اللہ پاک نے فرمایا:میں چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں عیاں  ہوجاؤں تو میں نے کائنات تخلیق فرما دی۔اس کائنات میں اللہ پاک نے بہت سی مخلوقات کو پیدا فرمایا جن میں حضرت انسان کو بھی تخلیق فرمایا اور اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا،پھر انہی انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ پاک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جنہوں نے انسان کو اس دنیا میں آنے کا مقصد سمجھایا۔ پیغمبروں کا یہ سلسلہ نبیِ آخر الزماں،حضور محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آ کر اختتام پذیرہوا۔آپ جناب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ نبیوں کے علم کے وارث کون ہوں گے؟ کون اب آنے والی نسل کو شریعتِ محمدی کی تعلیم دے گا؟ تو اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے علمائے کرام کو یہ شرف بخشا۔ یہ لوگ اللہ پاک کے بہت ہی خاص بندے ہوتے ہیں۔قرآن و حدیث میں علمائے کرام کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر علما نہ ہوتے تو لوگ چوپائیوں کی مثل ہوتے۔شرح: مطلب یہ کہ علما لوگوں کو علم سکھا کر حیوانیت سے نکال کر انسانیت میں داخل کرتے ہیں۔ حدیثِ پاک نمبر 1:پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کے دن اللہ پاک عابدوں اور مجاہدوں سے فرمائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ تو علما عرض کریں گے: ہمارے علم کے طفیل وہ عابد اور زاہد بنے وہ جنت میں گئے اور ہم رہ گئے! اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: تم میرے نزدیک میرے بعض فرشتوں کی طرح ہو، تم شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوئی چنانچہ وہ شفاعت کریں گے پھر وہ جنت میں داخل گے۔(احیاء العلوم،1/60) کسی دانا کا قول ہے:عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔عالم کا چہرہ اوجھل ہوجاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔عالم کے فضائل پر ایک اور حدیث پڑھئے:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ پاک ہے:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی، جس نے عالم سے ہاتھ ملایا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جو دنیا میں میرے پاس بیٹھا وہ روزِ حساب بھی میرے پاس ہی بیٹھے گا۔(تنبیہ الغافلین،ص167)حدیث نمبر3:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علما دنیا کے چراغ ہیں اور انبیا کے جانشین، میرے اور دیگر انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔(کنزالعمال،10/77)ایک بزرگ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے:علما کی سیاہی کا شہدا کے خون سے وزن کیا جائے گا تو علما کی سیاہی شہدا کے خون سے بھاری ہوگی۔علما کے فضائل سے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ پڑھئے:حدیث نمبر4:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک عالمِ دین کے لیے آسمانوں اور زمین کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے بخشش مانگتی ہیں۔یقیناً عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ نبیوں نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم وراثت میں چھوڑا ہے ۔جس نے علم حاصل کر لیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔(مشکوۃ،ص34)علمائے کرام کے فضائل تو بے شمار ہیں۔قیامت کے روز علمائے کرام عام مومنین میں سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔حدیث نمبر5:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالموں میں سے کسی عالم کے پیچھے نماز پڑھی تو گویا اس نے نبیوں میں سے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔(کنزالعمال،ص275)جہاں احادیث میں علما کے فضائل ذکر کیے گئے ہیں وہاں قرآنِ مجید میں جگہ جگہ علما کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔دو آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ پڑھئے: ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے ۔(پ20،العنکبوت:43)ترجمہ:اور بے شک ہم ان کے پاس یہ کتاب لائے جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا۔ (پ8،الاعراف:52)قرآن و حدیث سے واضح طور پر علما کے فضائل ملتے ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمائے کرام کےفیض سے مالا مال فرمائے اور ان کے صدقے دنیا آخرت کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین