الحمد
للہ دین اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر ہر لحاظ سے انسان کے معاشرتی و اخلاقی تربیت
کی ہے اور قرآن کریم و احادیث طیبہ میں کئی مقامات پر اسکی مثالیں ملتی ہیں چاہے
بندہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ آقا ہو یا غلام امیر ہو یا فقیر
مالک ہو یا نوکر استاد ہو یا شاگرد(وعلی ھذا القیاس)لیکن آج کل معاشرے میں جس ذلت
و رسوائی کا سامنا ایک ملازم و نوکر کو کرنا پڑتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں
اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق بیان فرماائے ہیں
وہیں نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائیں ہیں۔ چند ایک حقوق ہم یہاں ذکر کرتے
ہیں:
فرمان
نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ فقرا کو پہچانو، ان سے بھلائی کرو انکے
کے پاس دولت ہے پوچھا گیا کونسی دولت ہے؟ فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا اللہ پاک ان
سے فرمائے گا جس نے تمہیں کھلایا پلایا ہو یا کپڑا پہنایا ہو اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت
میں لے جاؤ۔ (مکاشفتہ القلوب)
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایک غلام کو مار رہے تھا آواز آئی کہ اے ابو مسعود
انصاری ! آپ اس طرف پھرے، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہیں اور فرما رہے ہیں کہ جتنی قدرت تو اس غلام پر رکھتا ہے اس سے زیادہ
خدائے تعالیٰ تجھ پر رکھتا ہے۔ (کیمیائے سعادت صفحہ نمبر 320)
لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ انکو روٹی سالن
اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور
یہ بھی خیال کرے کہ یہ میری طرح بندے ہے اور اگر ان سے کوئی قصور سر زد ہوجائے تو
آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے انکا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر
غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔ (کیمیائے
سعادت، صفحہ نمبر 320)