قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ (پ 23 ،زمر : 09)اس آیت میں استفہام(سوال) ”نفی“کے معنی میں ہے۔ یعنی علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں۔ کیونکہ علم والے انبیاء ورسل کے وارث ہیں اور انبیاء ورسل سے وراثت میں مال و دولت نہیں بلکہ علم ملا ہے ۔اسی لئے جس طرح انبیاءورسل تمام مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح ان کی وراثت یعنی علم بھی سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔

جو شخص عبادات و ریاضات میں مشغول رہتا ہو تو اس کا علم صرف اپنی عبادات تک محدود رہتا ہے، جتنی عبادت کرتا ہوگا صرف اسی کا علم رکھتا ہوگا۔ اسی کے مقابل ایک عالمِ دین ممکن ہے کہ عبادات کم کرتا ہو لیکن وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اصلاح کا ذمہ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک عابد خود تیر کر کنارے تک پہنچتا ہے جبکہ عالم دین اپنے ساتھ کئی ڈوبتوں کو بھی پار لگاتا ہے۔ عابد آگ سے صرف اپنی کملی بچاتا ہے جبکہ عالم لوگوں کی جان بھی بچاتا ہے۔یہی وجہ ہی کہ احادیثِ مبارکہ میں عالم کی عابد پر فضیلت کا بیان کثرت سے ملتا ہے۔ اسی موقع کے اعتبار سے علماء کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کئے جاتے ہیں:

(1)تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت میرے ادنی صحابی پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر ۔ (سنن ابوداود، کتاب العلم، باب الحث علی الطلب العلم،4/444،حدیث :3641)

(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی کوئی عبادت ایسی نہیں کی گئی جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے افضل ہو اور ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ ہے۔( المعجم الاوسط،4/337، حدیث:6166)

(4) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مومن عالم مومن عابد پر 70درَجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔( جامع بیان العلم وفضلہ،حدیث:84، ص36)

(5) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔( شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717)

ان احادیث مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح ہورہی ہے کہ علمِ دین حاصل کرنا اور سکھانا باقی تمام تر نفلی عبادات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کو عابد پر نہیں بلکہ عابدوں پر کئی درجات فضیلت حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ بروزِ محشر انبیاءورسل کے ساتھ شفاعتِ امت کا حق بھی حاصل ہوگا کہ جس کی چاہیں گے بخشش کروائیں گے گویا کہ عالمِ دین پر اللہ پاک کا خاص کرم دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا ۔

اللہ پاک ہمیں علم سیکھنے، سمجھنے، دوسروں کو سکھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور کروانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم