو علما کی سیاہی شہدا کے خون سے بھاری ہوگی۔علما کے فضائل سے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ پڑھئے:حدیث نمبر4:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک عالمِ دین کے لیے آسمانوں اور زمین کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے بخشش مانگتی ہیں۔یقیناً عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ نبیوں نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم وراثت میں چھوڑا ہے ۔جس نے علم حاصل کر لیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔(مشکوۃ،ص34)علمائے کرام کے فضائل تو بے شمار ہیں۔قیامت کے روز علمائے کرام عام مومنین میں سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔حدیث نمبر5:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالموں میں سے کسی عالم کے پیچھے نماز پڑھی تو گویا اس نے نبیوں میں سے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔(کنزالعمال،ص275)جہاں احادیث میں علما کے فضائل ذکر کیے گئے ہیں وہاں قرآنِ مجید میں جگہ جگہ علما کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔دو آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ پڑھئے: ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے ۔(پ20،العنکبوت:43)ترجمہ:اور بے شک ہم ان کے پاس یہ کتاب لائے جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا۔ (پ8،الاعراف:52)قرآن و حدیث سے واضح طور پر علما کے فضائل ملتے ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمائے کرام کےفیض سے مالا مال فرمائے اور ان کے صدقے دنیا آخرت کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین


درود شریف کی فضیلت:فرمانِ مصطفے:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے اللہ پاک اس کے لیے ایک قیراط اجر لکھتا ہے اور قیراط احد پہاڑ جتنا ہے ۔صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔علمائے کرام کی شان کے بھی کیا کہنے!سبحان اللہ! میرے پیر و مرشد ،امیرِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ فرماتے ہیں:علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج ہیں۔علما کے چار حروف ہیں جن کی وضاحت کچھ یوں ہے:عین سے علمِ دین کے پیکر، لام سے لہو بہا کر دین کو بچانے والے،میم سے محبتِ رسول اللہ اور الف سے خوفِ الٰہی کے پیکر۔علمائے کرام کے بارے میں بے شمار احادیثِ مبارکہ موجود ہیں حالانکہ رب قدیر بھی علما کی شان کے بارے میں اپنے کلامِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اللہ نے گواہی دی اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے قائم ہو کر۔(پ3،ال عمران:18)احیاء العلوم جلد اول صفحہ 42میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت ہے:دیکھیے!اللہ پاک نے کس طرح اپنی پاک ذات سے آغاز فرمایا، پھر ملائکہ اور پھر علم والوں کا ذکر فرمایا۔ شرف و فضیلت اور علم و کمال کے لیے یہی کافی ہے۔علمائے کرام کے بارے میں 5فرامینِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائے۔ہمارے آقا،میٹھے مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:1: زمین آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔سبحان اللہ! کیا ہی فضیلت بیان فرمائی کہ نہ صرف ایک مخلوق بلکہ اللہ پاک کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔2:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔دیکھیے! میرے آقا،مدنی مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے ساتھ علما اور پھربھی شہدا شفاعت کریں گے۔(ابن ماجہ) 3:قیامت کے دن علما کی سیاہی شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی۔سبحان اللہ!علما کی سیاہی کی فضیلت ہی بہت ہے تو علما کی شان کا اندازہ کیا ہو سکتا ہے! 4:مومن عالم کی فضیلت مومن عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر۔ ایک عالم کو جب ایک عابد سے موازنہ فرمایا تو معلوم ہوا ! ایک عالم ایک عابد پر غالب ہے۔ایک مومن عابد کی بھی بہت فضیلتیں ہیں تو پھر عالم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان فرمایا:جس طرح چودہویں کے چاند کی ستاروں پر فضیلت ہے۔5: اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو اٹھائے گا اور ان سے فرمائے گا:اے علما کے گروہ! میں تمہیں جانتا ہوں اس لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا،جاؤ !میں نے تمہیں بخش دیا۔سبحان اللہ!دیکھا آپ نے!اللہ پاک بروزِ قیامت کس طرح علما کے گروہ کو مخاطب فرمائے گا انہیں بخش کی خوشخبری دے گا!(جامع بیان العلم وفضلہ)اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی عزت ،ادب اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علم ایک ایسی نایاب دولت ہے جو روپے سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ یہ تو محض اللہ پاک کا فضل و کرم ہے جسے نصیب ہو جائے چنانچہ ارشادِ باری ہے: ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(المجادلۃ:11)اسی طرح علم و علما کی فضیلت پر صحاحِ ستہ کی کئی احادیثِ مبارکہ بھی دلالت کرتی ہیں۔یہاں پر علمائے کرام کے چند فضائل سپردِ قلم کیے جاتے ہیں۔1:علما کی مثال:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:نبیِ مکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے بحرو بر کی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہوجائیں۔(مسند احمد،4/314،حدیث:12600)2:عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم کو عابد پر ستر درجہ فضیلت حاصل ہے اور ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا تیز رفتار گھوڑے کی ستر سال دوڑ کا سفر ہے۔(الترغیب والترھیب،1/57،حدیث:36)3:شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(جامع بیان العلم،ص48،حدیث: 139)حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم روزہ دار شب دار( یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے) مجاہد سے افضل ہے۔4:ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ (ترمذی،4/311،حدیث:2690)درجۂ نبوت کے قریب تر:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:نزدیک تر لوگوں کے یعنی لوگوں میں سے درجۂ نبوت سے علما اور مجاہدین ہیں۔(احیاء العلوم) یعنی ان کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبے سے بنسبت تمام خلق کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز پر جو پیغمبر لائے دلالت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس چیز پر کہ پیغمبر لائے تلواروں سے لڑتے ہیں۔ان تمام احادیثِ مبارکہ میں جو فضائل بیان ہوئےہیں ان سے مراد عالمِ با عمل ہے جو اللہ پاک کی رضا کا طلب گار ہو جبکہ بےعمل عالم کی جاہل کی بہ نسبت گرفت زیادہ ہے۔اللہ پاک ہم سب کو عالمہ با عمل بنائے اور علما کی خوب سے خوب قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


علما کو اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے اس کا مکمل طور پر بیان بہت مشکل ہے۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو تو حساب و کتاب کے لیے روکا ہوا ہو گا اور علما کو ان کی شفاعت کے لیے روکا ہو گا۔اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں علما کے کثرت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔علما کا وجود دین و دنیا کی سعادتوں اور خوبیوں کا جامع ہے۔علما اور ان کی عزت و خدمت کرنے والے بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم علما کا ادب کریں اور ان کی خدمت کریں۔اللہ پاک ہمیں علما کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہم کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے ان شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔علما کے فضائل پر مشتمل 5 احادیثِ مبارکہ:عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،میں نے رحمتِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر اور بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں اور بے شک انبیا علیہم الصلوۃ و السلام درہم اور دینار یعنی دنیاوی مال و دولت کا وارث نہیں بناتے بلکہ ان کی وراثت علم ہے۔ تو جس نے اس میں سے لے لیا اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔(ابن ماجہ،حدیث:219) 2:عالم کے لیے مرتبۂ شفاعت:حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے :اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جبکہ عالم اور عابد پل صراط پر جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جائے گا:جنت میں داخل ہو جاؤ اور اپنی عبادت کے سبب ناز ونعمت کے ساتھ رہو اور عالم سے کہا جائے گا:یہاں ٹھہر جاؤ اور جس کی چاہو شفاعت کرو اس لیے کہ تم جس کی شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی تو وہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے مقام پر کھڑا ہو گا۔(کنزالعمال،10/78)3:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین میں علما کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان کے ستارے کہ ان کے ساتھ خشکی اور تری میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔ تو جب ستارے غائب ہو جائیں تو قریب ہے کہ وہ راستے سے بھٹک جائیں۔(الفقیہ والمتفقہ،2/78) 4:عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ایک عبادت گزار کا دوسرے عالمِ دین کا تو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔ اس کے بعد فرمایا: اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی(سمندر میں) لوگوں کو علمِ دین سکھانے والے پر صلوۃ بھیجتے ہیں۔(ترمذی،2/98)5:حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نور کے پیکر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور ایک روایت میں ہے:علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ جائے گی۔(تاریخ بغداد،2/190)

