یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ہر ایک کا حق اس کی قرابت یا تعلق کے مطابق ہوتا ہے اور تعلق و قرابت کے بہت درجے ہیں، حقوق اس کی مقدار کے مطابق ہیں اور قوی ترین رابطہ اور تعلق خدا کے لیے ہے پھر برادری کا تعلق رابطہ ہے ہمارے اسلام نے ہر کسی کے الگ حقوق بیان کیے ہیں جیسے والدین کے حقوق اولاد کے حقوق بھائی چارگی کے حقوق رشتےداروں کے حقوق اسی طرح کچھ حقوق نوکر و ملازم کے بھی ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

(1)پہلا حق جو چیز اپنے لیے پسند نہ کرے وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک عضو (حصہ)کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی اعضاء کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے اور رنج و تکلیف سے متاثر ہوتے ہیں۔ (کیمیائے سعادت، ص 303)

(2)دوسرا حق کسی مسلمان کو اپنے ہاتھ اور زبان سے اذیت اور تکلیف نہ دے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پتا ہے مسلمان کون ہوتا ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول جل و علا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہتر جانتے ہیں تو فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامتی میں رہیں صحابہ کرام نے عرض کیا مومن کون ہوتا ہے؟ فرمایا مومن وہ ہیں جس سے ایمان والوں کو اپنے جان و مال میں کوئی خوف و خطرہ نہ ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: مہاجر کون ہوتا ہے؟ فرمایا جو برے کام کرنا چھوڑ دے۔(کیمیائے سعادت، ص 303)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں میں نے جنت میں ایک شخص کو دیکھا جو جنت میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اسے محض اتنی سے بات سے حاصل ہوا کہ دنیا میں راستے سے اس نے ایک ایسا درخت کاٹ دیا تھا جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔

(3)تیسرا حق کسی کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے کیونکہ تکبر کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میری طرف وحی نازل ہوئی کہ ایک دوسرے کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آؤ تاکہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اسی بنا پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے ساتھ جاتے اور ان کی حاجات پوری کرتے۔ اور ہرگز کسی کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ اللہ کا ولی اور دوست ہو اور وہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اپنے اولیاء کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ ان تک کوئی راہ نہ پا سکے۔ (کیمیائے سعادت، ص 304)

(4)چوتھا حق کسی مسلمان کے حق میں چغلخور کی بات کا اعتبار نہ کرے کیونکہ اعتبار عادل کی بات کا ہوتا ہے اور چغلخور فاسق ہے (اور فاسق کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا)حدیث شریف میں ہے کوئی چغلخور جنت میں نہیں جائے گا اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جو شخص کسی کی بد گوئی (برائی)تیرے سامنے کرتا ہے وہ اس کے سامنے تیری بد گوئی کرنے سے باز نہیں آئے گا لہذا ایسے آدمی سے کنارہ کشی لازمی ہے اور اسے جھوٹا تصور کرنا چاہیے۔ (کیمیائے سعادت،ص 304)

(5)پانچواں حق 3 تین دن سے زیادہ کسی آشنا اور واقف کار سے ناراض نہ رہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کسی مسلمان کے لیے حلال اور جائز نہیں کہ مسلمان کے ساتھ 3 تین دن سے زیادہ ناراض رہے دونوں میں بہتر وہ ہے جو السلام علیکم سے ابتدا کرے۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا میں نے تیرا درجہ اور نام اس لیے بلند فرمایا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو معاف کردیاایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر تو اپنے بھائی کی غلطی و خطا کو معاف کر دے گا تو تیری عزت و بزرگی میں ہی اضافہ ہوگا۔(کیمیائے سعادت، ص 305)

اللہ کریم ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام کرنے ان کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان سے محبت بھرے انداز میں پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین