علما کے فضائل قرآن و سنت سے ظاہر ہیں کیونکہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے پیارے حبیب پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات سیکھنے سکھانے میں گذار دی انکی شان اور قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود خالق کائنات اور خاتم النبیین علیہ الصلاةولسلام نے علما کی شان کو بیان کرکے اور بلندی عطا فرمادی۔

جیساکہ رب کریم پاک کافرمان ہے:شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر۔(پ3،اٰل عمران: 18)ایک اور مقام پر اللہ پاک کا فرمان ہے:فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں(پ 14،النحل:43)اسی طرح احاديث رسول علیہ السلام میں میں بھی علم سیکھنے کی اہمیت اور علما کے فضائل مذکور ہیں جیساکہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ علم کی طلب و تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(1)علما انبياء کے وارث ہیں اور انبیا درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ انہوں نے ورثے میں علم چھوڑا ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔

(2)جوشخص طلب علم کے لیے گھر سے نکلا وہ جب تک واپس نہ لوٹے اللہ کی راہ میں ہے۔(ترمذی کتاب العلم، حدیث: 2656)

(3)اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور اسے یاد کیا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچایا۔(ترمذی ،کتاب العلم ،حدیث:2665(

(4)عالم کی مجلس میں حاضر ہونا۔ ہزار رکعت (نفل)پڑھنے ۔ ہزار مریضوں کی عیادت کرنے ۔ ہزار نمازِ جنازه میں شرکت کرنے سے افضل ہے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا قرآن کی تلاوت(سےبھی افضل )ہے؟ فرمايا: قرآن بھی تو علم کے ساتھ ہی نفع دیتا ہے۔(احیاء العلوم ،1/ 56)

(5) علمائےکرام کا اٹھایا جانا قیامت کی نشانی ہے :حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک علم کو نہیں اٹھائے گا انتزاعًا (اکھیڑکر) اس طرح کہ لوگوں کہ سینوں سے نکال دے اور لیکن اللہ پاک علم کو اٹھائے گا علماء کو اٹهانے کے ذریعے یہاں تک کہ نہیں چھوڑے گا کسی عالم کو (پهر) لوگ جاہلوں کو اپنا رئیس بنائيں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ فتوٰی دیں گے بغير علم کے تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور(دوسروں کو بھی ) گمراہ کریں ۔(جامع الترمذی، 2/ 94 )

ان آیات و احادیث سے ظاہر ہے کہ علم اور علما دین کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ اس کے علاوہ علم والوں  کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں، لہٰذا علما کو عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ پاک سے زیادہ ڈرنا چاہئے اور لوگوں  کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں  کو اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ پاک کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے، اللہ پاک کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔

علما سے مراد کونسے علما ہيں:علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں  علم والوں  سے مراد وہ ہیں  جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں۔(تفسیرصراط الجنان،سورہ فاطر،تحت الآیہ 28)

لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں اور لوگوں کو اللہ پاک والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا پاک کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔

دعا ہے کہ  اللہ پاک ہمیں  زندگی کے تمام پہلوؤں   میں  در پیش معاملات کے بارے میں  اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم