مالک کے اپنے غلام ( ملازم ) پر بہت سے حقوق ہیں۔ اسلام ایک ایسا پیارا مذہب ہے جس نے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ اسی طرح غلام کے بھی کچھ حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ غلام کے لیے اس کا کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)

2۔ جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھی طرح کرے تو اسے دگنا ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/ 162 )

3۔ جو آقا اپنے غلام کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر

یہ کہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ المناجیح، 5/163)

الله پاک ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس طرح شریعت مطہرہ نے ہماری ہر قدم پر راہنمائی فرمائی ہے اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔

ماتحت کا خیال رکھیے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلام کیلئے اس کا کھانا، کپڑا ہے، اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)

ماتحت کو کھانا کھلانا: جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ بھی کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)

تہمت لگانے سے بچیں: جو آقا اپنے غلام کو تہمت لگائے،وہ اس سےبری ہو تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ کہ واقعی وہ وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ المناجیح، 5/163)

ماتحت کو مارنا: جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے نہیں کیا یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/164)

غلام کو مارنے سے ڈرئیے: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود! سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)

اللہ پاک ہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنے والا بنائے۔ آمین


اسلام کا یہ حُسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔

نوکروملازم کے حقوق:

1۔ بروقت وظیفہ کی ادائیگی: ماتحتوں کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی بددیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا) ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت پوری نہ دے۔ (مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث: 8700 ملتقطاً)

2۔ شفقت و مہربانی: ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)

3۔ نرمی کرنا: ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کیا جائے۔ موقع محل کی مناسبت سے درست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے لیکن ان کو ہدفِ تنقید بنالینا، کھری کھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک نے نبی پاک ﷺ سے عرض کیا: اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز 70 بار۔ (ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164)

4۔ ہميشہ حسنِ سلوک کرنا: ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحب منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اپنے تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حُسن سلوک کیا جائے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے سے خیر خیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسب استطاعت مدد کی جائے۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ (ابوداود، 4/ 439، حدیث: 5163)

5۔ خادم پر مال خرچ کرنا: خادم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں انفاق کرو۔ تو ایک شخص نے حضور اکرمﷺ سے کہا میرے پاس ایک دینار ہے میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا:اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، اس کے بعد اپنی بصیرت سے انفاق کی ترتیب وترجیح طے کرلو۔ (الاحسان، 5/141، حدیث:3326)

اللہ پاک ہمیں ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہماری شریعت مطہرہ نے جہاں ہمیں والدین و ہمسائیوں وغیرہ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم دیا ہے وہیں ہماری ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی رہنمائی فرمائی ہے۔

احادیث کی روشنی میں ملازمین کے حقوق:

1۔ حسن سلوک سے پیش آیا جائے: آقا ﷺ نے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور برے سلوک سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ ( ابو داود، 4/ 439، حدیث:5163)

2۔ وقت پر اجرت: مزدور کی مزدوری وقت پر ادا کرنا اس کے حقوق میں سے ہے، اس کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔ (ابن ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)

3۔ طاقت کے مطابق بوجھ ڈالے: مزدور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے مگر اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اتنا ہی کام لینا چاہیے جتنا کام کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو۔

4۔ خطاؤں سے درگزر: مالک کو چاہیے کہ وہ غلام کی غلطیاں معاف کر دے اور پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے سمجھائے اور یہ سوچے کہ یہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، نقل کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے آقا ﷺ سے عرض کیا کہ اپنے غلام کی غلطیاں کس حد تک معاف کر دینی چاہئیں؟ اس نے دوبارہ پوچھا:حضور خاموش رہے پھر تیسری بار اس نے پوچھا تو ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164) لہٰذا اگر نوکر سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے اور سزا نہیں دینی چاہیے، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے اور عاجزی کرنے سے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 6588)

5۔ ضروریات کا خیال: اس کی تمام ذاتی ضروریات کا لحاظ رکھا جائے اس کی مدد کرنے میں کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔

اللہ پاک ہمیں تمام حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین


اللہ پاک کی بارگاہ میں حقوق کے اعتبار سے سب انسان برابر ہیں اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ خادم،آقا،ملازم،مالک یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔

حقوق:

1۔ اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت اداکرنی چاہیئے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی کرلیتے ہیں ایسانہیں کرنا چاہیئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دے دو۔ (ابن ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)

2۔ عفو و درگزر سے کام لینا: دنیا میں ہر انسان بتقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے، گھریلو ملازم، خادم کا چونکہ دن رات کا بیشتر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف ہے اور حتى الامکان آرام پہنچانے میں مصروف عمل رہتے ہیں ایسے میں اگر ملازم سے کوئی غلطی ہوجائے تو تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر سے کام لینا چاہیئے اگر اسے کوئی پریشانی ہو تو اسے دور کرنا چاہیئے۔ حضرت ابی سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی اپنے خادم کو مارے اور پھر اللہ کو یاد کرے اس کو چاہئے فوراً اپنا ہاتھ اٹھالے۔ (مراۃ المناجیح، 5/167)

