محمد
طلحہ محمود عطّاری(درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ خانیوال،پاکستان)
اسلام
سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده
تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے
بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور
ميں يہ رسم اپنى بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک کہ جان عالم،خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر
كارى ضرب لگائى۔
حضور
علیہ السلام کی آمد سے قبل ہر اعتبار سے حضرت انسان جہالت کے سمندر میں غوطہ زن
تھا، جہاں دیگر معاملات زندگی میں پستی کا شکار تھا، وہیں پر ایک آفت یہ تھی کہ
اپنے خادموں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کرتا تھا۔ جہاں دین اسلام نے دنیا
کے جاہلانہ نظام کو تبدیل فرما دیا وہیں پر انسان كى معاشرتى زندگى ميں بهى اسلام
نے ايك عظيم انقلاب پيدا كيا۔ رنگ ونسل كے امتيازات ريت كےگھر وندے كى طرح گرادے
گئے،اصول مساوات كے تحت سفيد وسياه،حاكم اور محكوم،عربى اور عجمى سب ايك ہى صف ميں
كھڑے كردے گئے،صرف مسجد ميں ہى نہيں بلكہ ہر جگہ اور مقام پر مسلمان ايك دوسرے سے
يكساں سطح اور مرتبہ پر ملتے ہيں يہ اس لئے اسلام كى نگاه ميں مادى شے مثلاً دولت
ومنصب،نسلى ولسانى امتيازات،خاندانى وجاہت اور برترى كا باعث نہيں ہيں صرف كردار
اخلاق سے مراتب ودرجات كا تعين ہوتا ہے جيسا ارشاد ربانى ہے: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ
اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ کے یہاں تم میں
زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26، الحجرات:13)
اس
طرح اسلام نے انسانى درجہ بندى كا معيار ہى بدل ڈال جس سے حسب ونسب اور دولت،
انسان كے مرتبہ كى كسوٹى نہيں رہى بلكہ معاشره ميں انسان كا مقام اس كے كردار سے
متعين ہونے لگا۔فرمان آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:
عَنْ اَبِي
ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِخْوَانُكُمْ
جَعَلَهُمُ اللہ فِتْيَةً تَحْتَ اَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ اَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ
فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ وَلْيُلْبِسْهُ مِنْ لِبَاسِهِ وَلَا يُكَلِّفْهُ
مَا يَغْلِبُهُ فَاِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ قَالَ وَفِي
الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَاُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَاَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابوذر
رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ
تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیرِ دست کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی
(خادم)ہو وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی
ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف
بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے۔(ترمذی)
اللہ
تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں اللہ
کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقّی ہے خادم، آقا،
ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں، معاشی فرق صرف اور صرف اس لئے ہے، تاکہ نظام
عالم چلتا رہے۔
عفو و درگزر سے کام لینا:
دنیا
میں ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی
اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصّہ ہماری خدمت
گزاری میں وقف کرتے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے
ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم
کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام
نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی
پر تحمّل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور
کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات
ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصّہ کرنے کے بجائے، صبر سے کام لینا
چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں
اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا
باعث بنتی ہے۔
حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا۔یارسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟‘‘ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہر
روز ستّر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)
حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کیا میں تمہیں وہ شخص نہ
بتاؤں جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر
رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ (ترمذی شریف)
حضرت
سہیل بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو
اپنے غصّے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے
روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس
حور کو چاہے، پسند کرلے۔ (ترمذی شریف)
کلیم
اللہ عطّاری(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ایک
عرصہ تک دنیا میں انسانی غلامی کا رواج رہا، ا نہیں منڈیوں میں خریدا اور بیچا
جاتا حقوق سلب اور ضائع کیے جاتے بے پناہ تشدد کیا جاتا بنیادی انسانی حقوق سے