ہے عالم کی خدمت یقیناً سعادت ہو توفیق اس کی عطا یا الٰہی

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علی محمد


علم ہی انسان کو انسان بناتا ہے اور اسے سوچنے کے قابل کرتا ہے ،پھر وہ اپنے علم کی وجہ سے عالم کہلاتا اورعام لوگوں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔پھر اللہ پاک کے ہاں اس کا درجہ عالی قدر ہو جاتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمہ: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر۔(پ3،ال عمران:18)یعنی اللہ پاک نے اپنی معبودیت کی گواہی کے لئے اپنی ذات فرشتوں اور پھر علما کا ذکر فرمایا۔فرامینِ مصطفٰے:روزِ حشر علما کی بخشش کا انداز(1)اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو اٹھائے گا اور ان سے فرمائے گا:اے علما کے گروہ! میں تمہیں جانتا ہوں اسی لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اسی لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا جاؤں۔جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔(جامع بیان العلم وفضلہ،ص69،حدیث: 211) (2) عالم کی عابد پر فضیلت:ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر۔(ابوداود،3/ 444،حدیث:394)حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا :عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر نماز و روزہ سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص11)(3)علما شفاعت کریں گے:نبیِ کریم،رؤوف رحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما اور شہدا۔ (ابن ماجہ،حدیث:4313،ج4)معلوم ہوا!زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ مرتبۂ شہادت سے بڑھ کر ہے۔ (4)علما اللہ پاک کے امین ہیں:فرمانِ آخری نبی:عالم زمین میں اللہ پاک کا آمین ہوتا ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص74،حدیث:225) اللہ پاک علما سے کس قدر محبت فرماتا ہے کہ زمین میں انہیں اپنا امین بنایا ۔(5)علما درجۂ نبوت سے قریب تر ہیں:ارشاد فرمایا:لوگوں میں سے علما مجاہدین درجۂ نبوت کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔علما تو رسولوں کی لائی ہوئی باتوں کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(الفقیہ والمتفقہ،ص148،حدیث132)اللہ پاک ہمیں علمائے اہلِ سنت سے نفع حاصل کرنے،ان کی تعظیم کرنے اور بےادبی سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے نیز ہم پر علما کا فیضان جاری فرما دے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علمائے کرام کے بے شمار فضائل ہیں جیسے حضرت  ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:علمائے کرام عام مومنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔اللہ پاک کا ارشاد ہے:ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔ (پ28،المجادلۃ:11)یاد رہے!اللہ پاک اپنے کسی بندے کو جاہلوں کی صحبت سے محفوظ فرما دے اور علما و صلحاکی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا کر دے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان اور انعام ہے کیونکہ یہ حضرات بندے سے گناہوں کے بوجھ اتارنے میں معاون و مدد گار اور نیک اعمال کی راہ آسانی سے چلنے میں ہادی و راہ نما ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بھی علما اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں اور جو لوگ نیک اور پرہیزگار ہیں وہ بھی علما اور نیک لوگوں کو ہی اپنا ہم نشین بنائیں کیوں کہ تلوارجتنی بھی عمدہ اور اعلیٰ ترین ہو اسے تیز کرنے کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے۔ حدیث نمبر1:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہوں گے اس لیے کہ وہ ہر جمعہ کو اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔اللہ پاک فرماتا ہے :ترجمہ:یعنی مجھ سے مانگو جو چاہو وہ جنتی علمائے کرام کی طرف متوجہ ہوں گے کہ اپنے رب کریم سے کیا مانگیں؟وہ فرمائیں گے:یہ مانگو وہ مانگو یعنی جیسے لوگ دنیا میں علمائے کرام کے محتاج تھے جنت میں بھی ان کے محتاج ہوں گے۔(جامع صغیر،ص135،حدیث:2235)حدیث نمبر2:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی شان ہے:لوگوں میں درجۂ نبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(لباب الاحیاء،ص24)3:حدیثِ پاک:عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔یعنی قیامت کے دن شہیدوں کے خون کے ساتھ علما کی سیاہی کو تولا جائے گا اور سیاہی خون پر غالب آ جائے گی۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے علما کی بہت زیادہ شان بیان کی ہے۔