نوکروں اور ملازموں کے حقوق بھی دینِ اسلام میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت کو عطا فرمائے ہیں۔ قدیم زمانہ سے لے کر دورِ حاضر تک ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جو لوگ ان پر زیادتی کرتے ہیں۔ انہیں اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے کیونکہ جس طرح حقوق العباد میں دیگر لوگوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح انہیں حقوق العباد میں نوکروں اور ملازموں کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں۔جن میں کچھ پیشِ خدمت ہیں۔

غلطی ہو جانے پر معاف کرنے کا حق:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سن کر خاموش رہے، پھر اس نے اپنی بات دھرائی، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر خاموش رہے، تیسری بار جب اس نے اپنی بات دھرائی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ ہر دن میں ستر بار اسے معاف کرو۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر: 5164)

دیکھا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ سلم نے ستر 70 بار انھیں دن میں معاف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، اور ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اگر کسی نوکر یا ملازم سے کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کریں، موقع محل کی مناسبت سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے۔لیکن اس کو ہدفِ تنقید بنالینا، بھری بھری سنانا، ذلیل کرنا، معمولی سی غلطی پر ان کو سزا دینا اور ان پر ہاتھ اٹھانا سخت نا پسندیدہ عمل ہے۔

حسنِ سلوک کرنے کا حق:

ہمارے پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا، اس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ نہیں فرمایا کی تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟(ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2019، مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ بخاری جلد 2 صفحہ 243،حدیث: 2786)

سبحان اللہ کیا شان ہے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کہ یہ تک نہیں فرماتے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ہمیں بھی سنت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنانا چاہئے۔ کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اور ہماری نجات کا سبب ہے، ہمیں بھی اپنے نوکروں اور ملازمین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور ان سے ان کی طاقت کے مطابق ہی کام لینا چاہیے، اور یہی ان کا حق ہے۔

وظیفہ کی ادائیگی کا حق:

ملازمین کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی، کٹوتی، بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے، حدیثِ قدسی میں ہے۔کہ اللہ پاک فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک وہ شخص ہے، جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے کام لے اور اسے اجرت نہ دے (ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2019 مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ مسند احمد، جلد کی، صفحہ 278 حدیث نمبر: 8700)

لہذا ہمیں ان نوکروں اور ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ اور انہیں ان کا حق دینا چاہیے کیونکہ مولا اپنے حق تو معاف کرسکتا ہے۔ مگر لوگوں کے حقوق کو جب تک نہیں معاف کرے گا جب تک جس کا حق مارا ہے وہ خود معاف نہ کردے۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین