پارہ 13، سورۃُ الرعد آیت نمبر 43 میں ارشاد باری ہے:قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠(۴۳) ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں اور وہ جسے کتاب کا علم ہے ۔(پ13،رعد:43) اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی اور عالم کی گواہی کو کافی فرمایا۔

نیز پارہ 23 سورۃُ الزمر آیت نمبر 9 میں ارشاد ہے:قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)

ایک اور جگہ پارہ 22 سورۃ الفاطر آیت نمبر 28 میں فرمایا :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

اور ڈر کو علما کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر و غضب اور بے پرواہی بے نیازی اور احوال دوزخ اور اہوالِ قیامت( قیامت کی ہولناکیوں) کو تفصیل کے ساتھ نہیں جانتا۔ اس وقت تک حقیقتِ خوف و خشیت اس کو حاصل نہیں ہوتی اور ان چیزوں کی تفصیل علما کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

عثمان کے 5 حروف کی نسبت سے علما کے پانچ فضائل:۔

(1) عالم کی عابد و فضیلت: امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) فیضان علم و علما،ص13)

(2) شہدا کا خون اور علماء کی سیاہی : امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔( فیضان علم و علما،ص14)

(3) علم والوں سے بھلائی کا ارادہ: بخارى اور ترمذى نے بسَنَدِ صحىح رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرماىا : مَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَيۡرًا یُّفَقِّھْهُ فِى الدِّيۡنِ (ترجمہ) خدائے تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائى کا ارادہ کرتا ہے اسے دىن مىں دانشمند(دین کی سمجھ عطا) کرتا ہے۔( فیضان علم و علما،ص16)

(4) ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری: امام مُحى السُّنّہ بغوى رحمۃُ اللہِ علیہ مَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھتے ہىں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہىں : اىک فقىہ شىطان پر ہزار عابد سے زىادہ بھارى ہے۔ اور وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم (بہت سے لوگوں) کو ہداىت فرماتا ہے اور شىطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص18)

(5) علما شفاعت کریں گے: اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں کہ خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت (جنت) مىں جاوىں گے۔(فیضان علم و علما،ص14)

نوٹ: مرفوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچتی ہو۔(نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، ص106)


ہم کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے

اِن شآءَ اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

ایک مسلم معاشرے میں علمائے کرام کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہی حضرات کی بدولت ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگاہی ملتی ہے اور روز مرّہ کے مسائل کے متعلق رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام میں علمائے کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔

نیز قرآن و حدیث میں علمائے کرام کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں علم حاصل کرنے کا تذکرہ ہوا، وہاں دین اسلام کا ضروری علم حاصل کرنا مراد ہے۔ اور جس جگہ علمائے کرام کے فضائل بیان ہوئے، وہاں فقط صحیح العقیدہ علمائے اہلسنت ہی مراد ہیں۔ لفظ علماء عالم کی جمع ہیں اور عالم کی تعریف یہ ہے کہ جو عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضرورت کے مسائل کسی کی مدد کے بغیر کتاب سے نکال سکے۔

تو آئیے علمائے کرام کی شان میں پانچ فرامین آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔چنانچہ:

(1) علماء جنتی ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جو شخص میری اُمّت تک کوئی اِسلامی بات پہنچائے تاکہ اُس سے سُنّت قائم کی جائے یا اُس سے بدمذہبی دور کی جائے تو وہ جنّتی ہے ۔(کنزالعمال،10/90)سبحان اللہ ! علمائے کرام کے تو ذمہ داری ہی یہی ہے کہ وہ لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کا ذہن دیں۔ تو واقعی صحیح العقیدہ علمائے کرام کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔

(2) دین کس سے سیکھیں: ایک اور جگہ فرمایا: عالموں کی پیروی کرو، اس لیے کہ وہ دنیا و آخرت کے چراغ ہیں۔( کنزالعمال،10/77)اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام فقط صحیح العقیدہ علمائے کرام سے ہی سیکھنا چاہئے۔

(3) انبیاکے وارث کون ؟: پیارے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: علماء جنّت کی کنجیاں ہیں اور انبیاء کے خلیفہ ہیں ۔(تفسیر کبیر،1/282) یہ حقیقت ہے کہ علمائے کرام کی حاجت دنیا میں بھی ہے اور جنت میں بھی درکار ہوگی۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث علم ہے ، مال و دولت نہیں۔ لہذا انبیاء کرام علیہم السلام کے حقیقی جانشین و وارث علمائے کرام ہی ہیں، نہ کہ کوئی مالدار یا بادشاہ وغیرہ۔

