علم وہ نعمت عظمی ہے جس کو حاصل کرنے
کا حکم قرآنِ عظیم میں بھی آیا ہے۔جس علم کو حاصل کرنے کا حکم قرآنِ پاک میں آیا
ہے۔اس سے مراد علمِ دین ہے۔اسی طرح اگر ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو جو علمِ
دین حاصل کرتا ہے اسے عالم کہتے ہیں۔ عالم ہمارے درمیان وہ بلندپایاں ہستیاں ہیں
جن کی فضیلت قرآنِ پاک و احادیثِ کریمہ میں جا بجا وارد ہوئی ہے۔قرآنِ پاک میں خود
ربِّ کائنات نے کہیں اولوا العلم کہہ کر تو کہیں اوتوا العلم کہہ کر علما کی شان
بلند فرمائی ہے۔اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور مقام پر ربِّ قدیر کا ارشاد ہے:
اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف
سے قائم ہو کر ۔(پ3،ال عمران:18)اس سے معلوم
ہوا!اہل ِعلم بڑے ہی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے
ساتھ بنایا لیکن علمائے دین سے مراد علما ربانی ہیں وہ جن کی صحبت سے خدا اور رسول
یاد آئیں نہ کہ وہ جن کی صحبت سے اللہ پاک و رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں کمی آئے وہ عالم نہیں بلکہ
ظالم ہے۔(صراط
الجنان)اسی
طرح متعدد احادیث ِکریمہ میں بھی علما کے فضائل وارد ہوئے ہیں جن میں سے لفظ فاطمہ
کی نسبت سے 5فرامینِ مصطفٰے درج ذیل ہیں :1:علما انبیا کے وارث ہیں۔2: زمین و
آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔ لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا
ہوگا جس کے لیے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں! یہ اپنی ذات میں
مشغول ہیں اور فرشتے ان کے لیے استغفار میں مشغول ہیں۔3:قیامت کے دن علما کی سیاہی
شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی ۔4:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔5:قیامت
کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما،شہدا۔(احیاء العلوم،1/45،46،47،48) مذکورہ
بالا احادیثِ کریمہ سے علما کی فضیلت واضح ہے۔ اسی طرح ایک بزرگ کا قول ہے:علم سے
بڑھ کر عزت والی شے کوئی نہیں۔بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جبکہ علما بادشاہوں
پر حکومت کرتے ہیں۔مذکورہ فرامین سے ہمیں علمائے کرام کی اہمیت کا پتہ چلا۔ربِّ قدیر
سے دعا ہے کہ پروردگار ہمیں علمائے کرام کا احترام اور ان کا حق بجا لانے کی توفیق
عطا فرمائے ۔علما کے حق میں یہ بھی ہے کہ جس مسئلے کا حل علما کے پاس تھا وہ خود
اپنی سے نہ بتاتابلکہ علما سے رجوع کیا جائے۔