الحمد لله دین اسلام مکمل ضابطہ اخلاق سے مزین ہے۔دنیا و آخرت میں انسان جس جس چیز کی طرف محتاج ہے۔اسلام نے اسکو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔نظام زندگی کو چلانے کے لئے دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے گئے ہیں۔کوئی مالک ہے تو کوئی ملازم کوئی امیر ہے تو کوئی غریب کوئی امام ہے تو کوئی خادم (علی ھذا القیاس)۔جہاں اسلام نے مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے ہیں۔وہی ان مراتب کے لوازمات کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے۔کہ اگر کسی کے ماتحت افراد ہیں تو ان کے حقوق کا خیال رکھے۔اگر کوئی والد ہے تو اپنی گھر والوں کے حقوق کا خیال رکھے۔اگر کسی کے پاس ملازم و نوکر ہیں تو وہ ان ملازمین و نوکروں کا خیال رکھے۔

دین اسلام نے جہاں حقوق کو بیان کیا ہے وہی ان حقوق کو ادا کرنے والے کے لئے اجر کو بھی بیان کیا ہے اور حقوق کو ادا نہ کرنے والے کے لئے سزا کو بھی بیان کی ہے۔

سب سے بڑا مفلس کون؟

حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس درہم اور دوسرے مال و سامان نہ ہوں وہی مفلس ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میری امت میں اعلیٰ درجے کا مفلس وہ شخص ہے کہ وہ قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوٰۃ کی نیکیوں کولے کر میدان حشر میں آئے گا مگر اس کا یہ حال ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال کھالیا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کو مارا ہوگا تو یہ سب حقوق والے اپنے اپنے حقوق کو طلب کریں گے تو اﷲتعالیٰ اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کو ان کے حقوق کے برابر نیکیاں دلائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کے حقوق نہ ادا ہو سکے بلکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق باقی رہ گئے تو اﷲتعالیٰ حکم دے گا کہ تمام حقوق والوں کے گناہ اس کے سر پر لاد دو۔ چنانچہ سب حق والوں کے گناہوں کو یہ سر پر اٹھائے گا پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو یہ شخص سب سے بڑا مفلس ہوگا۔(جنتی زیور ص 105)

جو خود کھاتے ہو وہی انہیں بھی کھلاؤ:

نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: لونڈی غلاموں کے حقوق ادا کرنے میں خدائے تعالی سے ڈرو جو تم لوگ خود کھاتے ہو وہیں ان کو کھلاؤ جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ۔ اور ایسا مشکل کام ان کے ذمہ نہ لگاؤ جو وہ نہ کر سکیں۔ اگر تمہارے مطلب کے ہیں تو ان کو رکھو ورنہ فروخت کر دو۔ اور خدا کے بندوں کو اذیت اور تکلیف میں نہ رکھو۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے تمہارے لونڈی غلام بنایا اور تمہارے تابع کر دیا ہے۔ اگر چاہتا تو تم کوان کے جانی اور زیر دست کر دیتا۔(کیمیائے سعادت، مترجم، ص 319)

کتنی مرتبہ معاف کریں؟ایک شخص نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے عرض کیا ہم لوگ دن میں کتنی بار اپنے لونڈی غلاموں کے قصور معاف کریں۔ فرمایا ستر بار۔(ایضاً)

ضروریات سے محروم نہ رکھے:امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کو روٹی سالن اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور یہ خیال کرے کہ یہ بھی میری طرح بندے ہیں اور اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو جائے تو آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے ان کا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔(کیمیائے سعادت مترجم ص 320)

اللہ کریم ہمیں تمام حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور کل بروز قیامت ہمیں اہل جنت کی صف میں جگہ عطا فرمائے۔آمین