اسلام سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور ميں يہ رسم اپنى تمام بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک كہ خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر كارى ضرب لگائى خادم معاشرے كے ديگر افراد كى طرح بھى اس شخص پر حقوق ہيں جس كےتحت وه فرائض انجام ديتا ہے، ان حقوق كو چار حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:(خوش گفتارى، حسن ِسلوك، كام ميں معاونت، اور تحفظ ِملازمت)۔

خادم كو اصلى نام سے پكارنا:

پيار سے اسے كوئى اور نام سے پكارنا مقصود ہو تو وه نام بھى اچھا ہونا چاہئے، اس كا نام بگاڑ كر لينا يا اسے بد تہذيب لقب دينا مذموم فعل ہے، قرآن كريم ميں اس كى مذمت آئى ہے: وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔(پ26، الحجرات:11)

خادم كا مذاق بھى نہيں اڑانا چاہئے:

اكثر لوگ باتوں باتوں میں ايسا كرتے رہتے ہيں، ارشاد ربانى ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں۔ (پ26، الحجرات:11)

ملازم وخادم كو اس كى ذات پات كا طعنہ نہيں دينا چاہئے:

اور نہ اس كى كوئى عيب جوئی كرنى چاہئے، قرآن مجيد ميں اس بارے ميں سخت حكم ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(پ30، الھمزۃ:1)

4 بر وقت اجرت دینا:

حدیث شریف مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دے دو۔(بہار شریعت، جلد 3،حصہ 14،ص 105)

معاف کرنا:

وَعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ فَسَكَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ قَالَ:اعْفُوا عَنْهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ:روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمر سےفرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہواعرض کیا یارسول اﷲ ہم خادم کو کتنی بار معافی دیں حضور خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال دہرایا آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار سوال ہوا تو فرمایا اسے ہر دن میں ستر بار معافی دو۔

مفتی احمد یار خان صاحب فرماتے:عربی میں ستر کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو،یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی ہوجاتی ہو خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قوی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کئے جاتے۔(مراۃ المناجیح،ج5، باب النکاح حدیث:3367)