اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح تمام مخلوقات کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائے

(1)خادم بھائی ہے:

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کر دیا ہے لہذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم)ہو وہ اس اپنے کھانے میں سے کھلائے اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے (صحیح البخاری)

(2)ہر دن ستر بار معاف کیا کرو:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم خادم کو دن میں کتنی بار معاف کریں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش رہے پھر اس شخص نے اسی سوال کو دہرایا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر خاموش رہے جب اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:خادم کو ہر دن ستر بار معاف کیا کرو (ترمذی شریف)

(3)خادم کو اپنے کھانے میں شریک کیا کرو:

اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنے باورچی یا خادم کو بھی کھانے میں شریک کر لیا کرے کیونکہ اس نے اس کھانے کی تیاری میں محنت کی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب تم میں سے کسی کا خادم اس کیلئے کھانا بنائے پھر اس کے پاس لے کر آئے اس حال میں کہ وہ اس (کے پکانے)کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو مالک کو چاہیے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر کھانا تھوڑا اور نا کافی ہو تو کم از کم ایک دو لقمے ہی اس کو دیدے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر:1663)

(4)حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خادم کو مارا: حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے خادم کو مار رہا تھا میں نے سنا کہ کوئی میرے پیچھے سے کہہ رہا تھا جان لے اے ابو مسعود! جان لے اے ابو مسعود! میں نے مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے پاس حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تھے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک اللہ پاک تجھ پر زیادہ قادر ہے اس سے کہ تو غلام پر قادر ہے۔ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے بعد میں نے کسی لونڈی اور خادم کو نہیں مارا۔ (ترمذی شریف، جلد اول، 1948)

شریعت میں خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا اگر چہ واجب اور ضروری نہیں ہے مگر ایسا کرنا افضل اور بہتر ہے کیونکہ اس عمل سے جہاں ایک طرف اس شخص کو اپنے خادم کے ساتھ حسن سلوک اور صدقہ کا اجر حاصل ہو گا وہیں دوسری جانب خادم کے دل میں بھی اس شخص کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہو گا جو سیٹھ کیلئے مزید خدمت اور فرمانبرداری کا سبب بنے گا لہذا خادم کو زیادہ سے زیادہ عزت سے نوازنا چاہیے اور حسن سلوک کرنا چاہیے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں خادموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین)


اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابر نہیں دیا، کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہےاگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے، تو صبر سے کام لینا چاہیے اور بَد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلا دے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلام تمہارے بھائی ہیں، اﷲ عزوجل نے انہیں تمہارے دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلاؤ، جو تم خود کھاتے ہو، وہی پہناؤ، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔

اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کومار رہا تھا میں نے سنا کہ کوئی میرے پیچھے سے کہہ رہا تھا جان لے اے ابو مسعود! جان لے اے ابومسعود!تو میں نے مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے پاس رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک اللہ عزوجل تجھ پر زیادہ قادر ہے اس سے کہ تو اس غلام پر ہے۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بعد میں کسی لونڈی اور غلام کو نہیں مارا۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمیں ملازم کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس کو ایسا کام نہ دینا چاہیے جس کی وہ صلاحیت نہ رکھتا ہو۔


الحمد للہ دین اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر ہر لحاظ سے انسان کے معاشرتی و اخلاقی تربیت کی ہے اور قرآن کریم و احادیث طیبہ میں کئی مقامات پر اسکی مثالیں ملتی ہیں چاہے بندہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ آقا ہو یا غلام امیر ہو یا فقیر مالک ہو یا نوکر استاد ہو یا شاگرد(وعلی ھذا القیاس)لیکن آج کل معاشرے میں جس ذلت و رسوائی کا سامنا ایک ملازم و نوکر کو کرنا پڑتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق بیان فرماائے ہیں وہیں نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائیں ہیں۔ چند ایک حقوق ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

فرمان نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ فقرا کو پہچانو، ان سے بھلائی کرو انکے کے پاس دولت ہے پوچھا گیا کونسی دولت ہے؟ فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا اللہ پاک ان سے فرمائے گا جس نے تمہیں کھلایا پلایا ہو یا کپڑا پہنایا ہو اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جاؤ۔ (مکاشفتہ القلوب)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایک غلام کو مار رہے تھا آواز آئی کہ اے ابو مسعود انصاری ! آپ اس طرف پھرے، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اور فرما رہے ہیں کہ جتنی قدرت تو اس غلام پر رکھتا ہے اس سے زیادہ خدائے تعالیٰ تجھ پر رکھتا ہے۔ (کیمیائے سعادت صفحہ نمبر 320)

لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ انکو روٹی سالن اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور یہ بھی خیال کرے کہ یہ میری طرح بندے ہے اور اگر ان سے کوئی قصور سر زد ہوجائے تو آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے انکا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔ (کیمیائے سعادت، صفحہ نمبر 320)

اللہ پاک ہمیں اپنے متعلقین اور ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

دنیا میں ایسا کوئی بھی طبقہ نہیں جس کے متعلق ہمارے پیارے دین نے معتدل رہنمائی نہ دی ہو۔ نوکروں، ملازموں، اور مزدوروں کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات میں واضح رہنمائی ہے۔ جس طرح اسلام نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو حقوق دیئے ہیں اسی طرح نوکروں اور ملازمین کو بھی حقوق دیئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

ساتھ حُسنِ سلوک کرنا:نوکروں اور ملازموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے بات کرنا اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا یہ انکا حق اور ہماری اخلاقی ذمےداری ہے۔

طاقت سے زیادہ کام نہ کروانا:اُن سے اتنا ہی کام کروایا جائے جتنی اُن میں طاقت ہو اگر اسکے برعکس کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے انہیں اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سےزیادہ ہو، اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو۔ (بخاری، 1/23، حدیث:30، اللامع الصبیح شرح الجامع الصحیح،1/210، تحت الحدیث: 30)

وقت پر اجرت دینا:انہیں وقت پر اُن کی اجرت یا تنخواہ دینا اخلاقی اور شرعی دونوں طرح سے بہت ضروری ہے اس سے انکا دل بھی خوش ہوگا اور کوئی فساد بھی برپا نہ ہوگا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: مزدور کا پسينہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔(ابن ماجہ،3/162، حدیث:2443)

انہیں تحفظ فراہم کرنا:اسلام ملازموں کو جانی و مالی تحفظ دینے میں بھی سب سے آگے ہے۔اگر ہم کسی شخص کو ملازمت پر رکھیں خواہ وہ گھر کے کام کاج کے لیے رکھیں یا کاروبار میں مدد کے لیے تو اسے ہر طرح سے تحفظ دینا ہماری ذمےداری ہے۔ نوکروں اور ملازمین کا یہ بھی حق ہے کہ انہیں جن کاموں کی اجرت دی جاتی ہو اُن سے صرف وہی کام کروائے جائیں۔

انکا ادب و احترام کرنا:ملازمین کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے ان سے نرمی سے بات کرنی چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی یہ تلقین کرنے چاہیے کے وہ بھی ایسا ہی کریں اگر اُنسے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو پیار سے اور اکیلے میں سمجھایا جائے نہ کے سب سے سامنے جھاڑ دیا جائے۔اگر وہ زیادہ عمر کے ہوں تو انکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے۔

انہیں بہترین اجرت دینا:دور حاضر میں ملازمین کو اتنی اجرت دے جاتی ہے کے اس سے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوجاتا ہےاور اکثر ملازمین معاشی اعتبار سے کمزور سے کمزور ترین ہوجاتے ہیں لہٰذا انہیں اتنی اجرت دی جائے جیسے انکا گزر بسر اچھا ہوسکے۔

اُنکی جسمانی صحت کا خیال رکھا جائے:اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔لہٰذا ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

اچھے کام پر حوصلہ افزائی کرنا:اگر نوکر اپنے کام کو بخوبی مکمل کریں یہ کوئی ایسا کام کرے جس سے ملک کو فائدہ ہو تو مالک کو چاہیے کہ وہ اسکی تعریف کرے اسکی حوصلا افزائی کرے اور ممکن ہو تو اسے تحفہ بھی دے۔

انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا:انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا بھی اُنکی حقوق میں شامل ہے مثلا جب نماز کا وقت ہو تو اُنھیں نماز پڑھنے کا وقت دینا لازم ہے اور بہتر جگہ فراہم کی جائے۔

اسلام نے نوکروں اور ملازمین کے حقوق کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔ اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ انکے حقوق میں ذرا برابر بھی کوتاہی نا برتی جائے۔ ابھی جو معاشی حالات چل رہے ہیں اس میں ہمیں چاہیے کہ ایسے طبقے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے اور اُنکی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اللہ کریم ہم سب کو نوکر و ملازمین کے حقوق مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

اللہ کے نزدیک وہ افضل ہے کہ جو متقی ہو، اللہ نے مال ودولت، عقل و فہم، جاہ و منصب میں فرق اس لئے رکھا کہ مالدار غریب سے، عہدیدار ماتحت سے، عقل و فہم میں بلند رتبہ شخص اپنے سے کم عقل و فہم والے سے کام لے سکے، ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ملازموں کا بھی ہے۔ آئیے ان کے چند حقوق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

حسن سلوک: نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے، ہمیں بھی ملازموں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔

اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں بلاوجہ کٹوتی کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

عفوودرگزر سے کام لینا:دنیا میں ہر انسان بتقضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے، ملازم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، ملازم چونکہ ہمیں آرام پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہماری خدمت کرتا ہے تو بعض اوقات وہ ایسا کام کرتا ہے جو ہماری منشاء کے خلاف ہوتاہے، لیکن ہمیں پھر بھی ملازم کو معاف کردینا چاہیے اور اس سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

سختی کرنے کی ممانعت:ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر تشدد کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، یہ سلوک وہ لوگ کرتے ہیں کہ جن کے دل میں خوف خدا ختم ہوچکا ہوتا ہے، لوگ اپنے بچے کی غلطی تو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اپنے کمسن ملازموں کی ذرا سی غلطی پر آگ بگولہ ہو کر اس پر تشدد کرتے ہیں، ان ظالموں کو سوچنا چاہیے کہ کراما ً کاتبین ہماری ہر بات لکھ رہے ہیں اور ہمیں ان باتوں کا جواب اللہ کی بارگاہ میں دینا ہے تو سوچئے کہ ظلم کرنے کا حساب کس طرح دیں گے۔

ملازم پر مال خرچ کرنا:ملازم کی ضروریات کا خیال رکھنا ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجرو ثواب ہے، ملازم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں جیسے عید وغیرہ کے موقع پر ملازم اور اس کے اہل خانہ کے کپڑے بنوادینا، ملازم کے بچوں کی شادی ہو تو اس کے اخراجات اٹھانا وغیرہ۔

دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا:اسلام میں جو تعلیم کی اہمیت ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ہے، مالکان کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنے ملازم کی دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرے اور اسے معاشرے کا بہترین و باعزت شہری بننے میں اس کی مدد کرے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے ملازموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور ان پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

معاشرہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتا ہے کسی بھی کاروبار کی ترقی کا انحصار اس میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔ اگر مالک اپنے ملازمین کا خیال رکھے اور ملاز مین بھی اچھے طریقے سے کام سر انجام دیں تو کاروبار اور ملازمین دونوں ہی ترقی کے زینے طے کریں گے۔ یہاں پر ملازمین کے حقوق بیان کئے جارہے ہیں۔

ملازمین کو دیر تک بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بات کرنے پر ملازمت سے چھٹی کروائے کی دھمکی دی جاتی ہے، یہ اچھا رویہ نہیں، ہاں اگر کبھی کبھار کچھ تاخیر ہوتی ہے تو ملازم کو بھی اس میں تعاون کرنا چاھئے۔

ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اسکے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو۔ مثلاً: کمروں کا ہوادار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا تحقیق وریسرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہونا وغیرہ کمپنی یا ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا، ملازمین کی تنخواہیں ملازمین کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہر سال اس میں اضافے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن سے کام کر سکیں یہ بھی ملاز مین کا حق ہے۔

ملازمین سے مرضی کے مطابق کام لینے کا طریقہ: اگرملاز مین سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا چاہتے ہیں تو ان سے صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ والا راستہ اپنانے کے بجائے پیار و محبت، نرمی اور حوصلہ افزائی والا رویہ اپنائیے، آدمی جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے حوصلہ ہی آدمی کو آگے بڑھاتا ہے اور اسی حوصلہ کی بنیاد پر محنت اور لگن کے ساتھ ملاز مین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے، عقلمند مالک وہی ہے جو ملازمین کی حوصلہ افزائی کرتا رہے اور اپنا کام نکالتا رہے۔

الله پاک ہمیں اپنے ملاز مین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور شفقت بھرا نرم انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے اس دنیوی زندگی میں کسی کو مالدار بنایا تو کسی کو فقیر، کاروباری زندگی میں ایک کو نوکر و ملازم بنایا تو دوسرے کو سیٹھ و افسر، امیر ہو یا غریب ہر ایک اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں صرف مالدار ہوتے تو ان کی خدمت کون کرتا؟ اور اگر دنیا میں صرف غریب ہوتے تو ان کی معاشی ضروریات کیسے پوری ہوتیں؟ انسان کی معاشی اور کاروباری زندگی میں نوکر و ملازم اس کے لئے بہترین مددگار ہیں۔

ملازم (Employee) سے مراد ایسا شخص ہے جو حکومت، کسی تنظیم، کسی ادارے یا کسی شخص کیلئے اجرت پر کام کرتا ہو۔

ایک زمانے میں گھریلو مددگاروں کو نوکر کہا جاتا تھا، لیکن آج کل ان کو بھی ملازم ہی کہنا ادب کے لحاظ سے موزوں سمجھا جاتا ہے۔دینِ اسلام میں جس طرح ماں باپ، بہن بھائی، استاد و شاگرد اور پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں اسی طرح نوکر و ملازم کے بھی کئی حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے پانچ اہم حقوق درج ذیل ہیں، مالکان و سربراہان کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اپنے ملازمین سے ان کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے کام لیں۔

(1)طاقت و اہلیت کے مطابق کام لینا: کسی ادارے یا تنظیم کے سربراہان یا کمپنی مالکان کو اس بات کا خاص طورپر خیال رکھنا چاہئے کہ ملازم سے اس کی استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لیاجانے والا وہ کام ملازم پر ظلم کے زمرے میں آجائے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: انہیں (یعنی غلاموں، ملازموں اور مزدوروں کو) اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سے زیادہ ہو، اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو۔ (بخاری، 1/23،حدیث:30)

(2)عزت و تکریم کا معاملہ کرنا: مالداروں اور ادارے کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آئیں، نوکر و ملازم کی کسی بھی قسم کی بے عزتی کر کے اس کی دل آزاری کرنے سے گریز کریں۔ عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں کیونکہ انسان ایک قابلِ احترام ذات ہے۔ خود اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ﴾ ترجمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:70)

(3)عمدہ کام کرنے پر دلجوئی کرنا:ملازمین و نوکر اگر کسی کام کو عمدہ یا غیر معمولی طور پر احسن انداز میں سرانجام دیں تو ان کے اس کام کرنے پر ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہئے تا کہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دیگر ملازمین کو بڑھ چڑھ کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو جو یقیناً ادارے کے لئے نفع مند عمل ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کا طرز اپنانا بھی Productivity یعنی پیداوار بڑھانے کے لئے کافی حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

(4)کام کرنے کیلئے بہتر ماحول فراہم کرنا: جس جگہ نوکر یا ملازمین کام کرتے ہوں دورانِ ملازمت ان کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو ان کے کام اور محنت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متأثر نہ ہو، مثلاً: کمروں کا ہوا دار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا، تحقیق و ریسرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول وغیرہ وغیرہ، اس سے کارکردگی کافی حدتک بڑھ جائے گی۔

(5)تنخواہ کا معیار: کام آسان ہو یا مشکل ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں کام کرنے والے نوکر و ملازمین کا یہ حق ہے کہ ان کی تنخواہیں قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہر سال اس میں اضافے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن کے ساتھ کام کرسکیں۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے فرائض و منصب کے مطابق کام کرنے، حقوقُ العباد کا خیال رکھنے بالخصوص اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اسلام کا نظریہ حیات انتہائی خوبصورت وسیع جانچ اور اعلیٰ ہے کہ ہم اللہ عزوجل کےبندے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے ہیں اچھی اور پر مسرت زندگی بسر کر نی ہے خدا تعالٰی کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے میں ہمیں دین اسلام نے حقوق العباد پورے کرنے کی تلقین کی ہے جس کا ذکر قرآن کریم احادیث مبارکہ اور مختلف بزرگان دین کے اقوال سے ملتا ہے حقوق العباد میں۔ اہم ترین حقوق ملازم و تقریر کے حقوق ہیں جس طرح ہم پر والدین اساتذہ کرام اور ہمسایوں کے حقوق لازم ہیں اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی ہم پر ضروری ہیں ملازموں اور نوکروں کے حقوق میں ملازم کی اجرت وقت پر ادا کرنا۔ اور انکے ساتھ حسن سلوک برتنا اور نرمی کے ساتھ پیش آنا ملازمین کے بنیادی حقوق ہیں اجرت وقت پر ادا کرنا اسکو اسلئے بنیادی حق کہاگیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں اسکی تلقین فرمائی ہے حضور اکرم نبی کریم نے فرمایا مزدور کی مزدوری انکا پسینہ خشک ہونے سے پہلےدو اورکیونکہ مزدور وملازم کی بہت سی ضروریات مالک کی اجرت پر موقوف ہوتی ہیں اسے وقت پر اجرت ادانہ کی جائے تو اس پر مشکل حالات پیش آسکتے ہیں۔

اسی طرح ملازم کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی برتنا بھی انکا بنیادی حق ہے اگر مزدور و ملازم وغیرہ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر تشدد دوغیرہ برا بھلا کہنے کی بجائے اسے معاف کر دینا احسن عمل اور غلام و خادم کو معاف کرنے کے بارے میں بھی حدیث مبار کی میں ارشاد فرمایا گیا ہے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنے خادم کو کتنی بار معاف کروں تو آپ صلی اللہ علیہ کی خاموش ہو گئے تو اس آدمی نے دوبارہ اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خاموشی اختیار فرمانی اس آدمی نے تیسری مرتبہ پھر اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے ہر دن میں ستر مرتبہ معاف کرو۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو اپنے ہاتھ مبارک سے نہ مارا نہ ہی کسی غلام کو اور نہ ہی کسی عورت کو -(شمائل ترمذی ،ص 197)

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین 


اسلام نے غلام اور نوکر کے حقوق کے سلسلے میں انقلاب برپا کیا اور غلاموں کے لئے دور جہالت میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے تھے ان کے معنی بدل کر رکھ دیئے۔ ایک بنیادی تبدیلی پیدا کر دی۔ عربی میں غلام کے لیے لفظ” عبد“ بولا جاتا تھا۔ اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیلئے بھی عبد کا خوبصورت لفظ ا ستعمال کیا حضور علیہ السلام عبد بھی ہیں اور نائب بھی ۔

اسلام نے لونڈیوں ، خادماؤں کے حقوق بھی مرد نوکروں کی طرح متعین کیے برابری کی ان مثالوں میں عورت کی حالت تو یہ بدترین تھی اسلام نے غلاموں کے حقوق مقرر کر کے نظری عملی ہر طرح کی تفریق مٹا دی ، مکمل آزادی کے ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انکے حقوق کورکھا۔ اسلام میں غلاموں کو آزاد کرانے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے حقوق بھی مقرر فرمائے ۔ حضور کی سیرت میں زندگی کے تمام معاملات کی راہنمائی موجود ہے۔آیئے دیکھتے ہیں اسلام غلاموں، نوکروں کے کتنے اعلیٰ حقوق کا حامی ہے۔

