اسلام کا یہ حُسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔

نوکروملازم کے حقوق:

1۔ بروقت وظیفہ کی ادائیگی: ماتحتوں کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی بددیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا) ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت پوری نہ دے۔ (مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث: 8700 ملتقطاً)

2۔ شفقت و مہربانی: ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)

3۔ نرمی کرنا: ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کیا جائے۔ موقع محل کی مناسبت سے درست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے لیکن ان کو ہدفِ تنقید بنالینا، کھری کھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک نے نبی پاک ﷺ سے عرض کیا: اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز 70 بار۔ (ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164)

4۔ ہميشہ حسنِ سلوک کرنا: ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحب منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اپنے تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حُسن سلوک کیا جائے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے سے خیر خیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسب استطاعت مدد کی جائے۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ (ابوداود، 4/ 439، حدیث: 5163)

5۔ خادم پر مال خرچ کرنا: خادم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں انفاق کرو۔ تو ایک شخص نے حضور اکرمﷺ سے کہا میرے پاس ایک دینار ہے میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا:اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، اس کے بعد اپنی بصیرت سے انفاق کی ترتیب وترجیح طے کرلو۔ (الاحسان، 5/141، حدیث:3326)

اللہ پاک ہمیں ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین