مالک ذوالجلال نے انسانوں میں بعض لوگوں کو بعض پر ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ- (پ 25، الزخرف: 32) ترجمہ: اور ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندی کیا، تاکہ ان میں ایک دوسرے کو اپنا خادم بنائے۔ چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جہاں اس نے ماں باپ، پڑوسیوں، اساتذہ و طالبات کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح ملازم کے حقوق بھی بیان کیے ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: اِنَّ اِخْوَانَکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَھُمُ اللہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ یعنی ملازمین تمہارے بھائی ہے جنہیں اللہ نے تمہارا ماتحت کردیا ہے۔ (بخاری، 2/158، حدیث: 2545)

حقوقِ ملازم:

1۔ وسعت کے مطابق کام لینا:کسی بھی قسم کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملازم یا نوکر سے اس کی اہلیت و طاقت کے مطابق کام لے۔

2۔ عزت و احترام سے پیش آنا:ملازم کا یہ حق ہے کہ مالک اسے عزت و احترام سے پکارے اس کو عزت دے اور ذرا ذرا سی کوتاہیوں میں اکیلے یا سب ملازمین کے سامنے بےعزتی نہ کرے۔

3۔ ادائیگی تنخواہ میں جلدی: نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اُعْطُوا الْاَجِیرَ اَجْرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَجُفَّ عَرْقُہٗ یعنی مزدور و ملازم کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو۔ (ابنِ ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)

آج کے اس پُرفتن دور میں یہ روایت چل پڑی ہے کہ مزدور یا ملازم کی اجرت بہت رلانے کی بعد دی جاتی ہے، آخرت میں اس کا انجام بہت درد ناک ہوگا۔

4۔ حسن اخلاق سے پیش آنا: ملازم کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا مالک کا فرض ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اپنے گھر میں کام کرنے والے نوکر یا اپنے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین سے عمدہ اخلاق سے پیش آئے تاکہ اس سے دونوں کے درمیان ایک خوش گوار تعلق پیدا ہو۔ حدیث شریف میں ہے: بداخلاقی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (ترمذی، 3/380، حدیث: 1953)

5۔ مساوات کا خیال رکھنا: مالک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملازموں کے ساتھ مساوات و برابری کا سلوک رکھے کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملازم کو برتری و کسی کو کمتری کا احساس نہ دلائے۔

6۔ وعدہ کی پاسداری: مالک کو چاہیے کہ وہ اپنے ملازمین سے کیے گئے کسی بھی قسم کے جائز وعدے کی پاسداری کرے۔