جیسے ہر چیز کی ایک عمر مقرر ہے،  اس کے پورے ہونے کے بعد وہ چیز فنا ہو جاتی ہے، ایسے ہی دنیا کی بھی ایک عُمر اللہ پاک کےعلم میں مقرر ہے، اس کے پورا ہونے کے بعد دنیا فنا ہو جائے گی، زمین، آسمان، آدمی، جانور کوئی بھی باقی نہ رہے گا، اس کو قیامت کہتے ہیں، جیسے آدمی کے مرنے سے پہلے بیماری کی شدت، جان نکلنے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، ایسے ہی قیامت سے پہلے اس کی نشانیاں ہیں۔(بنیادی عقائد اور معمولات اہلسنت،ص 34) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی اور زنا، شراب خوری بڑھ جائے گی اور مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی،حتٰی کہ پچاس عورتیں پر ایک مرد منتظم ہو گا۔(مراۃ المناجیح، 7 /196)1:علم سے مراد علمِ دین ہے، جہالت سے مراد علمِ دین سے غفلت، یہ علامت شروع ہو چکی ہے، دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں، مگر علومِ تفسیر، حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے، علما اٹھتے جارہے ہیں، مسلمانوں نے علمِ دین سیکھنا قریباً چھوڑ دیا، یہ سب کچھ اس کی پیش گوئی کا ظہور ہے۔2:زنا کی زیادتی کے اَسباب عورتوں کی بے پردگی، اسکولوں، کالجوں میں لڑکوں، لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا، سنیما وغیرہ کی بے حیائی، گانے، ناچنے کی زیادتیاں، یہ سب آج موجود ہیں، ان وجوہات کی بنا پر زنا بڑھ رہا ہے اور بھی زیادہ بڑھے گا، عرب ممالک کے بعض علاقوں میں دیکھا ہے کہ بغیر شراب کے کوئی کھانا نہیں ہوتا، ہوٹل میں کھانا مانگو تو شراب ساتھ آتی ہے۔3:اس طرح کہ لڑکیاں زیادہ پیدا ہو گئی، لڑکے کم ہوگئے، پھر مرد جنگوں وغیرہ میں زیادہ مارے جائیں گئے، اپنے بیوی بچے چھوڑ جائیں گے، ان وجوہات کی بنا پر عورتیں زیادہ ہو گئی۔4: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک خاوند کی پچاس بیویاں ہوں گی کہ یہ تو حرام ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک خاندان میں عورتیں بیٹیاں پچاس ہوں گی، ماں، دادی، خالہ، پھوپھی وغیرہ اور ان کا منتظم ایک مرد ہوگا۔(مراۃ المناجیح، 7 /197)5: حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، حتی کہ زمانہ جلد گزرنے لگے گا اور ایک سال ایک مہینے کی طرح اور ایک دن ایک گھڑی کی طرح ہو گا اور ایک گھڑی آگ سُلگانے کی طرح۔(ترمذی)اس طرح جلد گزرے گا کہ زمانہ اور وقت میں برکت نہ رہے گی، انسان ایک کام نہ کر سکے گا کہ دن ختم ہو جائے گا، اس طرح کہ لوگ مصیبتوں، آفتوں میں ایسے مبتلا ہو جائیں گے کہ انہیں وقت محسوس نہ ہو گا۔ (مراۃ المناجیح، 201/7) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


جس طرح دنیا میں ہر ذی جان اور ہر چیز کے آنے اور جانے کا وقت مقرر ہے،  اسی طرح ساری کائنات کی بھی ایک میعاد مقرر ہے، جو ربّ کریم کے علمِ ازلی میں ہے، اس میعاد کے پورا ہونے کے بعد ساری کائنات زمین و آسمان، پہاڑ، حیوانات سب فنا ہو جائیں گے اور اسی کو قیامت کہتے ہیں۔جس طرح انسان کے مرنے سے پہلے چند علامات ظاہر ہوتی ہیں، جیسے شدید بیمار ہونا، موت کے سکرات وغیرہ، اسی طرح قیامِ قیامت یعنی دنیا کے فنا ہونے سے پہلے چند علامات ظاہر ہوں گی، قیامت کے متعلق قرآن پاک میں اللہ پاک نے بیان کیا ہے، چنانچہ ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے آسمان و زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث (بیکار) نہ بنایا اور بے شک قیامت آنے والی ہے تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔(پارہ14، سورۃ الحجر، آیت85) ترجمہ ٔکنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتار دی اور انصاف کی ترازو اور تم کیا جانو، شاید قیامت قریب ہی ہو۔ (پ 25، شوریٰ: 17)موجودہ دور میں پائی جانے والے نشانیاں:1:قُربِ قیامت وقت میں برکت ختم ہو جائے گی۔ حدیث نبوی ہے: حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک زمانہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہو گا، (یعنی زمانے کے حصّے جلد جلد گزرنے لگیں گے)، سال مہینے کے برابر ہوجائے گا، مہینا ہفتہ کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر اور اس دن ایک ساعت کے برابر ہوگا اور ساعت آگ کا شعلہ(اُٹھ کر ختم ہو جانے) کے برابر ہوگی۔ (انوار الحدیث، صفحہ 116)2: لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، یعنی اولاد والدین کے ساتھ یہ سلوک اور نافرمانی کرےگی۔3:قوم کے سردار(حکمران) کمینے اور ذلیل لوگ ہوں گے۔4:لوگ علمِ دین حاصل کریں گے، مگر دین کی خاطر نہیں بلکہ دنیا اور اس کو(دنیا) کو جمع کرنے کی خاطر۔ حدیث رسول میں آیا ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے منقول ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب غنیمت کو اپنی دولت اور امانت کو غنیمت اور زکوٰۃ کو ٹیکس بنالیا جائے اور غیرِ دین کے لئے علم حاصل کیا جائے اور آدمی اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے اور اپنے دوست کو قریب اور باپ کو دور کرے اور مسجد میں اونچی آوازیں ہوں اور قبیلےکا بد کار قوم کی سرداری کرے اور قوم کا ذمہ داران کمینہ ہو اور آدمی کی تعظیم کی جائے اس کی شرارت (ظلم) کے خوف سے اور رَنڈیاں (گانے والی عورتیں) اور باجے ظاہر ہو جائیں اور شراب پی جائیں اور اس کے پچھلے اگلوں پر لعنت کریں، اس وقت تم پر سرخ ہوا، زلزلہ، دھنسنا اور صورتیں بدلنا، پتھر برسنے اور نشانیوں کا انتظار کرنا،جو لگاتار ہوں گی،جیسے ہار جس کا دھاگہ توڑ دیا جائے تو لگاتار گرے۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 202، 203)5۔عورتوں کی کثرت ہوگی۔بخاری شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے:مردوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور عورتیں بہت زیادہ ہوں گی، یہاں تک کہ ایک مرد کی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی۔ (بخاری، کتاب العلم، جلد 1، صفحہ 47) نوٹ:اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ جس طرح توحیدو رسالت ،فرشتوں، دوزخ و جنت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح قیامت پر ایمان ضروری نہیں، بلکہ فرضِ عین ہے۔ یہ نشانیاں ذکر کی گئیں، یہ ساری کی ساری معاذ اللہ ہمارے اس پرفتن دور میں پائی جا رہی ہیں کہ اولاد اپنے والدین سے انتہائی بد سلوکی کرتی اور ان کی نافرمانی اور ان کے حقوق کو پامال کر رہی ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان آفات سے محفوظ رکھے اور ہمیں حقیقی معنوں میں علمِ دین حاصل کرنے اور دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین یا رب العالمین


پہلی نشانی:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے سوال کئے تھے، اس میں سے ایک سوال یہ تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی۔ یہ نشانی ہمارے سامنے ہے کہ آج اولاد اپنے ماں باپ کی آقا بنی ہوئی ہے، بیٹی ماں کی حکمران بنی ہوئی ہے، یہ دور ہمارے سامنے ہے۔دوسری نشانی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، ہم حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت کب آئے گی؟آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب امانت کو ضائع کر دیا جائے گا تو سمجھ لینا کہ قیامت آگئی، عرض کی:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم امانت کو ضائع کرنے کا مطلب کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کہا: جب معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو سمجھ لینا کہ قیامت آگئی، جب مسندوں کے اوپر مسندوں کے حقدار نہیں ہوں گے، جب تخت اور تاج کے مالک غدار اور بے دین اور نااہل لوگ ہوں گے، تخت اور تاج کی حکمرانی والے بھی نااہل ہوں گے تو پھر سمجھ لینا قیامت آنے والی ہے۔ تیسری نشانی: حضرت انس رضی اللہُ عنہجنہوں نے دس سال تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نوکری کی ہے، یہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خادم خاص ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کہتے سنا: قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی۔ آج انفارمیشن زیادہ ہو گئی ہے، لیکن جس کو علم کہا جاتا ہے، مؤمن کے سینے کا جمال اور نور ہے، وہ اُٹھا لیا گیا ہے، لوگ کہتے ہیں: آج جتنا علم ہے، پہلے نہیں تھا، آج کوئی غزالی دکھاؤ، کوئی احمد بن حنبل جیسا دکھاؤ ، یہ غلط بات ہے کہ پہلے علم نہیں تھا اب ہے، ان انہی پھیلا ہے یہ چند معلومات ہیں، یہ انفارمیشن کا دور ہے، خبر ہے، علم مؤمن کے سینے کا جمال ہے، جو زندگی کی راہ کو اجالا دیتا ہے، زمانے کو مالک کی دہلیز کے قریب کر دیتا ہے، انسانوں کو انسانیت دکھاتا ہے، وہ علم جو ہے اٹھا چلا جا رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا گیا : حضور! علم سینوں سے اُچک لیا جائے گا، سینوں سے کھینچ لیا جائے گا؟ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کہا:نہیں، علما اٹھا لئے جائیں گے، ان کی جگہ لوگ جاہلوں کو اپنا امام مانیں گے۔چوتھی نشانی:زنا عام ہو جائے گا۔پانچوی نشانی:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ عورتوں کا ایسا لباس ہوگا کہ ان کا جسم نمایاں ہوگا یا جسم ننگے ہوں گے، ایسا لباس اس لئے پہنیں گی کہ مرد ان کو دیکھیں۔ننگے کا مطلب کہیں جسم کا حصّہ چھپا ہو اور کہیں سے دِکھ رہا ہوگا کہ حجاب بھی ایسا ہوتا ہے کہ اوپر کر کے چہرہ دکھاتی ہیں کہ لوگ ان کو دیکھیں اور ان کو اچھا کہیں، یہ قیامت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟اللہ پاک ہمیں ایسی عادت سے نجات عطا فرمائے۔اٰمین


جیسے ہر چیز کی ایک عمر مقرر ہے،  اس کے پورے ہونے کے بعد وہ چیز فنا ہو جاتی ہے، ایسے ہی دنیا کی بھی ایک عُمر اللہ پاک کےعلم میں مقرر ہے، اس کے پورا ہونے کے بعد دنیا فنا ہو جائے گی، زمین، آسمان، آدمی، جانور کوئی بھی باقی نہ رہے گا،اس کو قیامت کہتے ہیں،جیسے آدمی کے مرنے سے پہلے بیماری کی شدت، جان نکلنے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، ایسے ہی قیامت سے پہلے اس کی نشانیاں ہیں۔(بنیادی عقائد اور معمولات اہلسنت ،ص 34) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا : قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی اور زنا، شراب خوری بڑھ جائے گی اور مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی، حتٰی کہ پچاس عورتیں پر ایک مرد منتظم ہو گا۔(مراۃ المناجیح، 7 /196)1:علم سے مراد علمِ دین ہے، جہالت سے مراد علمِ دین سے غفلت، یہ علامت شروع ہو چکی ہے، دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں، مگر علومِ تفسیر، حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے، علمااٹھتے جارہے ہیں، مسلمانوں نے علمِ دین سیکھنا قریباً چھوڑ دیا، یہ سب کچھ اس کی پیش گوئی کا ظہور ہے۔2:زنا کی زیادتی کے اَسباب عورتوں کی بے پردگی، اسکولوں، کالجوں میں لڑکوں، لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا، سنیما وغیرہ کی بے حیائی، گانے، ناچنے کی زیادتیاں، یہ سب آج موجود ہیں، ان وجوہات کی بنا پر زنا بڑھ رہا ہے اور بھی زیادہ بڑھے گا،بعض ممالک کے بعض علاقوں میں دیکھا ہے کہ بغیر شراب کے کوئی کھانا نہیں ہوتا، ہوٹل میں کھانا مانگو تو شراب ساتھ آتی ہے۔3:اس طرح کہ لڑکیاں زیادہ پیدا ہو گئی، لڑکے کم ہوگئے، پھر مرد جنگوں وغیرہ میں زیادہ مارے جائیں گئے، اپنے بیوی بچے چھوڑ جائیں گے، ان وجوہات کی بنا پر عورتیں زیادہ ہو گئی۔4: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک خاوند کی پچاس بیویاں ہوں گی کہ یہ تو حرام ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک خاندان میں عورتیں بیٹیاں پچاس ہوں گی،ماں،دادی، خالہ، پھوپھی وغیرہ اور ان کا منتظم ایک مرد ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، 7 /197)5: حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا : قیامت قائم نہ ہو گی،حتی کہ زمانہ جلد گزرنے لگے گا اور ایک سال ایک مہینے کی طرح اور ایک دن ایک گھڑی کی طرح ہو گا اور ایک گھڑی آگ سُلگانے کی طرح۔(ترمذی)اس طرح جلد گزرے گا کہ زمانہ اور وقت میں برکت نہ رہے گی، انسان ایک کام نہ کر سکے گا کہ دن ختم ہو جائے گا، اس طرح کہ لوگ مصیبتوں، آفتوں میں ایسے مبتلا ہو جائیں گے کہ انہیں وقت محسوس نہ ہو گا۔(مراۃ المناجیح، 201/7) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


جس طرح دنیا میں ہر پیدا ہونے والی چیز ایک میعاد پر فنا ہوتی اور مٹتی رہتی ہے، یونہی ساری کائنات کی بھی ایک عمر و میعاد اللہ کریم کے علم میں مقرر ہے۔ اس کے پورا ہونے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا کہ ساری کائنات، زمین و آسمان، دریا، پہاڑ، جمادات، نباتات، حیوانات سب فنا ہوجائیں گے، اسی کا نام قیامت ہے، مگر جس طرح عموماً آدمی کے مرنے سے پہلے بیماری کی شدت، موت کے سکرات،جان کنی کے آثار اور نزع کی حالتیں ظاہر ہوتی ہیں،اسی طرح قیام قیامت یعنی دنیا کے فنا ہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی۔(سنی بہشتی زیور (کامل)، ص 4٧، مطبوعہ فرید بک اسٹال) ان میں سے کچھ نشانیاں موجودہ دور میں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:1اللہ پاک کی عطا سے غیب کی باتیں بتانے والے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا۔(بخاری، کتاب النکاح، باب یقلّ الرجال ویکثر النساء، 3/472، الحدیث: 5231)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: علم سے مراد علم دین ہے، جہل سے مراد علم دین سے غفلت۔ آج یہ علامت شروع ہوچکی ہے۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علوم تفسیر، حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے۔ مسلمانوں نے علم دین سیکھنا قریباً چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ اس پیشگوئی کا ظہور ہے۔(مرآة المناجیح، ج ٧، قیامت کی علامتوں کا بیان، ص 1٩٧)2_حدیث پاک میں قیامت کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی:قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ عرب کی زمین چراگاہ اور نہری ہوجائے۔ (المستدرک ، کتاب الفتن، الحدیث : 8519 ، ج 5 ، ص 674)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ پیش گوئی تو اب دیکھنے میں آرہی ہے۔جدہ سے مکہ معظمہ تک سبزہ باغات ہوگئے۔عراق کے ریتیلے میدان باغوں میں تبدیل ہوچکے۔ (مرآة المناجیح، ج ٧، قیامت کی علامتوں کا بیان، ص 1٩٨)3قیامت کی ایک نشانی زنا کا عام ہونا بھی ہے۔(بہار شریعت، حصہ اول، معاد و حشر کا بیان) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: زنا کی زیادتی کے اسباب، عورتوں کی بےپردگی، لڑکوں، لڑکیوں کی مخلوط تعلیم، سینما (فلموں، ڈراموں، سوشل میڈیا وغیرہ) کی بےحیائی، گانے، ناچنے کی زیادتیاں، یہ سب آج موجود ہیں۔ ان وجوہ سے زنا بڑھ رہا ہے۔(مرآة المناجیح، ج ٧، قیامت کی علامتوں کا بیان، ص 1٩٧)4گانے باجوں کی کثرت ہونا بھی قیامت کی ایک نشانی ہے (بہار شریعت، حصہ اول، معاد و حشر کا بیان) اور یہ موجودہ دور میں بہت زیادہ پائی جارہی ہے۔ ٹی وی، سوشل میڈیا اسٹیٹس اور دیگر مختلف ذرائع سے گانے باجوں کی کثرت صرف کافروں میں ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں بھی عام دیکھنے میں آرہی ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے گانے سے اور گانا سننے سے منع فرمایا ہے۔(کنزالعمال،کتاب اللھو ۔۔۔ إلخ، رقم: 40655 ،ج 15 ،ص 95)5قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوست احباب سے میل جول رکھے گا اور باپ سے جدائی۔(بہار شریعت، حصہ اول، معاد و حشر کا بیان) حالانکہ دوستوں کے مقابلے میں ماں باپ کے حقوق بلاشبہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے۔ دوستوں سے میل جول کے سبب والدین کی حق تلفی و دل آزاری کرنے والوں کو اپنے اس طرزعمل سے اجتناب کرنا چاہئے۔


اللہ پاک نے دنیا اور اس کے علاوہ جو کچھ پیدا کیا، سب کی ایک عمر مقرر کی ہے، جب وہ عمر پوری ہو جاتی ہے تو وہ شے ہلاک و فنا ہوجاتی ہے، جیسے دریا جب تک اس کی عمر ہوتی ہے جاری رہتا ہے، جب عمر ختم ہو جاتی ہے تو خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح اللہ پاک نے ساری کائنات کی بھی ایک عمر مقرر فرمائی ہے، جب اس کی عمر پوری ہو جائے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ساری زمین ، آسمان، چاند، ستارے، دریا، سمندر، پہاڑ، پودے، ہوا، سورج سب ختم ہو جائیں گے، اس دن کا نام قیامت ہے۔اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک قیامت آنے والی ہے قریب ہے کہ میں اسے چھپا رکھوں، تاکہ ہر جان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے۔(پ 16، طٰہٰ: 15) اس آیت کے تحت صراط الجنان میں لکھا ہے: اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک قیامت لازمی طور پر آنے والی ہے اور قریب تھا کہ اللہ پاک اسے سب سے چھپا کر رکھتا اور یہ فرما کر بندوں کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ دیتا کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، یعنی لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہ ہو تاکہ کوئی قیامت کا دن بھی ہے،(اگر ایسا ہوتا تو لوگ بالکل ہی غفلت و بے عملی میں مارے جاتے) لیکن اس کے برعکس انہیں قیامت آنے کی خبر دی گئی ہے، جس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ہر جان کو اس کے اچھے بُرے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، البتہ اس کے ساتھ انہیں متعین(fix) وقت نہیں بتایا گیا) کہ وہ بھی کئی اعتبار سے اکثر لوگوں کے لئے غفلت کا سبب بن جاتا لہٰذا) اس کی جگہ بغیر متعیّن وقت بتائے محض قیامت کی خبر دے دی، تاکہ اس کے کسی بھی وقت آنے کے خوف سے لوگ گناہوں کو ترک کر دیں، نیکیاں زیادہ کریں اور ہر وقت توبہ کرتے رہیں۔(صراط الجنان، جلد 6، صفحہ 183 تا 184)لیکن آج کے زمانے میں اکثر لوگ حشر کے ہولناک دن کو بھول چکے ہیں، موت کو یاد نہیں کرتے، آخرت کو بہتر بنانے کے بجائے دنیا کو بہتر بنانے میں مگن ہیں اور موت کی تیاری کرنے سے مکمل غافل ہیں اور دنیا میں لمبی زندگی ہونے کی لمبی لمبی امیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ہمیں اب ڈر جانا چاہئے، گناہوں کو چھوڑ دینا چاہئے، نیکیوں کو بڑھانا چاہئے، کیونکہ جس طرح مرنے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں، اسی طرح قیامت کے واقع ہونے کی بھی چند نشانیاں ہیں، جس میں سے کچھ کا ظہور ہو رہا ہے اور وہ آج کے زمانے میں موجود ہیں،مثلاً 1۔مسجدوں میں شور ہونا۔2۔وقت میں برکت کا نہ ہونا۔ 3۔گانے باجے کی کثرت ہونا۔4۔عورتوں کا مردانہ وضع اختیار کرنا اور مردوں کا زنا نی وضع اختیار کرنا۔ 5۔لوگوں کا نماز کے شرائط و ارکان کا خیال رکھے بغیر پڑھنا ۔اللہ پاک قیامت میں سایہ عرش عطا کرے۔اٰمین


لوگ تم سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں تم فرماؤ،  اس کا علم تو اللہ پاک ہی کے پاس ہے اور تم کیا جانو ، شاید قیامت قریب ہی ہو۔(الاحزاب:33)قیامت آنے والی ہے، اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے اور یہ کب آنے والی ہے، اس کا علم اللہ پاک کو ہے اور ربّ کریم کے بتائے سے اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جانیں، ہمیں اس کا علم نہیں، غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں کہ جب عقل والے ان نشانیوں کو دیکھیں تو قیامت کی تیاری کریں اور نشانیوں میں سے بعض گزر چکی ہیں، جیسا کہ حجرِ اسود کا چوری ہونا، بعض آنے والی ہیں، جیسے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا دنیا میں تشریف لانا، کچھ نشاناں اس دور میں بھی موجود ہیں، جن میں سےچند کا ذکر کیا جائے گا:1۔حدیث جبرائیل میں ہے، جب جبرائیل علیہ السلام نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے دریافت کیا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی،ننگے سَر، ننگے بدن،بکریاں چرانے والے غریب لوگ تعمیرات میں مقابلہ کریں گے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب معرفۃ الایمان، حصہ 102)قیامت کی یہ نشانی آج کے زمانے میں ظاہر ہوچکی ہے، آج کل اولاد اپنے ماں باپ کی بجائے تعظیم اور خدمت کرنے کے ان کی حکمران بنی بیٹھی ہے، آج حکم اولاد کا ہے اور حکم ماننے والے ماں باپ ہیں،عرب کے غریب بکریاں چرانے والے آج کل اپنے بڑے بڑے محلات پر فخر کرتے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی عمارت پوچھیں تو وہ عرب میں ملے گی، دوسری بڑی عمارت پوچھیں تو وہ بھی عرب میں ملے گی، یہ دولت اور تعمیرات میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔2۔فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:قیامت کی نشانیوں سے یہ ہے: علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔(مشکوة ، الحدیث5437) آج یہ نشانی ظاہر ہو چکی ہے،علمِ دین سیکھنے والے کم اور دنیاوی علم سیکھنے والے بیشمار ہیں، علمائے دین اٹھتے جارہے ہیں، ان کے جانشین پیدا نہیں ہورہے ، علم مؤمن کے سینے کا جمال و نور ہے، آج کہتے ہیں :انفارمیشن زیادہ ہے، پہلے تو اتنی نہ تھی تو آج کوئی غزالی لا کر دکھائے، کوئی رومی دکھا دے، کوئی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نعلین کی خاک برابر لا کر دکھا دے، انسان کو انسانیت سکھانے والا علم اٹھ گیا ہے، انفارمیشن بہت ہے، انسانیت نہیں ہے، علم کی بات سننے کا ہمیں شوق ہی نہیں، نہ اس بات کا کہ ہمارا بچہ عالم بنے۔3۔قیامت کی ایک اور نشانی جو آج کے دور میں ظاہر ہوچکی ہے، وہ بدکاری یعنی زنا ہے، نظر کا زنا اس زمانے میں بُرا رہا ہی نہیں ہے، فیشن کے نام پر خود کی نمائش جاری ہے اور شہوات اور لذت بھری آنکھوں سے بے پردہ خواتین کو دیکھنا modernism کہلاتا ہے، ہاتھ ملانا نامحرموں سے ایسا ہے، جیسا اس میں کوئی قباحت ہی نہ ہو، ہمارے اپنے ملک میں زنا تیزی سے سستا ہوتا جا رہا ہے۔ 4۔شراب نوشی عام ہو جانا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، آج مسلمانوں میں بھی شراب فخر کےطور پر پی جاتی ہے، کہا جاتا ہے: یہ چودھریوں کے بڑے لوگوں کی شادی ہے، شراب کے بغیر کیسے ہوگی؟الامان و الحفیظفرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:(قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے)زنا کاری بڑھ جائے گی، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی،عورتیں بہت ہو جائیں گی، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا ایک مرد منتظم ہوگا۔(صحیح بخاری 5577)5۔نبی محترم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب امانت کو ضائع کر دیا جائے گا تو سمجھنا قیامت آگئی ہے۔(بخاری شریف، 6496)آج یہ نشانی بھی ظاہر ہوچکی ہے، امانت اُٹھ جانے/ضائع کرنے سے مراد یہ ہے کہ معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کردیئے جائیں گے، مسند کے اوپر مسند کے حقدار نہیں ہوں گے، بلکہ غدار، بے دین اور نا اہل لوگ ہوں گے۔قیامت کی نشانیاں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے قیامت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے، اپنے اندر ربّ کریم کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دینے کا خوف پیدا کرے، نیک اعمال کرے، برےلوگوں میں سے خود کو نکال لے، یہ نہ ہو کہ موت آجائےاور قیامت میں ٹھکانہ جہنم ہو۔اللہ پاک گناہوں سے سے بچا کر اپنے محبوب بندیوں میں شامل فرما لے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


قیامت کی علامات کی اقسام :قیامت کی علامات کی دو اقسام ہیں:1۔قیامتِ صغریٰ، 2۔قیامتِ قبریٰ۔علامت صغریٰ وہ علامات ہیں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیدائش سے لے کر وقوع میں آ چکیں اور حضرت اِمام مہدی رضی اللہُ عنہ کے ظہور تک وہ قوع میں آتی رہیں گی، یہاں تک کہ دوسری قسم یعنی(علامتِ کبریٰ) سے مل جائیں گی، وہ علاماتِ صغریٰ ہیں۔علامت کبریٰ جو ظہورِ امام مہدی رضی اللہُ عنہ کے بعد نفخ صُور تک ظاہر ہوں گی، یہ علامات یکے بعد دیگرے، پےدرپے ظاہر ہوں گی،جیسے سلکِ مردارید سے موتی گرتے ہیں، ان کے ختم ہوتے ہی قیامت برپا ہوگی، انہیں علاماتِ کبریٰ کہتے ہیں۔علامات صغریٰ بہت سی ظاہر ہوچکی ہیں اور بہت سی اس دور میں بھی ظاہر ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں۔1۔علامات قیامتِ صغریٰ: زنا اور شراب خوری، بدکاری اور بے حیائی کی زیادتی ہوگی۔فی زمانہ حال یہی ہو گیا ہے کہ یہ چاروں مذکورہ بُری چیزیں عام ہوچکی ہیں، زنا کے واقعات بھی بہت بڑھ گئے ہیں، افسوس!موجودہ زمانے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے، اب چاہے وہ بےحیائی ٹی۔وی یا انٹرنیٹ پر ہو یا کسی اور سبب سے، ہر جگہ بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے، اسی طرح شراب خوری کی بات کریں تو یہ بُری عادت بھی بہت زیادہ عام ہو چکی ہے، بے حیائی کے عام ہونے کی وجہ سے افسوس! بدکاری بھی بہت عام ہوچکی ہے۔2۔علامات صغریٰ میں سے یہ بھی کہ علمِ دین پڑھیں گے، مگر دین کی خاطر نہیں۔آج کل کے دور میں افسوس کے ساتھ علمِ دین تو حاصل کیا جاتا ہے، مگر حاصل کرنے کادرست مقصد نہیں، وہ علمِ دین جو رِضائے الٰہی و رضائے مصطفی کے لئے حاصل کرنا چاہئے تھا، افسوس!اب وہ لوگوں کی رضا کے لئے حاصل کیا جاتا ہے، علمِ دین جوثواب حاصل کرنے کے لئے حاصل کرنا چاہئے تھا، افسوس! اب وہ پیسوں کے حصول کے لئے پڑھا جاتا ہے، علمِ دین جو کہ دین کے لئے حاصل کیا جانا چاہئے تھا، افسوس!اب علمِ دِین کو حصولِ دنیا کے لئے پڑھا جاتا ہے۔3۔علاماتِ صغریٰ میں سے یہ بھی ہے کہ وقت میں برکت نہ ہوگی، یعنی بہت جلد جلد گزرے گا۔اب اگر ہم وقت کی بات کریں تو وقت تو اتنی جلدی گزر رہا ہے کہ وقت پورا ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے کام پورے نہیں، لوگ کہتے ہیں: وقت میں برکت نہیں۔ وقت میں برکت نہیں رہی۔ انہیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ یہ وقت میں بے برکتی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔4۔علاماتِ صغریٰ میں سے یہ بھی ہے کہ عورتیں مردانہ وضع اختیار کریں گی اور مرد زنا نی وضع اختیار کرنے لگیں گے، اسے پسند کریں گے۔افسوس ! ہمارے معاشرے میں فیشن کے نام پر جو بے حیائی و بدنگاہی کا بازار گرم ہوتا ہے، اللہ پاک کی پناہ!افسوس :عورتیں فیشن کے نام پر مردوں کی طرح پینٹ شرٹ پہننے لگی ہیں،استغفراللہ۔اسی طرح مردوں نے عورتوں کی وضع کرنے کو اپنالیا، مثلاً جیولری پہننا، کندھوں سے نیچے بال بڑھانا، کان چھیدوانا وغیرہ۔5۔ علاماتِ صغریٰ میں سے:نماز کی شرائط و ارکان کا لحاظ کئے بغیر لوگ نماز پڑھیں گے، یہاں تک کہ پچاس میں سے ایک نماز بھی قبول نہ ہوگی۔لوگوں کی حالت کی بات کریں تو اوّل تو لوگوں کی اکثریت تو نماز وں میں سُستی کا شکار ہے اور جو پڑھتے ہیں تو ان میں اکثریت ایسی ہے، جو نماز کے ارکان و شرائط کا بالکل لحاظ نہیں کرتے اور ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ نماز ان کی ہوتی ہی نہیں، بلکہ نماز اُلٹا ان کے مُنہ پر مار دی جاتی ہے، یہ بھی علامتِ قیامت میں سے ہے۔اور بھی بہت سی علامات ہیں، جو موجودہ زمانے میں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن یہاں صرف پانچ پر اختصار کیا گیا ہے، تاکہ مضمون زیادہ طویل نہ ہو جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آخرت کی تیاری کی فکر نصیب کرے اور ہمیں گناہوں سے بچائے، ہماری غفلتوں کو دور کر دے، ہماری قبر کی، حشر کی، ساری منزلوں کو آسان بنائے۔ یااللہ پاک ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دے اور ہمارے دلوں میں اپنی اور اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت ڈال دے۔ حُبِّ دنیا سے تو بچا یاربّ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ہم سب کو یقین بھی ہے اور معلوم بھی ہے کہ قیامت آکر رہے گی، لیکن اس کا دن ہمیں معلوم نہیں، قیامت اچانک آئے گی، البتہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی اُمّت کے لئے اپنی احادیث کے ذریعے قیامت کی کچھ نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔قیامت کی نشانیوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے، 1۔پہلی وہ نشانیاں جو ظاہر ہو کر ختم ہوگئیں، انہیں علاماتِ بعیدہ کہا جاتا ہے، 2۔دوسری نشانیاں وہ ہیں، جو ظاہر ہوکر ختم نہیں ہوئیں، بلکہ وہ(continue) چلتی آ رہی ہیں، 3۔اور تیسری نشانیاں وہ ہیں، جو قیامت کے بالکل قریب ہوں گی اور ان کے مکمل ہونے کے بعد قیامت آجائے گی۔آج ہم قیامت کی چند اُن نشانیوں کے متعلق پڑھیں گی جو ظاہر ہونے کے بعد موجودہ دور میں بھی چلتی آ رہی ہیں۔قیامت کی نشانیاں حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمائیں،چنانچہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک زمانہ ایسا آئے گا، جب غنیمت کو لوگ اپنی دولت، امانت کو مالِ غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان بنا لیں گے اور علم کو دین کے سوا کسی دوسرے مقصد سے پڑھیں گے اور آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار ہوگا، اپنے دوست کو قریب کرے گا اور اپنے باپ کو دور کرے گا اور مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی اور قبیلے کا سردار ان میں سے فاسق آدمی ہوگا اور قوم کا رہنما ان میں سب سے زیادہ کم ظرف شخص ہوگا اور آدمی کی تعظیم اس کے شر کے خوف سے کی جائے گی اور گانے والیوں اور باجوں کا ہر طرف چرچا ہوگا، قِسم قِسم کی شرابوں کو لوگ پینے لگیں گے، جب یہ سب ہو جائے تو اس وقت سُرخ آندھی کا انتظار کرو۔ (جامع ترمذی، صفحہ 2211)اللہ اکبر!جب یہ تمام باتیں ظاہر ہوں گی تو سرخ آندھی آئے گی، اللہ پاک کی پناہ۔ مذکورہ باتوں سے لگتا ہے کہ بہت ساری باتیں روز ہی ہمارے درمیان ہوتی ہیں، کیا ہم دیکھ نہیں رہیں! آج کل لوگ طاقت کی بنیاد پر دوسروں کے مال دبا لیتے ہیں، کیا آج کل ایسا ہو نہیں رہا کہ لوگ زکوٰۃ ادا کرنے کو تاوان سمجھتے ہوئے زکوۃ ادا ہی نہیں کرتے؟یہی وجہ ہے کہ آج مفلسی اور غربت نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ایک وقت وہ تھا جب زکوٰۃ دینے کے لئے حق دار ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے تھے، کیا ہم آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا دیکھ نہیں رہیں کہ والدین اولاد کی نافرمانیوں کے ہاتھوں تنگ ہیں، یہاں تک کہ آدمی بیوی بچوں کی خوشی کی خاطر اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس تک بھیج رہے ہیں، اللہ کی پناہ۔ اس سے پہلے کہ سرخ آندھی کی صورت میں ہم پر عذاب مسلط کر دیا جائے، اللہ پاک ہمیں توبہ کی توفیق سے نواز دے۔اٰمین


قیامت کے دن پر ایمان لانا مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے،یہ عقیدہ مسلمان کو نیکیوں پر استقامت اور برائیوں سے نفرت کی ترغیب دلاتا ہے،کیونکہ جب تک انسان کو سزا کا خوف نہ ہو، یہ جرائم سے بچ نہیں سکتا،اسی طرح جس کا عقیدہ قیامت پر پختہ نہیں،وہ گناہوں سے پوری طرح بچ سکتا ہے نہ عبادات میں مشقت اٹھا سکتا ہے،قیامت کا دن برحق ہے،خواہ کوئی مانے یا نہ مانے، ہمارا ایمان ہے کہ انسان و حیوان،زمین و آسمان سمیت سارا جہان اور اس کائنات کی ہر ایک چیز ایک دن فنا ہو جائے گی،صرف اللہ پاک کی ذات ہی باقی رہے گی، دنیا فنا ہونے یعنی قیامت برپا ہونے سے پہلے کچھ نشانیاں ظاہر ہوں گی، جن میں چند یہ ہیں:1۔ وقت میں برکت نہ ہوگی،یہاں تک کہ سال مہینے کی مانند،مہینا ہفتے کی مانند، ہفتہ دن کی مانند اور دن ایسا ہو جائے گا کہ جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور بھڑک کر بجھ گئی،(یعنی وقت بہت جلد گزرے گا)۔ (شرح السنۃ کتاب الفتن ،ج7،ص442، رقم الحدیث4159)یہ نشانی آج کے وقت کی عکاس ہےکہ وقت میں برکت نہیں،تیز رفتار گاڑیوں،تیز ترین سواریوں،تیز ترین مواصلات،جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ہر کوئی یہی کہتی نظر آتی ہے: میرے پاس وقت نہیں ہے۔دین کے لئے، فرائض کے لئے،حقوق العباد کے لئے ٹائم نہیں ملتا۔2۔ملکِ عرب میں کھیتی،باغ اور نہریں جاری ہوجائیں گی۔(المرجع السابق،حدیث(6786 ملکِ عرب جہاں پہاڑ ہی پہاڑ قدرتِ الٰہی کا شاہکار ہیں، صحرا اور ریت ہے،وہاں بھی کھیتی باڑی کو فروغ مل رہا ہے اور آنے والے چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث عرب کے صحراؤں میں برف باری ہوا کرے گی۔3۔مرد اپنی بیوی کا فرمانبردارہوگا، ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔)بہارِشریعت،حصہ:1، ماخوذا، ص60، بحوالہ جامع ترمذی،صحیح مسلم(موجودہ دور میں قیامت کی یہ نشانی زد زبان عام ہےکہ آج کل ماں باپ سے بڑھ کر شوہر اپنی بیوی کی بات مانتا ہے،ہر عورت کی خواہش ہے کہ اس کا خاوند صرف اُسی کی بات کو اہمیت دے، لوگ والدین سے علیحدہ اپنا الگ گھر بنا لیتے ہیں، والدین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، اپنے احباب سے میل ملاپ اور تعلقات رکھتے ہیں،مگر والدین سے دور رہتے ہیں۔4۔گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ )بہارِشریعت، حصہ:1،ماخوذا،ص(60آج کل گانے باجے کی کثرت ہمیں قُربِ قیامت کا پیغام دے رہی ہے، گھر گھر میں فلمی گانوں کا رواج ہے،یہاں تک کہ ہسپتال جہاں لوگ مختلف امراض میں مبتلا زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں، وہاں بھی ٹی وی، کیبل نیٹ ورک کا رواج بڑھ رہا ہے، مریضوں کو توبہ استغفار اور اوراد و وظائف کی تلقین کے بجائے فلمی گانے سننے، فلمی ڈرامے دیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، ہمارے بازار، دوکانیں اور ہوٹل گانے باجوں کی نحوستوں سے بھرے پڑے ہیں، یہ قیامت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہے؟5۔زنا کی زیادتی ہوگی اور اس بے حیائی کے ساتھ زنا ہوگا کہ بڑے چھوٹے کی تمیز نہ رہے گی۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)موجودہ دور میں پائی جانے والی یہ قیامت کی ہولناک نشانی ہے۔آج مسلم ممالک بھی اس آفت و بے حیائی کی زَد میں ہیں،کہیں بے حیائی اور بدکاری عروج پہ ہے، نفس کسی کو قابو نہیں ہے اور اس قدر بے لگام ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور بچیوں کو روندتا ہوا چلا جاتا ہے۔قیامت کی کچھ نشانیاں تو ظاہر ہو چکیں ہیں، مگر ابھی کچھ نشانیاں باقی ہیں، ہمیں خوفِ خدا سے ڈر جانا چاہئے اور خدا پاک کی نافرمانیوں سے باز آجانا چاہئے۔ اللہ پاک ہم سب کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ و مامون فرمائے، بروزِ محشر شافعِ محشر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام ایک ضابطۂ حیات اور مکمل قانون ہے اور اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ قیامت ایک دن ضرور آئے گی  اس پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے ایک دن دنیا زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب نست و نابود ہوجائے گی ماسوا اللہ تعالی کے کچھ باقی نہیں رہے گا اس کو قیامت آنا کہتے ہے۔قیامت آنے سے قبل دنیا میں کچھ نشانیاں ظاہر ہو گی۔

عام طور پر انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ تعالی کے سوا کس کو ہے' لیکن اللہ تعالی کی عطا سے اس کا علم نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ہے ۔

آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نہایت ہی اہتمام سے قیامت کی نشانیاں بیان فرمائی تاکہ امت مسلمہ قبل قیامت ان رونما ہونے والی فتنوں سے بچ جائے ۔

آج ضرورت ہے اس امر کی کہ امت مسلمہ ان نشانیوں کو ذہن نشیں کر کے غوروفکر کرے ۔کہ کون سی نشانی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور کون سی نشانی ہمارے گھروں میں داخل ہوچکی ہے اور کون سی نشانیاں مستقبل میں آنے والی ہے۔اور ہمیں بالکل قرب قیامت کن بڑے فتنوں کا سامنا کرناپڑے گا۔ہمیں غور و فکر کرنا پڑے گا تاکہ ہمارا ایمان سلامت رہے۔

قیامت کی وہ پانچ نشانیاں جو اب تک ظاہر ہو چکی ہے وہ یہ ہے :

1۔ امانت کی بربادی:

حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "قیامت کب آئےگی" میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ :

عن ابی ھریرۃَ قال بینما النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُحَدّثُ اذ جاء اعرابیُ فقال متیٰ الساعۃُ قال اذا ضُعِیّتِ الامانۃُ فانتظِرِ الساعۃَ قال اذاوسِّدَ الامرُ الیٰ غیر اھلہِ فانتَظِرِ الساعۃَ

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ توحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امانت برباد کی جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو تو اس نے کہا کہ امانت کی بربادی کس طرح ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہر کام نااہل کی طرف سونپا جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو ۔

(مشکوٰة شریف 2 469)(بحوالہ " قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 30)

'تبصرہ' دور حاضر میں حکومت و سلطنت ایسے لوگوں کے سپرد کی جانے لگی ہے جو کسی طرح بھی اس کے اہل نہیں ہیں۔اسی طرح گاؤں کی سرداری نمبرداری بھی نااہلوں کو دی جا رہی ہے'حتیٰ کہ مسجدوں کی تولیت اور انتظام ان بے نمازی سیٹھوں اور مالداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے جو عید یابقرعیدیا زیادہ سے زیادہ جمعہ کے دن نماز پڑھنے کے لیے مسجدوں میں آتے ہیں

2۔ مسجدوں پر فخر:

عن انس قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لاتقُومُ الساعۃُ حتیٰ یَتَباھی الناسُ فی المساجدحضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے ۔(حجة اللہ العالمین )(بحوالہ قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 31)

تبصرہ: آج کل لوگ مقابلے 'competition' کےطور پر مسجد بناتے ہیں'ایک گاؤں والوں نے ایک مسجد بنائی تو دوسرے گاؤں والے اس سے زیادہ خوبصورت اور بڑی مسجد بناتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اس سے زیادہ خوبصورت اور بڑی مسجد بنائی' حالانکہ کبھی ایسا معاملہ درپیش آتا ہے کہ امام صاحب اکیلا نماز پڑھتے ہیں ۔

3۔ کمینوں کی خوشحالی:

عن حذیفۃَ بنَ الیمانِ قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لاتقُومُ الساعۃُ حتیٰ یکونَ اسعدُ الناسِ باالدنیا لُکَعَ بنُ لُکَعَ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ کمینے کا بیٹا کمینہ دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال ہوگا۔(ترمذی شریف ج دوم 44 باب اشراط الساعتہ)(بحوالہ قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 34)

تبصرہ دور حاضر میں ہر چھوٹا بڑا اپنی

نگاہوں سے دیکھ رہا ہے کہ پشت ہا پشت کے شریف زادگان علماء'صلحا'عقلاء اور دین دار مسلمان آج غربت و افلاس کا شکار نظر آرہے ہیں اور کئی کئی پشتوں کے چور'ڈاکو' لچے لفنگے 'اور بدمعاش عیش و عشرت کی جنت میں آرام کر رہے ہیں۔

4۔ بےحیائ کی انتہا:

عن ابن عمر قال لاتقومُ الساعةُ حتیٰ یَتَسافَدَ الناسُ تسافُدُالبھائِمِ فی الطُرُقِ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ جانوروں کی طرح راستہ میں جفتی کریں گے۔(حجۃاللہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر831)('بحوالہ قیامت کب آئے گی' صفحہ نمبر 40)

5۔مسجدوں میں دنیا کی باتیں کرنا:

عن الحسن یائتی علیٰ الناس زمان حدیثُھُم فی مساجدھم فی امر دنیاھُم فلاتُجالسوھُم فلیس للہ فیھِم حاجۃ

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کی مسجدوں میں دنیا کی باتیں ہوں گی تو تم ان کی صحبت میں نہ بیٹھو کیونکہ اللہ کو ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

'تبصرہ' دور حاضرہ میں اکثر و بیشتر مسلمان اس بلا میں گرفتار ہیں چند منٹوں کے لئے آتے ہیں تو تو خواہ مخواہ دنیا کی باتیں اور دھندے اور روزگار کی باتوں کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں۔


اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلیٰ اِحْسَانِہِ وَ بِفَضلِ رَسُوْلِہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلا شُبہ اس مادرِ گیتی پر شَب وروز ہزاروں انسانوں کی آمد ورَفت ہو رہی ہے۔ َکوئی خَیْرخواہی تو کوئی بدکاری سے لبریز ہے۔ مگر آج کے اس پُرْفِتَن دور میں چَشْمِ حقیقت سے دیکھیں تو ہمیں برائیوں کی بہُتات نظر آتی ہے۔ جو قُرْب قیامت کی نشانیاں ہیں اُنہی میں سے چند مُندرجہ ذیل ملاحظہ کیجئے۔

1۔اچھائیوں کی کمی: آج ہماری ثقافت میں یہ سب باتیں بہت عام ہوتی جا رہی ہیں عَیْب جوئی، کِذِبْ گوئی، تکلیف رسانی چُغلخوری، والدین کی نافرمانی، صدقات وخیرات سے دوری، شراب نوشی زُہد وتقَویٰ کی کمی، شہْوَت پروری، عِصْمَتْ دری، بزرگوں سے بدزبانی، نِعْمَتِ باری کی ناشکری ، خود پسندی، رِیا کاری، زوالِ عجز واِنْکِساری، محبتِ مال ودولت، بُعُدِیَتِ عِبادت وعِیادت، گناہوں سے رغبت، ظلم وستم، حسد وکینہ اور موت سے بچنے کی تمنا وغیرہ۔

2۔شوسل میڈیا : یہ ایک ایسا شَجَرَۂ خاص وعام ہے جس کی بیشمار شاخیں فیسبُک، اِنْسَٹاگرام، واٹسایپ اور اِیْسناپچارٹ وغیرہ ہیں۔ جس کے سایے تلے اُمورِ حَسَنہ کے مدِ مُقابِل اُمورِ سئِیہ کی کئی گُنا زیادہ نشونما ہو رہی ہے۔ جیسے لڑکیوں کا بَرہَنہ رَقْص، فحش گوئیاں، شَنِیع ویڈیوز، عُریانیت، غیر محرموں سے ملاقاتیں، تماشہ بینی اور غیر مُسلموں سے راز افشائی وغیرہ عام ہیں۔

3۔زوالِ اہلِ علم:اس طرح کے پیغامات جاری کرتے ہیں لوگ: جیسے 'یہ میسیج بیس لوگ کو ارسال کرو ورنہ آپکو بہت بڑا نُقصان ہوگا' ( نَعُوْذُ باللہ مِنْ الجھل)، ترکِ تعلیمِ قرآن وحدیث، جاہلوں کے فتویٰ کی تصدیق کرنا، سُنی سنائی باتوں کو لوگوں میں تیزی سے پھیلانا ، اپنی اولاد کو دینی کے بجائے دُنیاوی تعلیم پر گامزن رکھنا، عِلْم سے عمل کے بجائے اس پر فخر کرنا اور عُلماءِ کرام سے قَطَعِ تعلُق رکھنا وغیرہ باعثِ وُقُوعِ قیامت ہیں۔

4۔من مانی اعمال : آج ہمارے معاشرے میں کوئی پابندی باقی نہ رہی، لڑکے کسی ہیرو کو اپنا مَشْعَلِ راہ بنا رہے ہیں، تو لڑکیاں کسی ہیروئن کے دستورِ حیات کو اپنا رہے ہیں۔ کوئی عیش وعِشرت کے لیئے عالیشان بنگلے تو کوئی قیمتی گاڑیاں خرید رہا ہے۔ کسی کو نہ مسجد سے مطلب نہ مدرسے سے ہے۔ نہ شرم و حَیا کا خیال نہ عزت کی و اکرام کا ہے۔ کہیں پر خواتین کے اغوے ہو رہے ہیں، نہ کوئی تعلیمِ قرآن کا حامِل نہ اِحیاءِ ایمان کا ہے آخرت سے غافل ہو کر سب تحصیلِ دنیا میں لگے ہیں۔

5۔عورتوں کی سَرْبَراہی: اِمرُوز اکثر خواتین مرد پر حاوی نظر آرہی ہیں۔ نہ لِباس کا پتہ نہ جنسیت کا ہے ، نہ پردے کا خیال نہ تعلیمِ قرآن کا مکمل مغربی تہذیب وتمدُن میں مَلْفُوف ہیں۔ بہت سے لوگ شادی کے بعد اپنے والدین سے دوری بنا رہے ہیں۔ اور جو عورت کا حکم ہو رہا ہے اس پر خاوند عمل پیرا ہے۔ اگر یہی حال ہمارے معاشرے میں باقی رہا تو یہ ہماری داستاں تک نہ رہے گی۔ اللہ رَبُّ الْعِزَّت تمام مسلمانانِ جہاں کو نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین