قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ
الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا
هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی
معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں
عزت والا حکمت والا ۔(پ3،اٰل عمران: 18)
اس آیت کی تفصیل میں آیا ہے کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء علیہم
الصَّلٰوۃُ والسلام اور اولیاء رحمۃُ اللہِ
علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ
اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا،
لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی
صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں
اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے،
جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اورحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔(صراط الجنان،1/449)
(1) علما کے سامنے
خاموش رہنا: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃ الوداع میں ان سے فرمایا: لوگوں کو چپ کراؤ۔ تو
فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنوں کو مار کر (جو کفار کی صفت ہے) کافر نہ بن
جانا۔ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ علمائے حق کے ہوتے ہوئے انسانیت کے حقوق نہ
بھلا دینا ہر معاملات میں علمائے حق اہل سنت بریلوی سے استفادہ کرنا چاہئے۔
(2) حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علما کی سیاہی شہید کے خون سے تولی جائے گی
اور اس پر غالب ہو جائے گی۔(3)حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ابوبکر بن حزم
کو لکھا باب 76 بخاری فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس جتنی احادیث جمع ہیں، جمع کر لے، کیونکہ
مجھے خوف ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور علما کا جاتے رہنے کا خوف ہے۔ اس لیے چاہیے کہ
علماء اکٹھے ہوں اور ہر حدیث کو سمیٹے اور پھیلائیں۔ اور جو
لاعلم ہے اس کو علم پہنچائیں اور قید نہ کریں
کہ یہ درست نہیں۔
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عُلَما
کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسے آسمان میں ستارے، جن سے خشکی اور سَمُندر کی تاریکیوں
میں راستے کا پتا چلتا ہے لہٰذا اگر ستارے مٹ جائیں تو قریب ہے کہ راستہ چلنے والے
بھٹک جائیں گے۔
عالم کے حقوق: مسئلہ عالم اگرچہ جوان ہو، بوڑھے جاہل پر فضیلت رکھتا ہے ۔لہذا چلنے اور بیٹھنے میں
گفتگو کرنے میں عالم کو بوڑھے جاہل پر فوقیت اور ترجیح دینی چاہیے یعنی بات کرتے
وقت میں اس سے پہلے کلام نہ شروع کرے اور نہ اس سے آگے چلے، عالم دین کے لیے مجلس
میں عمدہ جگہ ہونی چاہیے اور ایسی جگہ بیٹھا ہو کہ ہر آنکھ اس کو بغیر رکاوٹ کے دیکھ
سکے۔
مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے
پیار ہے
اِنْ شَاءَ اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے