علم و علماء کے بے شمار فضائل ہیں، اگر اللہ کریم کے نزدیک علم سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو رب کریم آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے مقابلے میں ضرور عطا فرماتا۔ جب فرشتوں کی تسبیح علم اسماء کے برابر نہ ٹھہری تو پھر علم حقائق و دیگر علوم دینیہ کے فضائل کا کیا عالم ہوگا۔

علم و علماء کے فضائل میں گاہے بگاہے میرے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:

(1) ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: جو شخص علم کا ایک باب دوسروں کے سکھانے کے لئے سیکھے اس کو ستر صدیقوں کا اجر دیا جائے گا ۔(الترغیب والترھیب ،1/68،حدیث:119)

(3) بخاری شریف میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ کریم جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔( بخاری ،1/41)

(4) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب انسان جب مرجاتا ہے اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں (کہ مرنے کے بعد بھی یہ عمل ختم نہیں ہوتے اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں) (1) صدقہ جاریہ اور (2)علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور (3) اولاد صالح جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، ص886،حدیث: 1631)

(5) امام غزالی احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے درجۂ نبوت کے قریب تر علما و مجاہدین ہیں۔( احیاء العلوم،1/20)