(4) علماء کی پیروی کیوں ضروری ہے؟: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے عالموں میں سے کسی عالم کے پیچھے نماز پڑھی تو گویا اس نے نبیوں میں سے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ (تفسیر کبیر،1/275) معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہ السلام کی اطاعت و محبت کے حصول کے لئے پہلے علمائے کرام کی اطاعت کرنا اور محبت رکھنا ضروری ہے۔

(5)علماء کی منفرد شان: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اور جگہ فرمایا :عالم کا سونا عبادت ہے اور اس کا علمی مذاکرہ تسبیح ہے اور اس کی سانس صدقہ اور آنسو کا ہر وہ قطرہ جو اس کی آنکھ سے بہے وہ جہنم کی ایک سمندر کو بجھا دیتا ہے۔( تفسیر کبیر،1/281)

اس سے پڑھ کر علمائے کرام کی اور کیا فضیلت بیان کی جا سکتی ہے کہ ان کا ہر نیک عمل باعث نزولِ رحمت اور باعث حصول نجات ہے۔اللہ پاک ہمیں صحیح العقیدہ علمائے اہل سنت کا ادب و احترام کرنے اور ان کی جائز اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا ۔(پ3،اٰل عمران: 18)اور دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے:اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) پیارے بھائیو ! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی علماء کرام کی عزت اور قد کریں علماء کرام سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ علماء کرام کی عزت اور قدر کو آپ کے دلوں میں دوبالا کرنے کے لیے پانچ احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں:

(1) حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص علم کی طلب میں کسی راستہ پر چلتا ہے اللہ پاک کے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا۔(مسلم ،حدیث:2699)(2) جو شخص طلب علم کے لیے گھر سے نکلا تو جب تک واپس نہ ہو اللہ کی راہ میں ہیں۔( ترمذی، حدیث:2656)(3) ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا، ایک عابد دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔( ترمذی، حدیث:2694)

(4) اللہ پاک بڑا جواد ہے اور میں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا۔( شعب الایمان ، حدیث:1767)(5) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص طلب علم میں سفر کرتا ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اس پر سایہ کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں اور آسمان و زمین اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔( ابو داؤد،حدیث:3641)


اے عاشقان رسول !  یقیناً علم دین کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں، اسی سے دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے، علم والوں کی آخرت میں درجے بلند ہوں گے۔ ہمارے علیم و حکیم رب قدیر نے فرمایا:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

یقیناً علم کی شان بہت بلند ہے چنانچہ حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: عالم باعمل کو ملکوت آسمان (آسمان کی سلطنت میں) عظیم یعنی بڑا شخص کہتے ہیں۔(الزھد ،امام احمد مواعظ عیسیٰ ص 97، حدیث 330)احادیث مبارکہ میں علما کے فضائل بیان ہوئے ہیں آئیے علما کی فضیلت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:۔

(1) اللہ پاک کے آخری نامی مکی مدنی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ الْعُلَمَاء َ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِترجمہ:بے شک علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں۔

(2) امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادہ، 4/313، حدیث 2494)

(3) ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے ہیں۔ (ترمذی، کتاب العلم ،4/ 313، حدیث: 2694)

(4) امام ذہبی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن علماء کی دواتوں کی سیاہی اور شہداء کا خون تولہ جائے گا علماء کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلماءعلی الشہداء، ص 48، حدیث:139)

(5) حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی الشّافِعی رحمۃُ اللہِ علیہ ’’شرحُ الصدور ‘‘میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں : سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عافیت نِشان ہے : اِذَا مَاتَ الْعَالِمُ صَوَّرَ اللّٰہُ عِلْمَہٗ فِیْ قَبْرِہِ یُؤْنِسُہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یعنی جب کسی عالم کا انتقال ہوتا ہے اللہ پاک اس کے علم کو اس کی قبر میں متشکل (یعنی کوئی شکل عطا) فرما دیتا ہے جو قیامت تک اسے سکون پہنچاتا ہے۔ (شرح الصدور، باب احادیث الرسول فی عدۃ امور، ص158)

اللہ پاک ہمیں علماء کی اہمیت و فضیلت سمجھتے ہوئے ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا ۔(پ3،اٰل عمران: 18)

اس آیت کی تفصیل میں آیا ہے کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء علیہم الصَّلٰوۃُ والسلام اور اولیاء رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا، لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اورحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔(صراط الجنان،1/449)

(1) علما کے سامنے خاموش رہنا: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃ الوداع میں ان سے فرمایا: لوگوں کو چپ کراؤ۔ تو فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنوں کو مار کر (جو کفار کی صفت ہے) کافر نہ بن جانا۔ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ علمائے حق کے ہوتے ہوئے انسانیت کے حقوق نہ بھلا دینا ہر معاملات میں علمائے حق اہل سنت بریلوی سے استفادہ کرنا چاہئے۔

(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علما کی سیاہی شہید کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔(3)حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا باب 76 بخاری فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس جتنی احادیث جمع ہیں، جمع کر لے، کیونکہ مجھے خوف ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور علما کا جاتے رہنے کا خوف ہے۔ اس لیے چاہیے کہ علماء اکٹھے ہوں اور ہر حدیث کو سمیٹے اور پھیلائیں۔ اور جو لاعلم ہے اس کو علم پہنچائیں اور قید نہ کریں کہ یہ درست نہیں۔

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عُلَما کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسے آسمان میں ستارے، جن سے خشکی اور سَمُندر کی تاریکیوں میں راستے کا پتا چلتا ہے لہٰذا اگر ستارے مٹ جائیں تو قریب ہے کہ راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔

عالم کے حقوق: مسئلہ عالم اگرچہ جوان ہو، بوڑھے جاہل پر فضیلت رکھتا ہے ۔لہذا چلنے اور بیٹھنے میں گفتگو کرنے میں عالم کو بوڑھے جاہل پر فوقیت اور ترجیح دینی چاہیے یعنی بات کرتے وقت میں اس سے پہلے کلام نہ شروع کرے اور نہ اس سے آگے چلے، عالم دین کے لیے مجلس میں عمدہ جگہ ہونی چاہیے اور ایسی جگہ بیٹھا ہو کہ ہر آنکھ اس کو بغیر رکاوٹ کے دیکھ سکے۔

مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے

اِنْ شَاءَ اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے


(1) امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلماء علی الشھداء، ص48، حدیث : 139)

(3)حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمہ نے روایت کیا کہ عالِم کو ایک نظر دیکھنا مجھے ایک سال کے روزوں اوراُس کی راتوں میں قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے ۔ (منہاج العابدین،ص11)

(4) اور ترمذی کی حدیث میں ہے تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے ہیں۔ (ترمذی، کتاب العلم ،4/313،حدیث:2694)

(5) حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد ہوا: اے ابراہیم ! میں علیم ہوں، ہر علیم کو دوست رکھتا ہوں یعنی علم میری صفت ہے اور جو میری صفت( علم) پر ہے وہ میرا محبوب ہے۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص 70،حدیث:213)


علم و علماء کے بے شمار فضائل ہیں، اگر اللہ کریم کے نزدیک علم سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو رب کریم آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے مقابلے میں ضرور عطا فرماتا۔ جب فرشتوں کی تسبیح علم اسماء کے برابر نہ ٹھہری تو پھر علم حقائق و دیگر علوم دینیہ کے فضائل کا کیا عالم ہوگا۔

علم و علماء کے فضائل میں گاہے بگاہے میرے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:

(1) ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: جو شخص علم کا ایک باب دوسروں کے سکھانے کے لئے سیکھے اس کو ستر صدیقوں کا اجر دیا جائے گا ۔(الترغیب والترھیب ،1/68،حدیث:119)

(3) بخاری شریف میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ کریم جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔( بخاری ،1/41)

(4) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب انسان جب مرجاتا ہے اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں (کہ مرنے کے بعد بھی یہ عمل ختم نہیں ہوتے اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں) (1) صدقہ جاریہ اور (2)علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور (3) اولاد صالح جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، ص886،حدیث: 1631)

(5) امام غزالی احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے درجۂ نبوت کے قریب تر علما و مجاہدین ہیں۔( احیاء العلوم،1/20)

   اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

اس آیت کی ابتدا اور اس سے پہلا آیت میں اللہ پاک نے اپنی قدرت کے شان اور صنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذاتِ وصفات پر استدلال کیا جا سکتا ہے اس کے بعد ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کوجا نتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ پاک کی ذاتِ وصفات کا علم رکھتا ہوگا وہ اتناہی ڈرتا ہوگا اور جس کا علم کم ہوگا تو اس کا خوف بھی کم ہو گا ۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد تھا دوسرا عالم، تو سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے کہ میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر خدائے پاک رحمت نازل فرما تا ہے اور اس کے فرشتے نیز زمین و آسمان کے رہنے والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔(ترمذی)

حضرت کیثر بن قیس رضی اللہُ عنہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہُ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے آکر کہا کہ اے ابوالدرداء بے بیشک میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ طیبہ سے یہ سن کر آیا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی حدیث ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور میں کسی دوسرے کام کے لیے نہیں آیا ہوں حضرت ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جوشخص علم دین حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے تو خدائے پاک اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتا ہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لیے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے اندر عالم کے لیے دعائے استغفار کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے۔ جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر اور علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث وجانشین ہیں انبیاء کرام علیہم السلام کا تر کہ دنیا ر و درہم نہیں ہیں انہوں نے وراثت میں صرف علم چھوڑ ا ہے۔ تو جس نے اسے۔ حاصل کیا اس نے پورا حصہ پایا۔(ترمذی، ابوداؤد )

حضرت ابوالدرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اس علم کی حدکیا ہے کہ جسے آدمی حاصل کرلے تو فیقہ یعنی عالم دین ہو جائے۔ تو سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری امت تک پہنچانے کے لیے دینی امور کی چالیس حد یثیں یاد کرلے گا تو خدائے پاک اسے قیامت کے دن عالم دین کی حیثیت سے اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہ رہو گا ۔


علوم دینیہ کا حاصل کرنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ علم دین سے دل کو قرار حاصل ہوتا ہے۔ علم دین دل کو نور بصیرت و ہدیت سے جگمگاتا ہے۔اس سے بندے کی اخلاقی و سماجی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔اور اس کے ذریعہ بندہ  نیک لوگوں کی منازل اور بلند رتبہ حاصل کرتا ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ علما کے فضائل میں بھی قرآن و حدیث میں متعدد جگہ پر بیان فرمائے گئے ہیں ۔اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) حضرت سیدنا ابو اسود رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: علم سے بڑھ کر عزت والی کوئی شے نہیں ۔بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں ۔جبکہ علما بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں ۔

علما کہ فضائل پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے۔(بخاری کتاب العلم،ص 30 ،حدیث: 71)

(2)حضرت سیدنا ابو دردا رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ جنہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا ہے ۔کہ جو علم کے راستے پر چلتا ہے۔ اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمادیتا ہے ۔اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہیں ۔ جیسےچاند کی فضیلت بقیہ ستاروں پر۔ بے شک علما یہ انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کوئی درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم دین کا علماءکو وارث بناتے ہیں ۔(ابن ماجہ ،ص 39 ،حدیث: 223)

(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے علما کی زیارت کی اس نے میری زیارت کی اور جو علما کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ اللہ پاک کی صحبت میں بیٹھا۔(الترغیب و الترھیب ،ص 1300 ،حدیث: 2883)

(4)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت و توقیر نہ کرے اور ہمارے علما کو نہ پہچانے (یعنی ان کا حق نہ پہچانے )وہ ہم میں سے نہیں ہے۔( جامع البیان العلم ،ص 48 )

(5)حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ۔کہ شافع امت جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب عالم اور عابد پل صراط پر جمع ہوں گے۔ تو عابد سے کہا جائے گا ۔جنت میں داخل ہوجاؤ اور اپنی عبادت کے سبب نازونعم کے ساتھ رہو۔ اور عالم سے کہا جائے گا یہاں ٹھہرجاؤ اور جس شخص کی چاہوں شفاعت کرو اس لیے کہ تم جس کی شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔(علم وعلماء کی اہمیت از مفتی قاسم عطاری دامت براکاتہم العالیہ )

علم دین سیکھنے کا جذبہ حاصل کرنے علماء کرام کا ادب واحترام سیکھنے کے لیے دعوت اسلامی کے پیارے پیارے مدنی ماحول سے ہردم وابستہ رہیں۔امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اس حوالے سے اپنے مریدین اور محبین کو وقتاً فوقتاً تربیت فرماتے رہتے ہیں ۔اور فرماتے ہیں کہ دعوت اسلامی سے تمام وبستگان بلکہ ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء اہل سنت سےہر گز نہ ٹکرائیں بلکہ ان کا ادب و احترم کریں۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علماء اہلسنت کا ہمیشہ ادب کرنے والا بنائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک علم والا حکمت والا ہے۔ اس کی محبوب صفات ( صفات باری) میں ایک العلیم  بمعنی جاننے والا ہے۔ اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ (علم دین) عطا فرماتا ہے۔قالوا " بلی" کی صدا سے، تخلیق آدم علیہ الصلوتہ والسلام سے فرشتوں کے سجدہ کرنے تک، اور جملہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی شان مبارک سے بندہ مومن کی موت تک علم ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے بندہ نکھرتا، نمایا، خوبصورت ، اور محبوب اور قرب باری کا سبب بنتا اور دیگر مقام طے کرتا ہے ۔

اگر رب کریم کے نزدیک کوئی شے علم سے بہتر ہوتی تو آدم علیہ الصلوٰۃ واسلام کو فرشتوں کے مقابل وہی دی جاتی۔ اور بندہ مؤمن کے جب مرنے کے وقت چند ساعتیں باقی ہونے پر محبوب آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم میں مشغول  ہونے کی تلقین ارشاد فرمائی۔ اس سے روز روشن ، سورج کی طرح علم کی فضیلت  عیاں ہے۔عالم: جو اس صفت کسی شے کے بارے میں جان لے اس کو عالم علم والا کہتے ہیں ۔

عالم دین کی شان و فضیلت بہت بلند ہے :قرآن مجید میں اللہ پاک نے علماء کرام کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ کہ جو انتہا نہیں رکھتا ۔ علما کو اپنی وحدانیت  پر گواہ دلیل قرار دیا ۔ کمال ایمان والے،  سب سے زیادہ ڈرنے والے رب سے، بلند مقام والے، خوف خدا کا ذریعہ، قرآن کریم سمجھنے اور سمجھانے والے،  علماء کرام ہی ہیں ۔ اور آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ علم ہی کی وجہ سے مؤمن اللہ پاک سے قریب تر اور کوئی چیز خدا کے نزدیک جہل بے علمی سے بدتر نہیں ۔ (فضل العلم و العلماء، ص 7)

احادیث  مبارکہ:

(1) امام ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادہ، 4/313، حدیث 2494)

(2) حدیث پاک میں ہے کہ جب اللہ پاک قیامت کے دن اپنی کرسی پر بندوں کے درمیان  فیصلہ کرنے بیٹھے گا( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) تو علماء سے فرمائے گا : میں نے اپنا علم و حلم (نرمی) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔(المعجم الکبیر 2/84، حدیث 1381)

(3)بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اللہ (پاک) بڑا جواد ( سب سے زیادہ نوازنے والا ) ہے اور میں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہے جس نے علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا ۔(شعب الایمان، باب فی نشر العلم، 2 / 281، حدیث :1767، باختصار)

(4) احیاء العلوم میں مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بہشت (جنت) میں جاؤ۔ علما عرض کریں گے: الہی انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی، جہاد کیا۔ حکم ہو گا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت جنت میں جاویں گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب العالم، الباب الاول فی فضل العلم ۔۔۔ الخ 1/26)

(5) حدیث مبارکہ میں آیا ہے جو شخص ایک باب علم اوروں (دوسروں) کے سکھانے کے لیے سیکھے اس کو ستر (70) صدیقوں  کا اجر دیا جائے گا۔(الترغیب و الترھیب، کتاب العلم، الترغیب فی العلم۔۔۔ الخ 1/ 68 ، حدیث: 119)

حکایت:ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم تشریف لاتے، بادشاہ ان کی تعظیم کے لیے سروقد (یعنی سرو کے درخت کی طرح بالکل سیدھا) کھڑا ہوتا۔ ایک بار درباریوں نے عرض کیا:یا امیر المؤمنین  رعب سلطنت جاتا ہے۔ جواب دیا: اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہارون رشید کا رعب روئے زمین کے بادشاہوں پر درجہ اتم ( یعنی بہت زیادہ) تھا۔ سلاطین نصاری( یعنی عیسائی بادشاہ ) اس کا نام لیتے کانپتے تھے۔(ملفوظات اعلی حضرت ،1/ 145)

کروں عالموں کی کبھی بھی نہ توہین

بنا دے مجھے با ادب یا الہی

علما، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ واسلام کے وارث ہیں۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ بزگوں کا مقولہ ہے کہ علما ہی انسان ہے۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں ہماری۔ تمام علماء اہل سنت ہمارے سروں کے تاج ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں علماء کرام اہل حق کی خوب تعظیم، ادب کرنے کی توفیق  عطا فرمائے اور ان کی صحبت عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

قرآن و حدیث میں عُلَما  کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو حساب و کتاب کے لیے روکا جائے گا اور عُلَما کو ان کی شفاعت کے لیے روکا جائے گا۔اللہ پاک نے عُلَما کو دیگر لوگوں پر فضیلت و برتری عطا فرمائی ہے لہٰذا غیرِ عُلَما( نہ جاننے والے) عُلَما (جاننے والوں) کے برابر نہیں ہو سکتے چنانچہ پارہ 23 سورۃ الزمر کی آیت نمبر 9 میں ارشادِ ربّ العباد ہے : قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- ترجمۂ کنزالایمان : تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان ۔(پ 23 ،الزمر : 09)

احادیثِ مبارکہ میں بھی عُلَما کے فضائل بیان کیے گئے ہیں چنانچہ فضائلِ عُلَما پر مشتمل 5 اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :

(1) نبیوں کے سلطان، رحمتِ عالمیان، سردارِ دو جہان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : عالِم کی فضیلت عابِد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے اَدنیٰ پر، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ پاک ، اس کے فِرِشتے ، آسمان اور زمین کی مخلوق یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سُوراخوں میں اور مچھلیاں (پانی میں) لوگوں کو نیکی سکھانے والے پر”صَلٰوۃ “بھیجتے ہیں۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اللہ پاک کی”صَلٰوۃ “ سے اس کی خاص رحمت اور مخلوق کی ”صَلٰوۃ “ سے خصوصی دُعائے رحمت مُراد ہے۔(مِرآۃ المناجیح، 1/200)

(2)حُضُورِ اکرم ، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے : ایک فَقِیْہ ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر سخت ہے۔(تِرمِذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 311، حدیث : 2690(

(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دلنشین ہے : عُلَما کی سیاہی شہید کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔(تاریخ بَغْداد، حرف الحا، ذکر من اسمہ محمد واسم ابیہ الحسن، محمد بن الحسن بن ازھر … الخ، 2/ 190، حدیث : 618)

(4) سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مشکبار ہے : بے شک عُلَما کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسے آسمان میں ستارے، جن سے خشکی اور سَمُندر کی تاریکیوں میں راستے کا پتا چلتا ہے لہٰذا اگر ستارے مٹ جائیں تو قریب ہے کہ راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔(مسند امام اَحمد، مسند انس بن مالک، 4/ 314، حدیث : 12600)

(5)نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحروبَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے: لوگوں میں درجہ نبوت کے زیادہ قریب علماء اور مجاہدین ہیں۔ علماء ، انبیائے کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعت (کی حفاظت) کے لئے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔ (سیر أعلام النبلاء ، الطبقۃ الخامسۃ والعشرون ، حدیث:4337، الحسینی محمد بن محمد بن زید ، 14/52، مختصرًا)

اللہ پاک ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم کی تعریف:حضرت امام سید شریف جرجانی رحمۃُ اللہِ علیہ علم کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلْعِلْمُ ھُوَ الِاعْتِقَادُ الْجَازِم اَلْمُطَابِقُ لِلْوَاقِعْ یعنی علم وہ پختہ یقین ہے جو واقع کے مطابق ہو۔( التعریفات ۔ 110) علم و علماء کی فضیلت پر تمہید:علم کوئی ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کی وضاحت ہو ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ علم بہت بہتر چیز ہے اور اس کا حاصل کرنا طغرائے امتیاز ہے اور یہاں پر علم سے ہماری مراد وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سنور جاتی ہیں اور یہی علم ذریعہ نجات ہے۔ (حاشیہ تعلیم المتعلم ،ص07 )

حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخی کتاب”کشف المحجوب“کا آغاز ہی فضیلتِ علم سے کیا۔فرماتے ہیں کہ اول در اثباتِ علم : یعنی پہلا باب اثباتِ علم کے بیان میں ہے۔

طلبِ علم کے متعلق احادیث

: (01) طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ ترجمہ : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (طبرانی 370 ) (02) اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصَّیْن ترجمہ : علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے (المعجم الاوسط،7/ 97)

پس اتنا علم فرض ہے کہ جس سے حضرتِ انسان اپنے اعمال درست کر سکے، جو بے فائدہ علوم بندہ حاصل کرتا ہے یعنی اس کی ذات یا کسی دوسرے کو اِن علوم سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو تو ایسے علم کی اللہ پاک نے مذمت فرمائی ہے: (ترجمہ آیتِ مبارکہ) اور وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کو نہ ضرر دیتا ہے اور نہ نفع ۔(کشف المحجوب، 20(

علمائے کرام کے فضائل پر (05) فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

(01) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ۔ایک عبادت گزار ،دوسرا علم دین کا۔تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ ، اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں (پانی میں) صلوة بھیجتے ہیں ، لوگوں کو علمِ دین سکھانے والے پر۔( مشکوة المصابیح 34)فائدہ:اندازہ کرنا چاہئے کہ اس حدیثِ مبارکہ میں کس قدر عابد پر عالم کی فضیلت و شان کا اظہار ہے۔جب حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء و مرسلین سے افضل ہیں تو ایک ادنیٰ آدمی پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فضیلت کس قدر ہو گی؟

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کی فضیلت عابد پر اس لئے بہت زیادہ ہے کہ علم کا فائدہ دوسرے کو بھی پہنچتا ہے اور عبادت کا فائدہ صرف عبادت گزار کو ہی پہنچتا ہے۔نیز علم یا تو فرضِ عین ہے اور فرضِ کفایہ اور زائد عبادت سے افضل ہے۔فرض کا ثواب بہرحال نفل سے زیادہ ہے۔(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، 1/ 249)

(2) علما انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے وارث ہیں :حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ العلماء مصابیح الارض و خلفاء الانبیاء و ورثتی و ورثة الانبیاء ترجمہ: علما زمین کے چراغ اور انبیاء کے خلفاء (جانشین) اور میرے اور دوسرے نبیوں کے وارث ہیں۔( کنز العمال ، 10/ 79(

(3) عالم کو دیکھنا عبادت ہے:حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:پانچ چیزیں عبادت میں شامل ہیں: (01) کم کھانا ، (02) مسجد میں بیٹھنا ، (03) کعبہ کو دیکھنا، (04) مصحف یعنی قرآن پاک کو دیکھنا ، (05) اور عالم کا چہرہ دیکھنا۔

(4) عن ابن عباس رضی اللہ عنہ تدارس العلم ساعة من اللیل خیر من احیائھا ترجمہ: رات کی ایک گھڑی کی درس و تدریس رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ (مشکوٰۃ، ص 36)

فائدہ:ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں علم کی تکرار کرنا، استاد سے پڑھنا، شاگرد کو پڑھانا، کتاب تصنیف کرنا یا کتاب کا مطالعہ کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔(مرقات شرح مشکوٰۃ ، 1/ 251)

(05) علم مؤمن کا گہرا دوست ہے:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں:علیکم بالعلم فان العلم خلیل المؤمن ترجمہ: علم کو لازم پکڑو اس لئے کہ علم مؤمن کا گہرا دوست ہے۔(کنزالعمال ، 10/ 88)

علماء کرام کے فضائل پر اسلاف کے اقوال:(01) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جب لڑکوں کو علم پڑھتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے: شاباش! تم حکمت کے سر چشمے ہو، تاریکی میں روشنی کے مینار ہو، کپڑے پھٹے پرانے ہیں ، لیکن تروتازہ ہیں، تم علم کے لئے مدارس میں قید ہوئے مگر تم ہی قوم کے مہکنے والے پھول ہو۔(02) حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رضائے الٰہی کے لئے علم حدیث کی تحصیل دنیا بھر کی نعمتوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔(03) حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں:سینے میں نورِ علم اندھیرے گھر میں چراغ کی مثل ہے۔ (04) ایک حکیم کا مقولہ ہےکہ علماء بارانِ رحمت ہیں جہاں بھی ہوں گے نفع پہنچائیں گے۔(05) ابن المقنع نے کہا: علم حاصل کرو ، بادشاہ ہوے تو اونچے ہو جاؤ گے ،   اگر عام آدمی ہوئے تو زندہ رہ سکو گے۔ (06) حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں کہ طلبِ علم، نفلی نماز سے افضل و اعلیٰ ہے۔