اسلام کا ہی یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ان
کے ماتحتوں اور مملوکوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤکرنے کی تعلیم دیتا ہے اسلام ہی یہ
درس دیتا ہے کسی کا ماتحت ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ انسان ہونے کی حثیت سے سب
برابر ہیں۔ احادیث مبارکہ کی رو سے نوکر و ملازمین کے حقوق ملاحظہ فرمائیں۔
ملازم کے حقوق:
نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت
ہے، حضور ﷺ اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک فرماتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: میں حضور ﷺ کی سفر و حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن آپ نے مجھے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے
فلاں کام کیوں کیا فلاں کیوں نہ کیا! (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
نرمی کرنا: اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنا موقع
محل کے مطابق درست طریقے سے تنبیہ کر نا مالک کا حق ہے۔ منقول ہے ایک شخص نے حضور ﷺ
سے عرض کی کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئیں اس نے دوبارہ پوچھا
آپ خاموش رہے، تیسری مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابو داود، 4/
439، حدیث: 5164)
اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم سے طے شدہ
اجرت بروقت ادا کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشرتی پریشانیوں کا باعث بن
سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے
دن میں خصم ہوں یعنی ان سے مطالبہ کروں گا ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو
اجرت پر رکھے اس سے پورا کام لے اور اجرت نہ دے۔(مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث:
8700 ملتقطاً)
غلام کو مارنے سے
بچنا: حضرت
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی اپنے خادم کو
مارے اور پھر اللہ کو یاد کرے اس کو چاہیے فورا ًاپنا ہاتھ اٹھا لے یعنی پھر نہ
مارے۔ (مراۃ المناجیح، 5/167)
اپنے کھانے میں سے
خادم کو دینا: جب
تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے اس نے
پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی تو مالک کو چاہیے کہ اس خادم کو بھی
اپنے ساتھ کھانے میں بٹھا لے اور وہ بھی کھانا کھائے اگر وہ کھانا تھوڑا ہو تو
مالک کو چاہیے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)
اللہ کریم ہمیں اپنے گھریلو ملازمین و خادمین اور
دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین