اسلام سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور ميں يہ رسم اپنى بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک کہ جان عالم،خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر كارى ضرب لگائى۔

حضور علیہ السلام کی آمد سے قبل ہر اعتبار سے حضرت انسان جہالت کے سمندر میں غوطہ زن تھا، جہاں دیگر معاملات زندگی میں پستی کا شکار تھا، وہیں پر ایک آفت یہ تھی کہ اپنے خادموں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کرتا تھا۔ جہاں دین اسلام نے دنیا کے جاہلانہ نظام کو تبدیل فرما دیا وہیں پر انسان كى معاشرتى زندگى ميں بهى اسلام نے ايك عظيم انقلاب پيدا كيا۔ رنگ ونسل كے امتيازات ريت كےگھر وندے كى طرح گرادے گئے،اصول مساوات كے تحت سفيد وسياه،حاكم اور محكوم،عربى اور عجمى سب ايك ہى صف ميں كھڑے كردے گئے،صرف مسجد ميں ہى نہيں بلكہ ہر جگہ اور مقام پر مسلمان ايك دوسرے سے يكساں سطح اور مرتبہ پر ملتے ہيں يہ اس لئے اسلام كى نگاه ميں مادى شے مثلاً دولت ومنصب،نسلى ولسانى امتيازات،خاندانى وجاہت اور برترى كا باعث نہيں ہيں صرف كردار اخلاق سے مراتب ودرجات كا تعين ہوتا ہے جيسا ارشاد ربانى ہے: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26، الحجرات:13)

اس طرح اسلام نے انسانى درجہ بندى كا معيار ہى بدل ڈال جس سے حسب ونسب اور دولت، انسان كے مرتبہ كى كسوٹى نہيں رہى بلكہ معاشره ميں انسان كا مقام اس كے كردار سے متعين ہونے لگا۔فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:

عَنْ اَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللہ فِتْيَةً تَحْتَ اَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ اَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ وَلْيُلْبِسْهُ مِنْ لِبَاسِهِ وَلَا يُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ فَاِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَاُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَاَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیرِ دست کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم)ہو وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے۔(ترمذی)

اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقّی ہے خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں، معاشی فرق صرف اور صرف اس لئے ہے، تاکہ نظام عالم چلتا رہے۔

عفو و درگزر سے کام لینا:

دنیا میں ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصّہ ہماری خدمت گزاری میں وقف کرتے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمّل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصّہ کرنے کے بجائے، صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟‘‘ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہر روز ستّر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کیا میں تمہیں وہ شخص نہ بتاؤں جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ (ترمذی شریف)

حضرت سہیل بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو اپنے غصّے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے، پسند کرلے۔ (ترمذی شریف)

خدّام اور ملازمین کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کرکے معاف کرنے والے کا دل خوفِ خدا کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ اٰمین