محروم رکھا جاتا معاشرے کاحقیر اور گھٹیا فرد تصور کیا جاتا لیکن جب آفتاب اسلام
کے انوار چمکے اور محسن انسانیت تشریف لائے تو غلاموں اور نوکروں کے ساتھ بہترین
سلوک کا درس دیا جس طرح اسلام معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس
دیتا ہے اسی طرح نو کروں و غلاموں کے حقوق کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ آئیے غلاموں
ونوکروں کے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:
کام میں کمی کرنا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے نوکر پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالے اور اس کے کام میں کمی
کرتا رہے۔جس طرح کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اپنے
خادم کے عمل میں جتنی کمی کرو گے تمھارے اعمال نامہ میں اتنا ہی ثواب لکھا جائے
گا۔ (صحیح ابنِ حبان، کتاب العتق، باب التخفیف عن الخادم، رقم 4293، ج 4، ص 255)
ملازم کی مدد کرنا:
اگر
کوئی کام مشکل ہو تو مالک کو چاہیے کہ خود بھی اس کی مدد کرےجس طرح کہ حضور علیہ
السلام نے فرمایا غلام کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دو جو اس کے لیے دشوار ہو
اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ (مسلم ص 700،
حدیث: 4313)
نرمی و
رحم کرنا:
آدمی
کو اپنے ملازم پر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش
آئے حضور علیہ السلام نے بھی رحم دلی کے حوالے سے فرمایا: اللہ اس پر رحم نہیں
کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری 4/532، حدیث: 7376)
احکامات شرعیہ کو بجالانے کا حکم دینا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے غلام کو نیکی کا حکم دیتا رہے اور اس سے نماز وغیرہ عبادات کا
بجا لانے کا حکم دیتا ر ہے کیونکہ حضور علیہِ السلام نے فرمایا: خبردار تم سب حاکم
ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (مراۃ المناجيح شرح مشکوۃ
المصابيح)
اچھا لباس زیب تن کروانا:
مالک
کوچاہیے کہ اپنے ملازم کو اچھا لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے:حضور علیہ السلام
نے فرمایا:اپنے ماتحت کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ (مسلم، ص 700 حدیث 4313)
جنید
یونس(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اﷲ
تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابری نہیں دی کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا
تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ
ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے۔ بلکہ درجات و مقامات کی یہ
اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا
یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ
کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا
ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ
ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری
کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک:
خیر
کے کاموں میں حُسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی
ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں حضور علیہ السلام کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے
کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی
اور بَد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔
طے
شدہ اجرت کی ادائیگی ملازم کو بروقت کرنا چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی
پریشانیوں کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ
میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔
عفو و
درگزر سے کام لینا:
ہر
انسان بتقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے
مستثنٰی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف
کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں، تو بعض
اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی
پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر
ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے
درگزر کرنا چاہیے۔
اگر
اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کی
فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے
بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے
لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و
اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
حضرت
عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)
ملازم
پر مال خرچ کرنا:
ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور
تنخواہ کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے جس کا اﷲ کے یہاں
بڑا اجر و ثواب ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے
ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار
کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم
اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے جو ان
کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
خادم
کے لیے دعا:
حضور
سرور عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ہمیں اس سے منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں کے لیے اور
اپنے مال کے حق میں بددعا کریں۔ ابوداؤد میں یہ روایت ہے کہ نبیِّ کریم نے
فرمایا:اپنے لیے بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو
بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت
دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمہاری بددعا قبول ہوجائے۔ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضور اکرم صلی اللہ عنہ
نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یوں دعا
دی:اے ہمارے رب انس کو مال واولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما، جب آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پانی پلایاگیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے پانی پلانے والےخادم کے حق میں دعا کی: اے ہمارے رب تو اپنی طرف سے اس
شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی
پلایا۔ (مسلم)
مزمل
حسن خاں(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اسلام
سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده
تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے
بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور
ميں يہ رسم اپنى تمام بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک كہ خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر
كارى ضرب لگائى خادم معاشرے كے ديگر افراد كى طرح
بھى اس شخص پر حقوق ہيں جس كےتحت وه فرائض انجام ديتا ہے، ان حقوق كو چار حصوں ميں
تقسيم كيا جا سكتا ہے:(خوش گفتارى، حسن ِسلوك، كام ميں معاونت، اور تحفظ ِملازمت)۔
خادم كو اصلى نام سے پكارنا:
پيار سے اسے كوئى اور نام سے پكارنا مقصود ہو تو
وه نام بھى اچھا ہونا چاہئے، اس كا نام بگاڑ كر لينا يا اسے بد تہذيب لقب دينا
مذموم فعل ہے، قرآن كريم ميں اس كى مذمت آئى ہے: وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا
بِالْاَلْقَابِؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ
رکھو۔(پ26، الحجرات:11)
خادم كا مذاق بھى نہيں اڑانا چاہئے:
اكثر
لوگ باتوں باتوں میں ايسا كرتے رہتے ہيں، ارشاد ربانى ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ
مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں
سے بہتر ہوں۔ (پ26، الحجرات:11)
ملازم وخادم كو اس كى ذات پات كا طعنہ نہيں
دينا چاہئے:
اور
نہ اس كى كوئى عيب جوئی كرنى چاہئے، قرآن مجيد ميں اس بارے ميں سخت حكم ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ
هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:خرابی ہے اس کے لیے
جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(پ30، الھمزۃ:1)
4 بر وقت اجرت دینا:
حدیث شریف مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے
دے دو۔(بہار شریعت، جلد 3،حصہ 14،ص 105)
معاف
کرنا:
وَعَنْ
عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ
فَسَكَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَتِ
الثَّالِثَةُ قَالَ:اعْفُوا عَنْهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ:روایت
ہے حضرت عبداﷲ ابن عمر سےفرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی
خدمت میں حاضر ہواعرض کیا یارسول اﷲ ہم خادم کو کتنی بار معافی دیں حضور خاموش رہے
اس نے پھر وہ سوال دہرایا آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار سوال ہوا تو فرمایا اسے
ہر دن میں ستر بار معافی دو۔
عبدالرحمٰن
عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی، پاکستان)
الحمد
لله دین اسلام مکمل ضابطہ اخلاق سے مزین ہے۔دنیا و آخرت میں انسان جس جس چیز کی
طرف محتاج ہے۔اسلام نے اسکو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔نظام زندگی کو
چلانے کے لئے دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے گئے ہیں۔کوئی مالک ہے تو
کوئی ملازم کوئی امیر ہے تو کوئی غریب کوئی امام ہے تو کوئی خادم (علی ھذا
القیاس)۔جہاں اسلام نے مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے ہیں۔وہی ان مراتب کے
لوازمات کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے۔کہ اگر کسی کے ماتحت افراد ہیں تو ان کے
حقوق کا خیال رکھے۔اگر کوئی والد ہے تو اپنی گھر والوں کے حقوق کا خیال رکھے۔اگر
کسی کے پاس ملازم و نوکر ہیں تو وہ ان ملازمین و نوکروں کا خیال رکھے۔
دین
اسلام نے جہاں حقوق کو بیان کیا ہے وہی ان حقوق کو ادا کرنے والے کے لئے اجر کو
بھی بیان کیا ہے اور حقوق کو ادا نہ کرنے والے کے لئے سزا کو بھی بیان کی ہے۔
سب سے
بڑا مفلس کون؟
حدیث
شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم
لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ جس
شخص کے پاس درہم اور دوسرے مال و سامان نہ ہوں وہی مفلس ہے تو حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے فرمایا کہ میری امت میں اعلیٰ درجے کا مفلس وہ شخص ہے کہ وہ قیامت کے
دن نماز روزہ اور زکوٰۃ کی نیکیوں کولے کر میدان حشر میں آئے گا مگر اس کا یہ حال
ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال
کھالیا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کو مارا ہوگا تو یہ سب حقوق والے اپنے
اپنے حقوق کو طلب کریں گے تو اﷲتعالیٰ اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کو ان کے
حقوق کے برابر نیکیاں دلائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کے حقوق نہ
ادا ہو سکے بلکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق باقی رہ گئے تو اﷲتعالیٰ حکم دے گا کہ
تمام حقوق والوں کے گناہ اس کے سر پر لاد دو۔ چنانچہ سب حق والوں کے گناہوں کو یہ
سر پر اٹھائے گا پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو یہ شخص سب سے بڑا مفلس
ہوگا۔(جنتی زیور ص 105)
جو خود کھاتے ہو وہی انہیں بھی کھلاؤ:
نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا ہے: لونڈی غلاموں کے حقوق ادا کرنے میں خدائے تعالی سے ڈرو جو تم لوگ
خود کھاتے ہو وہیں ان کو کھلاؤ جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ۔ اور ایسا مشکل
کام ان کے ذمہ نہ لگاؤ جو وہ نہ کر سکیں۔ اگر تمہارے مطلب کے ہیں تو ان کو رکھو
ورنہ فروخت کر دو۔ اور خدا کے بندوں کو اذیت اور تکلیف میں نہ رکھو۔ کیونکہ خدائے
تعالیٰ نے تمہارے لونڈی غلام بنایا اور تمہارے تابع کر دیا ہے۔ اگر چاہتا تو تم
کوان کے جانی اور زیر دست کر دیتا۔(کیمیائے سعادت، مترجم، ص 319)
کتنی مرتبہ معاف کریں؟ایک شخص نے
حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے عرض کیا ہم لوگ دن میں کتنی بار اپنے لونڈی غلاموں
کے قصور معاف کریں۔ فرمایا ستر بار۔(ایضاً)
ضروریات سے محروم نہ رکھے:امام
غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کو روٹی سالن
اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور
یہ خیال کرے کہ یہ بھی میری طرح بندے ہیں اور اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو جائے تو
آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے ان کا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر
غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔(کیمیائے سعادت
مترجم ص 320)
اللہ
کریم ہمیں تمام حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور کل بروز قیامت ہمیں اہل
جنت کی صف میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
محمد
ہارون عطاری (درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
الله
تبارک و تعالی نے ہم کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ہیں ان نعمتوں میں سے ایک اہم
نعمت خدمت گاروں کا وجود ہے جو روز مرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں قلیل معاوضے
پر راحت پہچانے میں دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں اللہ تعالٰی کی مشیت کے تحت بعض
لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ-نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ
مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ
دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ-وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ
مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۳۲)ترجمہ کنز الایمان: کیا تمہارے رب کی
رحمت وہ بانٹتے ہیں ہم نے ان میں ان کی زیست (زندگی گزارنے)کا سامان دنیا کی زندگی
میں بانٹا اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ ان میں ایک دوسرے کی ہنسی
بنائے اور تمہارے رب کی رحمت ان کی جمع جتھا سے بہتر ہے۔ (پ25، الزخرف:32)
نوکر و
ملازم کے حقوق پر احادیث:
(1)نوکر کی مزدوری دینا: حضرت عبدالله
بن عمر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو۔)ابن
ماجہ)
(2)نوکر کو نہ مارنا: حضرت عمار بن
یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا جو آقا اپنے غلام کو ناحق مارے گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے
گا۔(طبرانی مجمع الزوائد)
(3)خادم کو معاف کرنا:حضرت عبد الله
بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ ایک شخص رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول خادم کو ہم کتنی بار
معاف کریں؟ آپ صلی الله خاموش رہے پھر اس نے اسی سوال کو دہرایا آپ پھر بھی خاموش
رہے جب اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اسے
ہر دن ستر بادمعاف کیا کرو۔(ترمذی، ابوداؤد)
(4)خادم کو کھانا کھلانا:حضرت ابو
ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ اسی کے
پاس لے کر آئے جبکہ اس نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو
مالک کو چاہیے اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ بھی کھائے اگر وہ
کھانا تھوڑا ہو تو مالک کو چاہیے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے
دے۔
ملازمت
ایک اہم امرہے جو کسی کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس امر میں مخصوص حقوق اور
ذمےداریاں ہوتی ہیں۔ ملازمت کے حقوق کی پامالی نے معاشرت میں بہت سی مسائل پیدا
کیے ہیں لیکن ان حقوق کو اگر اچھے انداز میں اپنایا جائے تو یہ معاشرے میں بہترین
ترقی کا سبب ہے ملازمت کے حقوق کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان حقوق کی تشہیر
کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی زیادہ کمی اور ناانصافی برتری کو روکا
جاسکےاور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پائے سب سے پہلے ملازم ہونا کیسا چاہتے اس بارے
میں قرآن مجید میں اللہ پاک نے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی
ہے:
اِنَّ خَیْرَ مَنِ
اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(۲۶)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور امانت دار ہو۔(پ20، القصص:26)
(1) ملازم میں یہ خصوصیت ہو کہ وہ طاقتور اور ایماندار ہو: ملازم ایسا ہو کہ
وہ اپنے کام کو اچھے معیار کے مطابق کرنے کے صلاحیت رکھتا ہو اور اپنا کام
ایماندار سے سرانجام دے سکے۔
(2) ملازم کو اپنے کام کی شرائط
کی وضاحت دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے واجبات اور ذمےداریوں کو بہتر طریقے سے پورا کر
سکے۔
(3)ملازمین کو اُنکی اُجرت لازمی
طور پر دینی چائیے حدیثِ قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے:تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت
کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی
مزدور کو اُجرت پر رکھے اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد،ج
3،ص278، حدیث: 8700 ملتقطاً)
(4)اسلام
میں جہاں دیگر مقامات پر انسانیت پر بہت زیادہ شفقت کرنے کا حکم کیا ہے وہاں
ملازمین پر بھی شفقت و محبت کا روایہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ اگر ان سے کوئی
غلطی ہو جائے تو معاف کر دیں منقول ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ پاک علیہ الصَّلٰوۃ
والسَّلام سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے
دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:ہر روز 70
بار۔(ابو داؤد،ج 4،ص439، حدیث 5164)
(5) ملازم کا ایک حق اسکی اُجرت بھی ہے اس بارے میں آقا کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: قَالَ رَسُولُ اللہ صلى الله عليه وسلم أَعْطُوا
الأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُه رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا
کرو۔ (سنن ابن ماجہ، كتاب الرهون باب
اجر الاجراء، حديث:2443)
قاری
احمد رضا (درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے دین اسلام نہ صرف والدین بہن بھائیوں استادوں کے حقوق
بیان کرتا ہے بلکہ ملازم و نوکر کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے چنانچہ آپ بھی نوکر و
ملازم کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیے۔
(1)استطاعت کے مطابق کام لینا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے نوکر پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالے اور اس کے کام میں کمی
کرتا رہے، جس طرح کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اپنے
خادم کے عمل میں جتنی کمی کرو گے تمہارے اعمال نامہ میں اتنا ہی ثواب لکھا جائے
گا۔(صحیح ابنِ حبان، کتاب العتق، باب التخفیف عن الخادم، رقم 4293، ج 4، ص 255)
(2)مدد کرنا:
اگر
کوئی کام مشکل ہو تو مالک کو چاہیے کہ خود بھی اس کی مدد کرےجس طرح کہ حضور علیہ
السلام نے فرمایا غلام کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دو جو اس کے لیے دشوار ہو
اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ (مسلم ص 700،
حدیث: 4313)
(3)نرمی و رحم کرنا:
آدمی
کو اپنے ملازم پر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش
آئے حضور علیہ السلام نے بھی رحم دلی کے حوالے سے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا
جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری، 4/532، حدیث: 7376)
(4)احکامات شرعیہ کو بجالانے کا حکم دینا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے غلام کو نیکی کا حکم دیتا رہے اور اس سے نماز وغیرہ عبادات کا
بجا لانے کا حکم دیتا ر ہے کیونکہ حضور علیہِ السلام نے فرمایا: خبردار تم سب
چرواہے ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (مراۃ المناجيح، شرح
مشکوۃ المصابيح)
(5)اچھا لباس زیب تن کروانا:
مالک
کوچاہیے کہ اپنے ملازم کو اچھا لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے:حضور علیہ السلام
نے فرمایا:اپنے ماتحت کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ (مسلم، ص 700 حدیث 4313)
موجودہ
احادیث سے درس حاصل کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ اپنے ماتحتوں سے اچھا سلوک کریں اور
ان کے حقوق کا خیال رکھیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ماتحتوں سے اپنے
بھائیوں جیسا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔
اشفاق احمد جوکھیو(جامعۃ المدینہ فیضان عثمان
غنی گلستان جوہر کراچی، پاکستان)
یہ
بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ہر ایک کا حق اس کی قرابت یا تعلق کے مطابق ہوتا ہے
اور تعلق و قرابت کے بہت درجے ہیں، حقوق اس کی مقدار کے مطابق ہیں اور قوی ترین
رابطہ اور تعلق خدا کے لیے ہے پھر برادری کا تعلق رابطہ ہے ہمارے اسلام نے ہر کسی
کے الگ حقوق بیان کیے ہیں جیسے والدین کے حقوق اولاد کے حقوق بھائی چارگی کے حقوق
رشتےداروں کے حقوق اسی طرح کچھ حقوق نوکر و ملازم کے بھی ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1)پہلا
حق جو چیز اپنے لیے پسند نہ کرے وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے حضور
