محمد
اسامہ عطاری مدنی (مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی، پاکستان)
اس
دنیا کا رنگ ہے کہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی
بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر، مقام ومرتبہ کا یہ فرق اس لئے
ہر گز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ
بلندی دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی حامی ہے۔
بروقت وظیفہ کی ادائیگی:
اپنے ماتحتوں (نوکر و ملازم)کو وظیفہ وقت پر ادا
کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں حیلے
بہانے کرنے اس میں کمی اور بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا
کام ہے حدیث قدسی ہے: الله پاک فرماتا ہے، تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں
خصم ہوں (یعنی ان سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر
رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد، ج 3، ص 278، حدیث: 8700)
ملازمین کے ساتھ شفقت:
اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور بھلائی
کا برتاؤ کرنا چاہیے ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بد
خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ (ابوداؤد، ج 4، ص 439،حدیث:5163)
اچھے القاب سے پکارنا:
خادم
کو اپنے اصلی نام سے پکارا جائے،پیار سے اسے کوئی اور نام سے پکارنا مقصود ہو تو
وہ نام بھی اچھا ہونا چاہئے،اس کا نام بگاڑ کر لینا یا اسے بد تہذیب لقب سے پکارنا
مذموم فعل ہے۔ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔
(پ26،الحجرات: 11)
ماتحت کو مارنا:
حضرت
ابن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے نہیں کیا یا اسے
طمانچے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، ص 178)
ذات پات کا طعنہ دینا: ملازم و خادم
کو اس کی ذات پات کا طعنہ نہیں دینا چاہیےاور نہ اس کی کوئی عیب جوئی کرنی چاہیے وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی
کرے۔(پ30، الھمزۃ: 1)