علمائے ربانی وہ ہیں جو خود اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں،جن کی محبت سے خدا کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے۔ جس عالم کی محبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت میں کمی نہ آئے وہ عالم ہے۔ علمِ دین یقیناً بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا سہرا انہی خوش نصیبوں کے سر پر سجتا ہےجنہیں اللہ پاک اپنے فضل سے خاص نوازتا ہے۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔علما کے فضائل پر اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: گواہی دی اللہ نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوائے اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے وہ اللہ باانصاف یعنی انصاف کرنے والا ہے۔ آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول: ملک شام کے غیر مسلم علما میں سے دو افراد سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب انہوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا:نبیِ آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہر کی یہی صفت ہے جو اس شہر میں پائی جاتی ہے۔پھر جب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صورتِ مبارکہ اور اوصافِ کریمہ کو تورات کے مطابق دیکھ کر فوراً آپ کو پہچان لیا اور عرض کی:آپ محمد(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) ہیں؟ تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہاں !انہوں نے پھر عرض کی:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کی :ہم آپ سے ایک سوال کریں گے اگر آپ نے درست جواب دے دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: سوال کرو ،انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے؟ اس پر مذکورہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اسے سن کر وہ دونوں شامی علما مسلمان ہو گئے۔ اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیا علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیا رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس سے معلوم ہوا اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ رب کریم نے انہیں اپنی توحید کاگواہ اپنے ساتھ بنایا لیکن علمائے دین سے مراد علمائے ربانی ہیں یعنی صحیح العقیدہ اور صالحین علما ہیں۔علما کے فضائل: حدیث نمبر1: امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا، ایک عابد اور دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا: بزرگی عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر ۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694) حدیث نمبر2:احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ! علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو ،پس پہلے علما شفاعت کریں گے پھر جنت میں جائیں گے ۔(احیاء العلوم،1/62)حدیث نمبر 3:امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔ (منہاج العابدین،ص11)حدیث نمبر4: امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا،روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ (جامع البیان و فضلہ،ص47،حدیث:139)حدیث نمبر5: ابو داؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص طلبِ علم میں کسی راہ پر چلا تو خدا اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور آسمان والے یہاں تک مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت سب ستاروں پر اور بے شک علما وارثِ انبیا ہیں اور بے شک پیغمبروں نےدرہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔علما کی مجلس کے فوائد:حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص عالم کی مجلس میں جائے اس کو سات فائدے حاصل ہوتے ہیں اگرچہ اس سے استفادہ یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرے۔1: جب جب تک اس مجلس میں رہتا ہےگناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔2:طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔3:طلبِ علم کا ثواب پاتا ہے۔4: اس رحمت میں کہ جلسۂ علم پر نازل ہوتی ہے۔5:جب تک علمی باتیں سنتا ہے عبادت میں ہے۔6:جب کوئی مشکل بات ان علما کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی تو دل ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں میں لکھا جاتا ہے۔7: علم و علما کی عزت اور جہل وفسق کی ذلت سے واقف ہو جاتا ہے۔اقوالِ علما:1:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالمِ با عمل کو ملکوتِ آسمان میں عظیم یعنی بڑا شخص کہتے ہیں۔2حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے درجۂ نبوت سے علما ومجاہدین ہیں یعنی ان علما کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبے سے بنسبت تمام خلق مخلوق کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز پر جو پیغمبر لائے تلاوت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس پر کہ پیغمبر تلواروں سے لڑتے ہیں۔حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم روزہ دار، شب بیدار یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے مجاہد سے افضل ہے۔دعا:الحمد للہ ہم نے اس مضمون میں علم و علما کے فضائل پڑھے۔اللہ پاک ہمیں علم و علما کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔آمین اللھم آمین