اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلیٰ اِحْسَانِہِ وَ بِفَضلِ رَسُوْلِہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلا شُبہ اس مادرِ گیتی پر شَب وروز ہزاروں انسانوں کی آمد ورَفت ہو رہی ہے۔ َکوئی خَیْرخواہی تو کوئی بدکاری سے لبریز ہے۔ مگر آج کے اس پُرْفِتَن دور میں چَشْمِ حقیقت سے دیکھیں تو ہمیں برائیوں کی بہُتات نظر آتی ہے۔ جو قُرْب قیامت کی نشانیاں ہیں اُنہی میں سے چند مُندرجہ ذیل ملاحظہ کیجئے۔

1۔اچھائیوں کی کمی: آج ہماری ثقافت میں یہ سب باتیں بہت عام ہوتی جا رہی ہیں عَیْب جوئی، کِذِبْ گوئی، تکلیف رسانی چُغلخوری، والدین کی نافرمانی، صدقات وخیرات سے دوری، شراب نوشی زُہد وتقَویٰ کی کمی، شہْوَت پروری، عِصْمَتْ دری، بزرگوں سے بدزبانی، نِعْمَتِ باری کی ناشکری ، خود پسندی، رِیا کاری، زوالِ عجز واِنْکِساری، محبتِ مال ودولت، بُعُدِیَتِ عِبادت وعِیادت، گناہوں سے رغبت، ظلم وستم، حسد وکینہ اور موت سے بچنے کی تمنا وغیرہ۔

2۔شوسل میڈیا : یہ ایک ایسا شَجَرَۂ خاص وعام ہے جس کی بیشمار شاخیں فیسبُک، اِنْسَٹاگرام، واٹسایپ اور اِیْسناپچارٹ وغیرہ ہیں۔ جس کے سایے تلے اُمورِ حَسَنہ کے مدِ مُقابِل اُمورِ سئِیہ کی کئی گُنا زیادہ نشونما ہو رہی ہے۔ جیسے لڑکیوں کا بَرہَنہ رَقْص، فحش گوئیاں، شَنِیع ویڈیوز، عُریانیت، غیر محرموں سے ملاقاتیں، تماشہ بینی اور غیر مُسلموں سے راز افشائی وغیرہ عام ہیں۔

3۔زوالِ اہلِ علم:اس طرح کے پیغامات جاری کرتے ہیں لوگ: جیسے 'یہ میسیج بیس لوگ کو ارسال کرو ورنہ آپکو بہت بڑا نُقصان ہوگا' ( نَعُوْذُ باللہ مِنْ الجھل)، ترکِ تعلیمِ قرآن وحدیث، جاہلوں کے فتویٰ کی تصدیق کرنا، سُنی سنائی باتوں کو لوگوں میں تیزی سے پھیلانا ، اپنی اولاد کو دینی کے بجائے دُنیاوی تعلیم پر گامزن رکھنا، عِلْم سے عمل کے بجائے اس پر فخر کرنا اور عُلماءِ کرام سے قَطَعِ تعلُق رکھنا وغیرہ باعثِ وُقُوعِ قیامت ہیں۔

4۔من مانی اعمال : آج ہمارے معاشرے میں کوئی پابندی باقی نہ رہی، لڑکے کسی ہیرو کو اپنا مَشْعَلِ راہ بنا رہے ہیں، تو لڑکیاں کسی ہیروئن کے دستورِ حیات کو اپنا رہے ہیں۔ کوئی عیش وعِشرت کے لیئے عالیشان بنگلے تو کوئی قیمتی گاڑیاں خرید رہا ہے۔ کسی کو نہ مسجد سے مطلب نہ مدرسے سے ہے۔ نہ شرم و حَیا کا خیال نہ عزت کی و اکرام کا ہے۔ کہیں پر خواتین کے اغوے ہو رہے ہیں، نہ کوئی تعلیمِ قرآن کا حامِل نہ اِحیاءِ ایمان کا ہے آخرت سے غافل ہو کر سب تحصیلِ دنیا میں لگے ہیں۔

5۔عورتوں کی سَرْبَراہی: اِمرُوز اکثر خواتین مرد پر حاوی نظر آرہی ہیں۔ نہ لِباس کا پتہ نہ جنسیت کا ہے ، نہ پردے کا خیال نہ تعلیمِ قرآن کا مکمل مغربی تہذیب وتمدُن میں مَلْفُوف ہیں۔ بہت سے لوگ شادی کے بعد اپنے والدین سے دوری بنا رہے ہیں۔ اور جو عورت کا حکم ہو رہا ہے اس پر خاوند عمل پیرا ہے۔ اگر یہی حال ہمارے معاشرے میں باقی رہا تو یہ ہماری داستاں تک نہ رہے گی۔ اللہ رَبُّ الْعِزَّت تمام مسلمانانِ جہاں کو نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین