کلیم
اللہ عطّاری(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ایک
عرصہ تک دنیا میں انسانی غلامی کا رواج رہا، ا نہیں منڈیوں میں خریدا اور بیچا
جاتا حقوق سلب اور ضائع کیے جاتے بے پناہ تشدد کیا جاتا بنیادی انسانی حقوق سے
محروم رکھا جاتا معاشرے کاحقیر اور گھٹیا فرد تصور کیا جاتا لیکن جب آفتاب اسلام
کے انوار چمکے اور محسن انسانیت تشریف لائے تو غلاموں اور نوکروں کے ساتھ بہترین
سلوک کا درس دیا جس طرح اسلام معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس
دیتا ہے اسی طرح نو کروں و غلاموں کے حقوق کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ آئیے غلاموں
ونوکروں کے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:
کام میں کمی کرنا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے نوکر پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالے اور اس کے کام میں کمی
کرتا رہے۔جس طرح کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اپنے
خادم کے عمل میں جتنی کمی کرو گے تمھارے اعمال نامہ میں اتنا ہی ثواب لکھا جائے
گا۔ (صحیح ابنِ حبان، کتاب العتق، باب التخفیف عن الخادم، رقم 4293، ج 4، ص 255)
ملازم کی مدد کرنا:
اگر
کوئی کام مشکل ہو تو مالک کو چاہیے کہ خود بھی اس کی مدد کرےجس طرح کہ حضور علیہ
السلام نے فرمایا غلام کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دو جو اس کے لیے دشوار ہو
اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ (مسلم ص 700،
حدیث: 4313)
نرمی و
رحم کرنا:
آدمی
کو اپنے ملازم پر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش
آئے حضور علیہ السلام نے بھی رحم دلی کے حوالے سے فرمایا: اللہ اس پر رحم نہیں
کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری 4/532، حدیث: 7376)
احکامات شرعیہ کو بجالانے کا حکم دینا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے غلام کو نیکی کا حکم دیتا رہے اور اس سے نماز وغیرہ عبادات کا
بجا لانے کا حکم دیتا ر ہے کیونکہ حضور علیہِ السلام نے فرمایا: خبردار تم سب حاکم
ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (مراۃ المناجيح شرح مشکوۃ
المصابيح)
اچھا لباس زیب تن کروانا:
مالک
کوچاہیے کہ اپنے ملازم کو اچھا لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے:حضور علیہ السلام
نے فرمایا:اپنے ماتحت کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ (مسلم، ص 700 حدیث 4313)