3۔ سختی کرنے کی ممانعت: ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدو کوب کرنے، یہاں تک کہ جلا دینے تک کے واقعات سامنے آتے ہیں، ان مظلوم ملازمین پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم تشدد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کراماً کاتبین لکھ رہے ہوتے ہوتے ہیں۔ بروز قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامہ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا اور سزا اعمال سے مربوط ہے۔ منقول ہے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئے اس نے دوبارہ پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ ( ابو داود، 4/439، حدیث:5164)

4۔ ہمیشہ حسن سلوک کرنا: ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے، کسی بڑے منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز سے پیش آیا جاتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حسن سلوک کیا جائے ان کے ضروریات کا خیال رکھا جائے، آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی ہے اور بد خلقی سے پیش آنا بدبختی ہے۔(ابو داود، 4/ 439، حدیث:5163)

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو ملازمین، خادمین اور دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کے جملہ حقوق کو احسن طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں رحم کرنے اور درگزر کرنے اور معاف کرنے کی صفت پیدا فرمائے آمین۔


اسلام کا ہی یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ان کے ماتحتوں اور مملوکوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤکرنے کی تعلیم دیتا ہے اسلام ہی یہ درس دیتا ہے کسی کا ماتحت ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ انسان ہونے کی حثیت سے سب برابر ہیں۔ احادیث مبارکہ کی رو سے نوکر و ملازمین کے حقوق ملاحظہ فرمائیں۔

ملازم کے حقوق:

نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، حضور ﷺ اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک فرماتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضور ﷺ کی سفر و حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن آپ نے مجھے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا فلاں کیوں نہ کیا! (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)

نرمی کرنا: اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنا موقع محل کے مطابق درست طریقے سے تنبیہ کر نا مالک کا حق ہے۔ منقول ہے ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئیں اس نے دوبارہ پوچھا آپ خاموش رہے، تیسری مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164)

اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم سے طے شدہ اجرت بروقت ادا کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشرتی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں یعنی ان سے مطالبہ کروں گا ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے اس سے پورا کام لے اور اجرت نہ دے۔(مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث: 8700 ملتقطاً)

غلام کو مارنے سے بچنا: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی اپنے خادم کو مارے اور پھر اللہ کو یاد کرے اس کو چاہیے فورا ًاپنا ہاتھ اٹھا لے یعنی پھر نہ مارے۔ (مراۃ المناجیح، 5/167)

اپنے کھانے میں سے خادم کو دینا: جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے اس نے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی تو مالک کو چاہیے کہ اس خادم کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں بٹھا لے اور وہ بھی کھانا کھائے اگر وہ کھانا تھوڑا ہو تو مالک کو چاہیے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)

اللہ کریم ہمیں اپنے گھریلو ملازمین و خادمین اور دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


ہر نگران سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، جیسا کہ والدین سے اولاد کے بارے میں، استاد سے شاگردوں کے بارے میں اسی طرح ذمہ دار سے اس کے ماتحت کے بارے میں اور مالکوں سے ان کے ملازموں کے بارے میں سوال ہوگا۔ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث مبارکہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ المناجیح، 5/163)

جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے جب مسجد اور قبرستان میں امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/162)

حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ آج کے پاس ایک خزانچی آیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا بولا نہیں فرمایا جاؤ انہیں دے دو کیونکہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے یہی گناہ بہت ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان کے لیے کافی گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)

جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا نہیں یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/164)

حضرت ابن مسعود انصاری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے میں نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ یہ آزاد ہے الله کی راہ میں تب رسول الله ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)

بدترین لوگوں میں سے ایک اپنے غلام کو کوڑے مارنے اور اس پر ظلم کرنے والا اور ضرورت سے زیادہ کام ڈالنے والا ہے۔ الله پاک ہمیں احسن طریقے سے اپنے حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جیسے ہر انسان کے حقوق ہیں والدین کے حقوق،بیوی اور شوہر کے حقوق ہیں، بھائی کے حقوق،ہمسایوں کے حقوق، اسی طرح نوکر اور ملازم کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ نوکر اور ملازم کے حقوق درج ذیل ہیں:

1️۔ نوکر کو تنگ نہیں کرنا چاہئے اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

2️۔ حضور سید عالمﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیا سلوک فرماتے تھے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیے، حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)

3️۔ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے غلام نے کہا: میں اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں آپ نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ غلام نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کی پناہ مانگتا ہوں۔ تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ پھر انہوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)

4️۔ اگر نوکر بیمار ہو تو اس سے اتنا کام نہ کروایا جائے اگر اس کی کوئی بات بُری لگی ہو تو اس کو اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف کر دے۔


اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ ملازمین کے معاملے میں ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا میں ملازم کی دو اقسام رائج ہیں: خصوصی ملازم اور مشترکہ ملازم۔

1۔ خصوصی ملازم: ایسے ملازم کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا ادارے کا مخصوص اوقات کے لیے ملازم ہو۔ جیسے کمپنی میں کوئی شخص صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کام کرے۔ یہ شخص اس مخصوص وقت میں کسی اور کا ملازم نہیں ہوسکتا۔ خواہ وہ مستقل ملازم ہو یا عارضی بنیاد پر کام کر رہا ہو۔

2۔ مشترکہ ملازم: وہ ملازم جس کا معاملہ اوقات کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ عمل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ وہ کسی شخص کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ مختلف لوگوں یا اداروں کا کام کرتا ہے اور اپنے کام کے بقدر اجرت وصول کرتاہے، جیسے دھوبی، درزی لیگل فرمز جو مختلف اداروں کو قانونی مشاورت فراہم کرتی ہیں۔

حقوق:

1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گاؤں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔

2۔ انسان كو چاہيے كہ معاشرتى امور ميں اپنى ذات اور خادم كےمابين عدل و مساوات كا رويہ اختيار كرے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے جبکہ اس نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو مالک کو چاہئے کہ اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ بھی کھائے۔ اگر وہ کھانا تھوڑا ہو (جو دونوں کے لئے کافی نہ ہوسکے) تو مالک کو چاہئے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)حضور پاك ﷺ چاہتے تھے كہ صرف كھانے پینے ہى ميں نہيں، بلكہ يہ مساوات ملنے جلنے اور آداب ِ معاشرت ميں بھى رہے، اس لئے انہوں نے اس طرح کے دعوتِ وليمہ كو نا پسند فرمايا جہاں صرف اور صرف اميروں كو مدعو كيا جائے اور كھلايا پلايا جائے۔


اللہ پاک نے اس دنیا کا نظام ہی اس طرح بنایا ہے کہ ایک شخص متبوع head ہوتا ہے اور دوسرا اس کے تابع، ایک شخص مالدار ہوتا ہے اور دوسرا فقیر، ہر شخص ایک دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اگر دنیا میں صرف صاحبِ ثروت ہوتے تو ان کی خدمت کون کرتا اگر دنیا میں صرف غریب ہوتے تو ان کی معاشی ضرویات کیسے پوری ہوتیں، اس لیے مالکان اور دوسرے ملازم کہلاتے ہیں مالک اور ملازم کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کی تاریخ قدیم ہوتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نےبھی حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آٹھ یا دس سال تک ملازمت کی، جب یہ رشتہ اس قدر اہم ہے اور جانبین کے ہاں اس کی حقیقت مسلم ہے تو ضروری ہے کہ یہ تعلق جتنا خوشگوار ہوگا اتنا ہی فریقین کی حاجات کی تکمیل ہوگی۔

حقوق:

1۔ عزت وتکریم کا معاملہ کرنا: کمپنی اور ادارے کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کرے کسی بھی قسم کی بے عزتی سے گریز کرے، عزت نفس کو مجروح نہ کرے کیونکہ انسان ایک قابل احترام ذات ہے۔

2۔ کام کے لیے مطلوب ماحول فراہم کرنا: ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس کے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو، مثلاً کمروں کا ماحول ہوا دار ہو، روشنی کا معقول انتظام ہو، تحقیق و سرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہو وغیرہ۔ اس سے کارگردگی کافی حد تک بڑھ جائے گی۔

اللہ کریم ہمیں احسن انداز میں ہر ایک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین


ہر انسان کے ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ساتھ زندگی گزارنے والے ہمارے نوکر و ملازم کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں۔

حقوق:

1۔ طاقت و اہلیت کے مطابق کام لینا: مالک کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ملازم سے اس کی طاقت و اہلیت اور لیاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ملازم پر ظلم کے زمرے میں آجائے، حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے غلام کے بارے میں فرمایا: تم ان کو ایسے کام کرنے کا حکم نہ دو جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)آزاد آدمی تو اس بات کا بطریق اولیٰ مستحق ہے۔

2۔ عزت وتکریم کا معاملہ کرنا: اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کریں اس کی عزت کو مجروح نہ کریں، کیونکہ انسان ایک قابل احترام ذات ہے۔

3۔ کام کے دورانیہ کی وضاحت: ملازم کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اوقات کار کی وضاحت کردینا بھی ملازم کا حق ہے اور اس کے کئی فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملازم سوچ سمجھ کر یہ معاہدہ قبول کرے گا اور دلجمعی اور اطمینان سے کام کرے گا۔

4۔ کام کے لیے مطلوب فراہم کرنا: ملازم کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس کے کام کی نوعیت کے مطابق ہو۔

5۔ عمدہ کام پر تحسین کرنا: ملازمین کے عمدہ کام کرنے یا غیر معمولی کام کرنے پر ان کی تحسین کی جانی چاہئے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دیگر ملازمین کے اندر کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہو۔