اﷲ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابری نہیں دی کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے۔ بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔

ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک:

خیر کے کاموں میں حُسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور علیہ السلام کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بَد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔

طے شدہ اجرت کی ادائیگی ملازم کو بروقت کرنا چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔

عفو و درگزر سے کام لینا:

ہر انسان بتقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنٰی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔

اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کی فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)

ملازم پر مال خرچ کرنا:

ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور تنخواہ کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے جس کا اﷲ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے جو ان کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔

خادم کے لیے دعا:

حضور سرور عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں اس سے منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں کے لیے اور اپنے مال کے حق میں بددعا کریں۔ ابوداؤد میں یہ روایت ہے کہ نبیِّ کریم نے فرمایا:اپنے لیے بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمہاری بددعا قبول ہوجائے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضور اکرم صلی اللہ عنہ نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یوں دعا دی:اے ہمارے رب انس کو مال واولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما، جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پانی پلایاگیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانی پلانے والےخادم کے حق میں دعا کی: اے ہمارے رب تو اپنی طرف سے اس شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی پلایا۔ (مسلم)