اللہ پاک علم والا حکمت
والا ہے۔ اس کی محبوب صفات ( صفات باری) میں ایک العلیم بمعنی جاننے والا ہے۔ اللہ پاک جس سے بھلائی کا
ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ (علم دین) عطا فرماتا ہے۔قالوا "
بلی" کی صدا سے، تخلیق آدم علیہ الصلوتہ والسلام سے فرشتوں کے سجدہ کرنے تک،
اور جملہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی شان مبارک سے بندہ مومن کی موت تک علم
ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے بندہ نکھرتا، نمایا، خوبصورت ، اور محبوب اور قرب باری
کا سبب بنتا اور دیگر مقام طے کرتا ہے ۔
اگر رب کریم کے نزدیک کوئی
شے علم سے بہتر ہوتی تو آدم علیہ الصلوٰۃ واسلام کو فرشتوں کے مقابل وہی دی جاتی۔
اور بندہ مؤمن کے جب مرنے کے وقت چند ساعتیں باقی ہونے پر محبوب آقا کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم میں
مشغول ہونے کی تلقین ارشاد فرمائی۔ اس سے روز روشن ، سورج کی طرح علم کی
فضیلت عیاں ہے۔عالم: جو اس
صفت کسی شے کے بارے میں جان لے اس کو عالم علم والا کہتے ہیں ۔
عالم دین کی شان و فضیلت بہت بلند ہے :قرآن مجید میں اللہ پاک نے
علماء کرام کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ کہ جو انتہا
نہیں رکھتا ۔ علما کو اپنی وحدانیت پر گواہ دلیل قرار دیا ۔ کمال ایمان
والے، سب سے زیادہ ڈرنے والے رب سے، بلند مقام والے، خوف خدا کا ذریعہ، قرآن
کریم سمجھنے اور سمجھانے والے، علماء کرام ہی ہیں ۔ اور آیت مبارکہ کا مفہوم
ہے کہ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ علم ہی کی وجہ سے مؤمن
اللہ پاک سے قریب تر اور کوئی چیز خدا کے نزدیک جہل بے علمی سے بدتر نہیں ۔ (فضل
العلم و العلماء، ص 7)
احادیث مبارکہ:
(1) امام
ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا
عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل
العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی فضیلت عالم
ی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔) ترمذی، کتاب العلم، باب
ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادہ، 4/313، حدیث 2494)
(2) حدیث پاک میں ہے کہ جب
اللہ پاک قیامت کے دن اپنی کرسی پر بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے بیٹھے گا(
جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) تو علماء سے فرمائے گا : میں نے اپنا علم و حلم
(نرمی) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پرواہ
نہیں ۔(المعجم الکبیر 2/84، حدیث 1381)
(3)بیہقی روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اللہ (پاک) بڑا جواد ( سب سے زیادہ
نوازنے والا ) ہے اور میں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی
وہ ہے جس نے علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا ۔(شعب الایمان، باب فی نشر العلم، 2 /
281، حدیث :1767، باختصار)
(4) احیاء العلوم میں
مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا
بہشت (جنت) میں جاؤ۔ علما عرض کریں گے: الہی انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی،
جہاد کیا۔ حکم ہو گا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری
شفاعت قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت جنت میں جاویں گے۔(احیاء علوم
الدین، کتاب العالم، الباب الاول فی فضل العلم ۔۔۔ الخ 1/26)
(5) حدیث مبارکہ میں آیا
ہے جو شخص ایک باب علم اوروں (دوسروں) کے سکھانے کے لیے سیکھے اس کو ستر (70)
صدیقوں کا اجر دیا جائے گا۔(الترغیب و الترھیب، کتاب العلم، الترغیب فی
العلم۔۔۔ الخ 1/ 68 ، حدیث: 119)
حکایت:ہارون رشید کے دربار میں
جب کوئی عالم تشریف لاتے، بادشاہ ان کی تعظیم کے لیے سروقد (یعنی سرو کے درخت کی
طرح بالکل سیدھا) کھڑا ہوتا۔ ایک بار درباریوں نے عرض کیا:یا امیر المؤمنین
رعب سلطنت جاتا ہے۔ جواب دیا: اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو
جانے ہی کے قابل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہارون رشید کا رعب روئے زمین کے بادشاہوں پر
درجہ اتم ( یعنی بہت زیادہ) تھا۔ سلاطین نصاری( یعنی عیسائی بادشاہ ) اس کا نام
لیتے کانپتے تھے۔(ملفوظات اعلی حضرت ،1/ 145)
کروں عالموں کی کبھی بھی نہ توہین
بنا دے مجھے با ادب یا الہی
علما، انبیاء کرام علیہم
الصلوٰۃ واسلام کے وارث ہیں۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ
بزگوں کا مقولہ ہے کہ علما ہی انسان ہے۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں ہماری۔ تمام علماء اہل سنت ہمارے سروں کے
تاج ہیں۔