مالکوں ہی جیسے کپڑے اور کھانے کی فراہمی: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی آقا کریم کی تعلیمات پر عمل کرتے زندگی گزاری ایک دن آپ نے دیکھا کہ غلام اپنے آقاؤں کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے تو سخت خفا ہوئے اور غلاموں کو ان کے آقاؤں کے ساتھ کھانا کھلوایا حضرت عمر جب دیکھتے کہ غلام پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ لادا گیا، تو اسے کم کر دیتے تھے۔ حضور علیہ السلام نے غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا: وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کا ماتحت اُسکا بھائی ہو تو جو وہ خود کھائے اسی میں سے اسے کھلائے اور جو خود پہنے اسی میں سے اسے بھی پہنائے اور اسکی بساط سے زیادہ اس پر بوجھ نہ ڈالے اگر ایسا کرے تو خود بھی اسکی مدد کرے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر نے رضی اللہُ عنہ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا ۔ پھر ز مین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا اس تنکے کے برابر بھی اجر نہیں ملے گا کیونکہ میں نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا ہے : جس نے اپنے غلام کو ایک چانٹا یعنی رسید کیا اس کا کفارہ یہی ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے۔ قرآن میں ا یک بھی جملہ غلام بنانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ غلاموں کی آزادی کےخواہاں ہیں۔

ملازموں کے ساتھ احسان اور عدل و انصاف : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ 70 مرتبہ سے زیادہ اپنے ملازم کو معاف کرنے کا حکم ہے ۔

تعلیم و تریبت: ملازمین کا ایک حق ان کی اچھی تعلیم بھی ہے، دین و دنیا کے معاملے میں صلاحیت کے مطابق آزاد شخص سے آگے بڑھنے کی اجازت ہے امامت کی بھی اجازت ہے۔

ملازمین ما تحت ہونے کی بنا پر چھوٹے ہونے کے زمرے میں آتے ہیں ان کی دیکھ بھال کرنا مالک کی ذمہ داری ہے وہ مجبور اور مسکین ہوتے ہیں انہیں پڑھانا لکھانا ہمارا حق ہے کہ انہیں دین و دنیا کی تعلیم دے کر قابل انسان بنایا جائے۔

پیارے اسلامی بھائیو! نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّماور صحابہ کرام کی زندگی کی روشنی میں دیکھا جائے تو غلام بھی عام انسان کے برابر ہیں۔ کیا ہم آج کے دور کے انسان غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو سر خرو دنیا و آخرت میں اور اگر جواب نہیں میں ہے تو آیئے عہد کریں کہ اپنے خادمین ، نوکر ملازم وغیرہ کے ساتھ عدل و احسان سے پیش آئیں اور اللہ و رسول کی خوشنودی پائیں۔ 


مالک ذوالجلال نے انسانوں میں بعض لوگوں کو بعض پر ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ- (پ 25، الزخرف: 32) ترجمہ: اور ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندی کیا، تاکہ ان میں ایک دوسرے کو اپنا خادم بنائے۔ چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جہاں اس نے ماں باپ، پڑوسیوں، اساتذہ و طالبات کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح ملازم کے حقوق بھی بیان کیے ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: اِنَّ اِخْوَانَکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَھُمُ اللہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ یعنی ملازمین تمہارے بھائی ہے جنہیں اللہ نے تمہارا ماتحت کردیا ہے۔ (بخاری، 2/158، حدیث: 2545)

حقوقِ ملازم:

1۔ وسعت کے مطابق کام لینا:کسی بھی قسم کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملازم یا نوکر سے اس کی اہلیت و طاقت کے مطابق کام لے۔

2۔ عزت و احترام سے پیش آنا:ملازم کا یہ حق ہے کہ مالک اسے عزت و احترام سے پکارے اس کو عزت دے اور ذرا ذرا سی کوتاہیوں میں اکیلے یا سب ملازمین کے سامنے بےعزتی نہ کرے۔

3۔ ادائیگی تنخواہ میں جلدی: نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اُعْطُوا الْاَجِیرَ اَجْرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَجُفَّ عَرْقُہٗ یعنی مزدور و ملازم کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو۔ (ابنِ ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)

آج کے اس پُرفتن دور میں یہ روایت چل پڑی ہے کہ مزدور یا ملازم کی اجرت بہت رلانے کی بعد دی جاتی ہے، آخرت میں اس کا انجام بہت درد ناک ہوگا۔

4۔ حسن اخلاق سے پیش آنا: ملازم کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا مالک کا فرض ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اپنے گھر میں کام کرنے والے نوکر یا اپنے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین سے عمدہ اخلاق سے پیش آئے تاکہ اس سے دونوں کے درمیان ایک خوش گوار تعلق پیدا ہو۔ حدیث شریف میں ہے: بداخلاقی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (ترمذی، 3/380، حدیث: 1953)

5۔ مساوات کا خیال رکھنا: مالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملازموں کے ساتھ مساوات و برابری کا سلوک رکھے کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملازم کو برتری و کسی کو کمتری کا احساس نہ دلائے۔

6۔ وعدہ کی پاسداری: مالک کو چاہیے کہ وہ اپنے ملازمین سے کیے گئے کسی بھی قسم کے جائز وعدے کی پاسداری کرے۔


جان لیجئے کہ انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے ساتھ، چونکہ انسان کا ہم جنس لوگوں کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے لہذا اس پر مل جل کر رہنے کے آداب سیکھنا ضروری ہے، ذیل میں نوکر و ملازم کے چند حقوق پیش خدمت ہیں پڑھ کر عمل کی نیت فرمالیجئے۔

حقوق:

1۔ نوکروملازم سے ایسے کام نہ کروائے جائیں جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ غلاموں کو رواج کے مطابق کھلاؤ اور پہناؤ جس کام کے کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو اس کی انہیں تکلیف نہ دو (بخاری، 2/158، حدیث: 2545)

2۔ نوکر و ملازم کی غلطیوں سے درگزر کیا جائے، ان کی غلطی و کوتاہی پر غصہ کرتے وقت اللہ پاک کے حق میں اپنی غلطی اور اس کی اطاعت میں کوتاہی پر غور و فکر کرے اور یہ سوچے کہ جتنی ملازم پر مجھے قدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ قدرت اللہ پاک کو مجھ پر ہے، اس سے ان شاءاللہ الکریم درگزر کا ذہن بنے گا۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

3۔ ان کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے اور تکبر نہ کرے، کیونکہ رب تعالیٰ کسی متکبر اور اترانے والے کو پسند نہیں فرماتا، اگرچہ وہ ہمارے ماتحت ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انہیں خود سے کمتر اور حقیر جانا جائے۔

4۔ ملازمین کے عمدہ کام کرنے یا غیر معمولی کام کرنے پر ان کو اپریشئیٹ کیا جائے تاکہ انکی حوصلہ افزائی ہو اور مزید کام کرنے کا شوق پیدا ہو۔

5۔ ملازم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب ملازم کی تنخواہ کی ادائیگی کا مطلوبہ وقت پورا ہوجائے تو جتنا جلد ہوسکے تنخواہ کی ادائیگی کرے۔

آج کے معاشرے میں ادائیگی میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا فیشن بنتا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ملازموں کو کچھ دبا کر رکھنا چاہئے ورنہ یہ بہت تنگ کرتے ہیں، حالانکہ حدیث پاک میں ہے کہ مزدور اور ملازم کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو۔ (ابنِ ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)

6۔ دوران ڈیوٹی ملازمین کے کھانے اور نماز کے اوقات کا خاص خیال رکھا جائے، مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر لازم ہے کہ اپنے ماتحتوں کیلئے بھی ایسی آسائشیں مہیا کی جائیں جیسی ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ حقیقی مسلمان وہی ہے جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کیلئے پسند کرے۔

مالک کریم ہمیں اپنے ماتحتوں کے حقوق پورے کرنے کی توفق عطا فرمائے۔ آمین 


وقت بے وقت کسی کو ٹوکتے رہنا، ڈانٹ پلادینا یاجھاڑنے کی عادت سے ممکن ہے کہ وہ ایسے وقت میں ہماری مدد سے انکار کر دے جب ہم شدید پریشانی میں مدد کے طلبگار ہوں۔ لہذا اپنے خدمت گزاروں سے اچھا سلوک کیجیے، ان کی طاقت سے زیا دہ ان سے کام نہ لیجیئے۔

ملازمین اورخادمین کو تکلیف نہ دیجیئے: بعض لوگ اپنے ملازمین اور گھریلو خادمین سے جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں، بات بات پر ان کی بےعزتی کرتے ہیں، ان سے زیادہ کام لیتے ہیں، انکار پر نوکری سے فارغ کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں، ایسے افراد یاد رکھیں کہ ان ملازمین و خادمین کی بھی حق تلفی کرنا اور ان کو بلا وجہ شرعی تکلیف پہچانا جائز نہیں۔ ہمارے اکابرین تو اپنے خدام سے مثالی سلوک رکھا کرتے تھے۔(تکلیف نہ دیجیئے، ص157 )

غلام کو تکلیف نہ دی: منقول ہے کہ ایک رات امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ہاں کوئی مہمان آیا، اس وقت آپ لکھ رہے تھے، چراغ بجھنے لگا تو مہمان نے عرض کی میں اٹھ کر ٹھیک کر دیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ بات مہمان کی خاطر داری کے خلاف ہے کہ اس سے خدمت لی جائے، اس نے کہا: غلام کو جگا دیتا ہوں وہ کام کر لے گا۔ فرمایا: وہ ابھی ابھی سویا ہے یہ فرما کر خود اٹھے اور تیل کی کپی لے کر چراغ میں تیل بھرا۔ مہمان نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ یہ کام خودانجام دے رہے ہیں؟ فرمایا: میں جب اس کام کے لیے گیا تب بھی عمر تھا اور جب واپس لوٹا تب بھی عمر ہی ہوں، میرے اس کام سے میرے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑا اور لوگوں میں سے بہترین وہ ہےجواللہ کے ہاں عاجزی والا ہو۔ (احیاء العلوم، 3/435)

خادمہ کی تکلیف کا خیال: فی زمانہ شرعاً کوئی غلام موجود نہیں لیکن اپنے پاس کام کرنے والے ملازمین اور خادمین کا خیال رکھنا بھی شیوہ مسلمانی ہے، چنانچہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں جب مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بریلی شریف حاضر ہوا تو آپ نے دار الافتاء کی خدمت میرے سپرد فرما دی۔ میں دن میں مسائل کا جواب لکھتا اور عشاء کے بعد آپ کو سنایا کرتا اور جہاں مناسب معلوم ہوتا آپ اصلاح فرمایا کرتے تھے، یہ مجلس عموما دو تین گھنٹے کی ہوتی جبکہ بسا اوقات چار گھنٹے کی بھی ہو جاتی تھی۔ انہی ایام میں ایک دفعہ جبکہ سخت سردیوں کے د ن تھے، کمرے میں حضرت کےلیے انگیٹھی تھی جو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہونے لگی اور حقے کی آگ بھی ختم ہونے پر آئی، اچانک آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر کوئلہ اور ہوتا تو انگیٹھی ہی گرم ہو جاتی اور تمباکو ابھی پورا نہیں جلا وہ بھی کام آجاتا، میں نے عرض کی اندر خادمہ کو آواز دے کر کوئلہ مانگ لوں؟ فرمایا: دن بھر کی تھکی ہاری بے چاری سو گئی ہوگی، جا نے دیجیئے۔ (جہانِ مفتی اعظم ہند، ص328)

خادم سے کپڑے پر سیاہی گر گئی: منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماعیل بن بلبل شیبانی کے خادم نے قلم سیاہی میں ڈبو کر آپ کو پیش کیا تو بے خیالی میں سیاہی کے چند قطرے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قیمتی جبے پر گر گئے، خادم خوف سے کانپنے لگا کہ نہ جانے اب کیا سزا ملے گی! لیکن آپ نے درگز کرتے ہوئے فرمایا: گھبراؤ نہیں! پھر یہ اشعار پڑھے:

ترجمہ: جب کستوری قوم کی خوشبو کو عمدہ کرے مجھے یہی سیاہی کی خوشبو کافی ہوگی ان کپڑوں سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں جن کے کناروں پر کوئلہ کی سیاہی ہو۔ (سیر اعلام النبلاء، 10/ 566)

حدیث پاک میں ہے: جو آقا اپنے غلام کو نہ حق مارے گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق، 9/ 317، حدیث:18275)

اللہ پاک ہمیں اپنے ملازمین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