(فیضانِ امہات المومنین،ص118)4:حدیثِ مبارکہ:روایت ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی،ابن ماجہ)یعنی اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ فقیہ شیطان سے بچنے کا بڑا ذریعہ ہے۔خیال رہے!یہاں عالم سے وہ عالم مراد ہے جس پر اللہ پاک کا فضل ہو، اسی لیے فقیہ فرمایا گیا عالم نہ فرمایا گیا یعنی دین کی سمجھ رکھنے والا۔(مراۃ المناجیح،1/196،حدیث:205)5:حدیثِ مبارک:روایت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مومن خیر کے ے سے کبھی سیر نہ ہو گا تا آنکہ اس کی انتہا جنت ہوجائے۔( ترمذی) یعنی علمِ دین کی حرص ایمان کی علامت ہے جتنا ایمان قوی اتنی ہی یہ حرص زیادہ۔ بڑے بڑے علما علم پر قناعت نہیں کرتے۔ صوفیا رحمۃُ اللہِ علیہم فرماتے ہیں: گہوارہ سے قبر تک علم سیکھو اس حدیث میں علم کے حریص کو جنت کی بشارت ہے ان شاءاللہ علمِ دین کی متلاشی مرتے ہی جنتی ہے۔علما فرماتے ہیں:کسی کو اپنے خاتمے کی خبر نہیں سوائے عالمِ دین کے کہ ان کے لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وعدہ فرما لیا کہ اللہ پاک جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے علمِ دین دیتا ہے۔(مراۃ المناجیح،1/198،حدیث:210) میٹھی میٹھی عبارت پہ شیریں درود اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام۔آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمائے کرام کا فیض نصیب فرمائے۔ آمین


اے عاشقان رسول!علم نور الٰہی ہے جو اللہ پاک بندے کو عطا فرماتا ہے۔علمِ دین ہی کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور اسی سے دنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔علما کی فضیلت کا اندازہ اس آیت مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے:اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں فرمایا:ترجمۂ کنز العرفان:اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔اے عاشقان رسول! دیکھا آپ نے ! رب قدیرنے اس آیت مبارکہ میں کس طرح اہل علم کی فضیلت بیان فرمائی کہ اپنی خشیت و خوف کو ان میں منحصر فرما دیا۔علما کی فضیلت پر فرامینِ رسول :1 ۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں دو اشخاص کا ذکر ہوا جن میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے۔ پھر فرمایا : اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے حتی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں لوگوں کو علمِ دین سیکھانے والے پر سلام بھیجتے ہیں۔(بحوالہ مراۃ المناجیح جلد اول صفحہ نمبر 156)2 :حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن علمائے دین کو جمع فرمائے گا اور ارشاد فرمائے گا: بے شک میں نے اپنی حکمت اور دانائی تمہارے دلوں میں صرف اس لیے رکھی کے میں تمہارے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہوں تم جنت میں چلے جاؤمیں نے تمہارے وہ تمام گناہ بخش دیے ہیں جو تم سے کسی بھی حالت میں سرزد ہوئے۔ (بحوالہ شرح مسند امام اعظم صفحہ نمبر۔172)3:ایسا عالمِ دین جس کے علم سے نفع اٹھایا جاتا ہے وہ ایک ہزار عابد سے بہتر ہے۔(بحوالہ شرح مسند امام اعظم صفحہ نمبر 156) 4:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:علما انبیا ئےکرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔(دارمی حدیث نمبر 342 بحوالہ فیضان علم و عمل صفحہ 15)اے عاشقان ِرسول ! دیکھا آپ نے ! نبیِ کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے علما کو انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کا وارث فرمایا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اگر علما نہ ہوتے تو لوگ چوپایوں کی مثل ہوتے۔کسی دانا کا قول ہے : عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔کہا جاتا ہے: عالم کی موت عالم كى موت ہے۔ واقعی عالمِ دین کا جب وصال ہوتا ہے تو اس کے سینے میں محفوظ علم بھی دنیا سے چلا جاتا ہے۔5:تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے :انبیا علیہم الصلوۃ و السلام،علما اور شہدا۔(بحوالہ ابن ماجہ حدیث نمبر 4313 احیاء علوم الدین صفحہ 48)اے عاشقان رسول! ان احادیثِ مبارکہ سے علمائے کرام کی فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہوگی اس کے علاوہ بہت سی احادیث سے علما کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔علما دنیا والوں کے لیے چراغ کی طرح ہوتے ہیں کے لوگوں کی اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔۔صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ جنت میں بھی اہل جنت کو علما کی حاجت ہو گی جب اللہ پاک اہل جنت سے فرماے گا: مانگو کیا مانگنا ہے تو لوگ علما سے رجوع کریں گے اور علما جنت میں بھی ان کی راہ نمائی فرمائیں گے۔اللہ کریم ہمیں علمائے حق کے صدقے علمِ دین کی دولت عطا فرمائے امین یا رب العلمین۔