محمد
علی زین عطّاری( درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ گلزارحبیب سبزہ زارہ لاہور، پاکستان)
اسلام کا نظریہ حیات انتہائی خوبصورت
وسیع جانچ اور اعلیٰ ہے کہ ہم اللہ عزوجل کےبندے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی بندگی
کے تقاضے پورے کرنے ہیں اچھی اور پر مسرت زندگی بسر کر نی ہے خدا تعالٰی کی بندگی
کے تقاضے پورے کرنے میں ہمیں دین اسلام نے حقوق العباد پورے کرنے کی تلقین کی ہے
جس کا ذکر قرآن کریم احادیث مبارکہ اور مختلف بزرگان دین کے اقوال سے ملتا ہے حقوق
العباد میں۔ اہم ترین حقوق ملازم و تقریر کے حقوق ہیں جس طرح ہم پر والدین اساتذہ
کرام اور ہمسایوں کے حقوق لازم ہیں اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی ہم پر ضروری
ہیں ملازموں اور نوکروں کے حقوق میں ملازم کی اجرت وقت پر ادا کرنا۔ اور انکے ساتھ
حسن سلوک برتنا اور نرمی کے ساتھ پیش آنا ملازمین کے بنیادی حقوق ہیں اجرت وقت پر
ادا کرنا اسکو اسلئے بنیادی حق کہاگیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث
مبارکہ میں اسکی تلقین فرمائی ہے حضور اکرم نبی کریم نے فرمایا مزدور کی مزدوری
انکا پسینہ خشک ہونے سے پہلےدو اورکیونکہ مزدور وملازم کی بہت سی ضروریات مالک کی
اجرت پر موقوف ہوتی ہیں اسے وقت پر اجرت ادانہ کی جائے تو اس پر مشکل حالات پیش
آسکتے ہیں۔
اسی طرح ملازم کے ساتھ حسن سلوک اور
نرمی برتنا بھی انکا بنیادی حق ہے اگر مزدور و ملازم وغیرہ سے کوئی غلطی سرزد ہو
جائے تو اس پر تشدد دوغیرہ برا بھلا کہنے کی بجائے اسے معاف کر دینا احسن عمل اور
غلام و خادم کو معاف کرنے کے بارے میں بھی حدیث مبار کی میں ارشاد فرمایا گیا ہے
حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی حدیث مبارکہ ہے کہ آپ
فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ایک آدمی حاضر ہوا
اور عرض کی کہ میں اپنے خادم کو کتنی بار معاف کروں تو آپ صلی اللہ علیہ کی خاموش
ہو گئے تو اس آدمی نے دوبارہ اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر
خاموشی اختیار فرمانی اس آدمی نے تیسری مرتبہ پھر اپنے کلام کو لوٹایا تو آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے ہر دن میں ستر مرتبہ معاف کرو۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے جہاد کے
علاوہ کبھی کسی کو اپنے ہاتھ مبارک سے نہ مارا نہ ہی کسی غلام کو اور نہ ہی کسی
عورت کو -(شمائل ترمذی ،ص 197)
اللہ پاک ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین