نوکر و ملازم
کے حقوق از بنت شہباز، فیضان عائشہ صدیقہ مظفر پور سیالکوٹ
اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے
اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو
سب سے زیادہ متقی ہے۔ خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ ملازمین کے
معاملے میں ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا میں ملازم کی دو اقسام رائج
ہیں: خصوصی ملازم اور مشترکہ ملازم۔
1۔ خصوصی ملازم:
ایسے ملازم کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا ادارے کا مخصوص اوقات کے لیے ملازم ہو۔ جیسے
کمپنی میں کوئی شخص صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کام کرے۔ یہ شخص اس مخصوص وقت میں
کسی اور کا ملازم نہیں ہوسکتا۔ خواہ وہ مستقل ملازم ہو یا عارضی بنیاد پر کام کر
رہا ہو۔
2۔ مشترکہ ملازم: وہ ملازم جس
کا معاملہ اوقات کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ عمل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ وہ کسی شخص
کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ مختلف لوگوں یا اداروں کا کام کرتا ہے اور اپنے کام کے
بقدر اجرت وصول کرتاہے، جیسے دھوبی، درزی لیگل فرمز جو مختلف اداروں کو قانونی
مشاورت فراہم کرتی ہیں۔
حقوق:
1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ
تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس
پاس گاؤں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس
کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔
2۔ انسان كو چاہيے كہ معاشرتى امور ميں اپنى ذات
اور خادم كےمابين عدل و مساوات كا رويہ اختيار كرے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کا
خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے جبکہ اس نے اس کے پکانے
میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو مالک کو چاہئے کہ اس خادم کو بھی کھانے
میں اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ بھی کھائے۔ اگر وہ کھانا تھوڑا ہو (جو دونوں کے لئے
کافی نہ ہوسکے) تو مالک کو چاہئے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے
دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)حضور
پاك ﷺ چاہتے تھے كہ صرف كھانے پینے ہى ميں نہيں، بلكہ يہ مساوات ملنے جلنے اور
آداب ِ معاشرت ميں بھى رہے، اس لئے انہوں نے اس طرح کے دعوتِ وليمہ كو نا پسند
فرمايا جہاں صرف اور صرف اميروں كو مدعو كيا جائے اور كھلايا پلايا جائے۔