اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابر نہیں دیا، کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہےاگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے، تو صبر سے کام لینا چاہیے اور بَد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلا دے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلام تمہارے بھائی ہیں، اﷲ عزوجل نے انہیں تمہارے دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلاؤ، جو تم خود کھاتے ہو، وہی پہناؤ، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔

اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کومار رہا تھا میں نے سنا کہ کوئی میرے پیچھے سے کہہ رہا تھا جان لے اے ابو مسعود! جان لے اے ابومسعود!تو میں نے مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے پاس رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک اللہ عزوجل تجھ پر زیادہ قادر ہے اس سے کہ تو اس غلام پر ہے۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بعد میں کسی لونڈی اور غلام کو نہیں مارا۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمیں ملازم کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس کو ایسا کام نہ دینا چاہیے جس کی وہ صلاحیت نہ رکھتا ہو۔