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح
ہیں کہ جسم کے ایک عضو (حصہ)کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی اعضاء کو بھی اس کا احساس
ہوتا ہے اور رنج و تکلیف سے متاثر ہوتے ہیں۔ (کیمیائے سعادت، ص 303)
(2)دوسرا
حق کسی مسلمان کو اپنے ہاتھ اور زبان سے اذیت اور تکلیف نہ دے رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پتا ہے مسلمان کون ہوتا ہے؟ تو صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول جل و علا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم بہتر جانتے ہیں تو فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے
مسلمان سلامتی میں رہیں صحابہ کرام نے عرض کیا مومن کون ہوتا ہے؟ فرمایا مومن وہ
ہیں جس سے ایمان والوں کو اپنے جان و مال میں کوئی خوف و خطرہ نہ ہو۔ صحابہ کرام
نے عرض کیا: مہاجر کون ہوتا ہے؟ فرمایا جو برے کام کرنا چھوڑ دے۔(کیمیائے سعادت، ص
303)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں میں نے جنت میں ایک شخص
کو دیکھا جو جنت میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اسے محض اتنی سے بات سے حاصل ہوا کہ
دنیا میں راستے سے اس نے ایک ایسا درخت کاٹ دیا تھا جس سے گزرنے والوں کو تکلیف
ہوتی تھی۔
(3)تیسرا
حق کسی کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے کیونکہ تکبر کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں
رکھتا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میری طرف وحی نازل ہوئی
کہ ایک دوسرے کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آؤ تاکہ کوئی کسی پر فخر نہ
کرے اسی بنا پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ
بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے ساتھ جاتے اور ان کی حاجات پوری کرتے۔ اور ہرگز کسی کی
طرف حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ اللہ کا ولی اور دوست
ہو اور وہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اپنے اولیاء کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ ان
تک کوئی راہ نہ پا سکے۔ (کیمیائے سعادت، ص 304)
(4)چوتھا
حق کسی مسلمان کے حق میں چغلخور کی بات کا اعتبار نہ کرے کیونکہ اعتبار عادل کی
بات کا ہوتا ہے اور چغلخور فاسق ہے (اور فاسق کی بات کا کوئی اعتبار نہیں
ہوتا)حدیث شریف میں ہے کوئی چغلخور جنت میں نہیں جائے گا اور یہ بات ذہن میں رہے
کہ جو شخص کسی کی بد گوئی (برائی)تیرے سامنے کرتا ہے وہ اس کے سامنے تیری بد گوئی
کرنے سے باز نہیں آئے گا لہذا ایسے آدمی سے کنارہ کشی لازمی ہے اور اسے جھوٹا تصور
کرنا چاہیے۔ (کیمیائے سعادت،ص 304)
(5)پانچواں
حق 3 تین دن سے زیادہ کسی آشنا اور واقف کار سے ناراض نہ رہے کیونکہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کسی مسلمان کے لیے حلال اور جائز نہیں کہ مسلمان کے
ساتھ 3 تین دن سے زیادہ ناراض رہے دونوں میں بہتر وہ ہے جو السلام علیکم سے ابتدا
کرے۔
حضرت
عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا
میں نے تیرا درجہ اور نام اس لیے بلند فرمایا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو معاف
کردیاایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر تو اپنے بھائی کی غلطی و خطا کو معاف کر
دے گا تو تیری عزت و بزرگی میں ہی اضافہ ہوگا۔(کیمیائے سعادت، ص 305)
محمد
اسامہ عطاری مدنی (مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی، پاکستان)
اس
دنیا کا رنگ ہے کہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی
بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر، مقام ومرتبہ کا یہ فرق اس لئے
ہر گز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ
بلندی دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی حامی ہے۔
بروقت وظیفہ کی ادائیگی:
اپنے ماتحتوں (نوکر و ملازم)کو وظیفہ وقت پر ادا
کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں حیلے
بہانے کرنے اس میں کمی اور بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا
کام ہے حدیث قدسی ہے: الله پاک فرماتا ہے، تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں
خصم ہوں (یعنی ان سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر
رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد، ج 3، ص 278، حدیث: 8700)
ملازمین کے ساتھ شفقت:
اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور بھلائی
کا برتاؤ کرنا چاہیے ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بد
خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ (ابوداؤد، ج 4، ص 439،حدیث:5163)
اچھے القاب سے پکارنا:
خادم
کو اپنے اصلی نام سے پکارا جائے،پیار سے اسے کوئی اور نام سے پکارنا مقصود ہو تو
وہ نام بھی اچھا ہونا چاہئے،اس کا نام بگاڑ کر لینا یا اسے بد تہذیب لقب سے پکارنا
مذموم فعل ہے۔ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔
(پ26،الحجرات: 11)
ماتحت کو مارنا:
حضرت
ابن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے نہیں کیا یا اسے
طمانچے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، ص 178)
ذات پات کا طعنہ دینا: ملازم و خادم
کو اس کی ذات پات کا طعنہ نہیں دینا چاہیےاور نہ اس کی کوئی عیب جوئی کرنی چاہیے وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی
کرے۔(پ30، الھمزۃ: 1)
محمد
غوث چشتی (درجۂ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفیٰ لانڈھی کراچی،
پاکستان)
نوکروں
اور ملازموں کے حقوق بھی دینِ اسلام میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت کو عطا فرمائے ہیں۔ قدیم زمانہ سے لے کر دورِ حاضر تک
ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جو لوگ ان پر زیادتی کرتے ہیں۔ انہیں اللہ
پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے کیونکہ جس طرح حقوق العباد میں دیگر لوگوں کے
حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح انہیں حقوق العباد میں نوکروں اور ملازموں کے حقوق
بھی بیان ہوئے ہیں۔جن میں کچھ پیشِ خدمت ہیں۔
غلطی
ہو جانے پر معاف کرنے کا حق:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما
کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور عرض
کیا اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہم خادم کو کتنی بار معاف
کریں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سن کر خاموش رہے، پھر اس نے اپنی بات
دھرائی، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر خاموش رہے، تیسری بار جب اس نے اپنی
بات دھرائی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ ہر دن میں ستر بار
اسے معاف کرو۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر: 5164)
دیکھا
آپ نے حضور صلی اللہ علیہ سلم نے ستر 70 بار انھیں دن میں معاف کرنے کا حکم ارشاد
فرمایا، اور ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اگر کسی
نوکر یا ملازم سے کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کریں، موقع محل کی مناسبت
سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے۔لیکن اس کو
ہدفِ تنقید بنالینا، بھری بھری سنانا، ذلیل کرنا، معمولی سی غلطی پر ان کو سزا
دینا اور ان پر ہاتھ اٹھانا سخت نا پسندیدہ عمل ہے۔
حسنِ
سلوک کرنے کا حق:
ہمارے
پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے۔ اس
کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس
سال تک سفر و حضر میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام
میں نے کیا، اس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے
یہ کام کیوں کیا؟اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے یہ نہیں فرمایا کی تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟(ماہنامہ فیضانِ
مدینہ مارچ 2019، مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ بخاری جلد 2 صفحہ 243،حدیث: 2786)
سبحان اللہ کیا شان ہے پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کہ یہ تک نہیں فرماتے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ہمیں بھی سنت
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنانا چاہئے۔ کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اور ہماری نجات کا سبب ہے، ہمیں
بھی اپنے نوکروں اور ملازمین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور ان سے ان کی
طاقت کے مطابق ہی کام لینا چاہیے، اور یہی ان کا حق ہے۔
وظیفہ
کی ادائیگی کا حق:
ملازمین کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا
پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے
بہانوں سے اس میں کمی، کٹوتی، بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا
کام ہے، حدیثِ قدسی میں ہے۔کہ اللہ پاک فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے
دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک وہ شخص ہے، جو کسی
مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے کام لے اور اسے اجرت نہ دے (ماہنامہ فیضانِ مدینہ
مارچ 2019 مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ مسند احمد، جلد کی، صفحہ 278 حدیث نمبر:
8700)
لہذا
ہمیں ان نوکروں اور ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ اور انہیں ان کا حق
دینا چاہیے کیونکہ مولا اپنے حق تو معاف کرسکتا ہے۔ مگر لوگوں کے حقوق کو جب تک
نہیں معاف کرے گا جب تک جس کا حق مارا ہے وہ خود معاف نہ کردے۔
اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے اور انہیں
دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
عبد
المنان عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
خطا سے در گزر کرنا:
حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مار رہا ہو اور وہ اللہ
تعالیٰ کا واسطہ دے تو اس سے اپنے ہاتھ اٹھا لو۔ (صراط الجنان بحوالہ ترمذی، کتاب
البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الخادم، 3/382،
الحدیث: 1957)
عیب کی پردہ پوشی کرنا:
عَنْ أَن هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَسْتُرُ عَبْدٌ عَبْدَا فِي الدُّنْيَا
إِلَّا سَتَرَهُ اللہ يَوْمَ القيامة ترجمہ: حضرت سیدنا ابوہریر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گا اللہ عزوجل بروز قیامت اس کی پردہ
پوشی فرمائے گا۔
مدد کرنا اور خیال رکھنا: