علمائے کرام کے بے شمار فضائل ہیں جیسے حضرت  ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:علمائے کرام عام مومنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔اللہ پاک کا ارشاد ہے:ترجمہ:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔ (پ28،المجادلۃ:11)یاد رہے!اللہ پاک اپنے کسی بندے کو جاہلوں کی صحبت سے محفوظ فرما دے اور علما و صلحاکی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا کر دے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان اور انعام ہے کیونکہ یہ حضرات بندے سے گناہوں کے بوجھ اتارنے میں معاون و مدد گار اور نیک اعمال کی راہ آسانی سے چلنے میں ہادی و راہ نما ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بھی علما اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں اور جو لوگ نیک اور پرہیزگار ہیں وہ بھی علما اور نیک لوگوں کو ہی اپنا ہم نشین بنائیں کیوں کہ تلوارجتنی بھی عمدہ اور اعلیٰ ترین ہو اسے تیز کرنے کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے۔ حدیث نمبر1:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہوں گے اس لیے کہ وہ ہر جمعہ کو اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔اللہ پاک فرماتا ہے :ترجمہ:یعنی مجھ سے مانگو جو چاہو وہ جنتی علمائے کرام کی طرف متوجہ ہوں گے کہ اپنے رب کریم سے کیا مانگیں؟وہ فرمائیں گے:یہ مانگو وہ مانگو یعنی جیسے لوگ دنیا میں علمائے کرام کے محتاج تھے جنت میں بھی ان کے محتاج ہوں گے۔(جامع صغیر،ص135،حدیث:2235)حدیث نمبر2:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی شان ہے:لوگوں میں درجۂ نبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(لباب الاحیاء،ص24)3:حدیثِ پاک:عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔یعنی قیامت کے دن شہیدوں کے خون کے ساتھ علما کی سیاہی کو تولا جائے گا اور سیاہی خون پر غالب آ جائے گی۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے علما کی بہت زیادہ شان بیان کی ہے۔(فیضانِ امہات المومنین،ص118)4:حدیثِ مبارکہ:روایت ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی،ابن ماجہ)یعنی اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ فقیہ شیطان سے بچنے کا بڑا ذریعہ ہے۔خیال رہے!یہاں عالم سے وہ عالم مراد ہے جس پر اللہ پاک کا فضل ہو، اسی لیے فقیہ فرمایا گیا عالم نہ فرمایا گیا یعنی دین کی سمجھ رکھنے والا۔(مراۃ المناجیح،1/196،حدیث:205)5:حدیثِ مبارک:روایت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مومن خیر کے ے سے کبھی سیر نہ ہو گا تا آنکہ اس کی انتہا جنت ہوجائے۔( ترمذی) یعنی علمِ دین کی حرص ایمان کی علامت ہے جتنا ایمان قوی اتنی ہی یہ حرص زیادہ۔ بڑے بڑے علما علم پر قناعت نہیں کرتے۔ صوفیا رحمۃُ اللہِ علیہم فرماتے ہیں: گہوارہ سے قبر تک علم سیکھو اس حدیث میں علم کے حریص کو جنت کی بشارت ہے ان شاءاللہ علمِ دین کی متلاشی مرتے ہی جنتی ہے۔علما فرماتے ہیں:کسی کو اپنے خاتمے کی خبر نہیں سوائے عالمِ دین کے کہ ان کے لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وعدہ فرما لیا کہ اللہ پاک جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے علمِ دین دیتا ہے۔(مراۃ المناجیح،1/198،حدیث:210) میٹھی میٹھی عبارت پہ شیریں درود اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام۔آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمائے کرام کا فیض نصیب فرمائے۔ آمین