وقت بے وقت کسی کو ٹوکتے رہنا، ڈانٹ پلادینا
یاجھاڑنے کی عادت سے ممکن ہے کہ وہ ایسے وقت میں ہماری مدد سے انکار کر دے جب ہم
شدید پریشانی میں مدد کے طلبگار ہوں۔ لہذا اپنے خدمت گزاروں سے اچھا سلوک کیجیے،
ان کی طاقت سے زیا دہ ان سے کام نہ لیجیئے۔
ملازمین اورخادمین کو تکلیف نہ دیجیئے: بعض
لوگ اپنے ملازمین اور گھریلو خادمین سے جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں، بات بات پر
ان کی بےعزتی کرتے ہیں، ان سے زیادہ کام لیتے ہیں، انکار پر نوکری سے فارغ کر دینے
کی دھمکی دیتے ہیں، ایسے افراد یاد رکھیں کہ ان ملازمین و خادمین کی بھی حق تلفی
کرنا اور ان کو بلا وجہ شرعی تکلیف پہچانا جائز نہیں۔ ہمارے اکابرین تو اپنے خدام
سے مثالی سلوک رکھا کرتے تھے۔(تکلیف نہ دیجیئے، ص157 )
غلام کو تکلیف نہ دی: منقول ہے کہ
ایک رات امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ہاں کوئی مہمان آیا،
اس وقت آپ لکھ رہے تھے، چراغ بجھنے لگا تو مہمان نے عرض کی میں اٹھ کر ٹھیک کر
دیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ بات مہمان کی خاطر داری کے خلاف ہے کہ اس سے خدمت لی
جائے، اس نے کہا: غلام کو جگا دیتا ہوں وہ کام کر لے گا۔ فرمایا: وہ ابھی ابھی
سویا ہے یہ فرما کر خود اٹھے اور تیل کی کپی لے کر چراغ میں تیل بھرا۔ مہمان نے
کہا: اے امیرالمومنین! آپ یہ کام خودانجام دے رہے ہیں؟ فرمایا: میں جب اس کام کے
لیے گیا تب بھی عمر تھا اور جب واپس لوٹا تب بھی عمر ہی ہوں، میرے اس کام سے میرے
مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑا اور لوگوں میں سے بہترین وہ ہےجواللہ کے ہاں
عاجزی والا ہو۔ (احیاء العلوم، 3/435)
خادمہ کی تکلیف کا خیال: فی زمانہ شرعاً
کوئی غلام موجود نہیں لیکن اپنے پاس کام کرنے والے ملازمین اور خادمین کا خیال
رکھنا بھی شیوہ مسلمانی ہے، چنانچہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی
رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں جب مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا
مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بریلی شریف حاضر ہوا تو آپ نے دار الافتاء
کی خدمت میرے سپرد فرما دی۔ میں دن میں مسائل کا جواب لکھتا اور عشاء کے بعد آپ کو
سنایا کرتا اور جہاں مناسب معلوم ہوتا آپ اصلاح فرمایا کرتے تھے، یہ مجلس عموما دو
تین گھنٹے کی ہوتی جبکہ بسا اوقات چار گھنٹے کی بھی ہو جاتی تھی۔ انہی ایام میں
ایک دفعہ جبکہ سخت سردیوں کے د ن تھے، کمرے میں حضرت کےلیے انگیٹھی تھی جو کچھ دیر
کے بعد ٹھنڈی ہونے لگی اور حقے کی آگ بھی ختم ہونے پر آئی، اچانک آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے فرمایا: اگر کوئلہ اور ہوتا تو انگیٹھی ہی گرم ہو جاتی اور تمباکو ابھی
پورا نہیں جلا وہ بھی کام آجاتا، میں نے عرض کی اندر خادمہ کو آواز دے کر کوئلہ
مانگ لوں؟ فرمایا: دن بھر کی تھکی ہاری بے چاری سو گئی ہوگی، جا نے دیجیئے۔ (جہانِ
مفتی اعظم ہند، ص328)
خادم سے کپڑے پر سیاہی گر گئی: منقول ہے کہ
ایک مرتبہ حضرت اسماعیل بن بلبل شیبانی کے خادم نے قلم سیاہی میں ڈبو کر آپ کو پیش
کیا تو بے خیالی میں سیاہی کے چند قطرے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قیمتی جبے پر گر گئے،
خادم خوف سے کانپنے لگا کہ نہ جانے اب کیا سزا ملے گی! لیکن آپ نے درگز کرتے ہوئے
فرمایا: گھبراؤ نہیں! پھر یہ اشعار پڑھے:
ترجمہ: جب کستوری قوم کی خوشبو کو عمدہ کرے مجھے
یہی سیاہی کی خوشبو کافی ہوگی ان کپڑوں سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں جن کے کناروں
پر کوئلہ کی سیاہی ہو۔ (سیر اعلام النبلاء، 10/ 566)
حدیث پاک میں ہے: جو آقا اپنے غلام کو نہ حق مارے
گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مصنف عبد
الرزاق، 9/ 317، حدیث:18275)
اللہ پاک ہمیں اپنے ملازمین کے حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