بے شک زمین و آسمان اور جن و انس سب ایک دن فنا ہونے والے ہیں ۔صرف اللہ کے لئے ہمیشگی اور بقا ہے ۔اور باقی سب مخلوق کو فنا ہے جب سب کچھ فنا ہوجائے گا پھر قیامت برپا ہوگی ۔ جس کا منظر بہت ہولناک ہوگا لیکن اس کے آنے کا صحیح  وقت صرف اللہ کو ہی معلوم ہے ۔

جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ- ترجمہ: وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب قائم ہوگی آپ فرمادیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے ۔(پ 9،اعراف 187)

پھر اسی آیت میں ارشاد فرمایا:

لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةًؕ- ترجمہ: وہ تمہارے پاس اچانک آئے گی

لہذا ہم اپنے اندازے سے یہ نہیں کہ سکتے کہ قیامت کب آئے گی ہاں اس کے آنے سے پہلے چند ایسی باتوں کا ظہور ہوگا جو اس کے قریب ہونے پر دلالت کریں گی جنہیں قیامت کی نشانیاں کہتے ہیں جن میں سے کثیر نشانیاں ہمیں آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال پہلے بتلادی تھیں ۔اور ان میں سے اکثر اس زمانے میں ظاہر ہوچکی ہیں اگر زمانہ حال کی طرف نظر کی جاے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کی یقینا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک ایک فرمان صداقت کا نشان ہے ۔

ان نشانیوں میں سے پانچ کا ذکر یہاں کیا جاتاہے  :

(1) جہالت کی کثرت ہوگی:         

حدیث پاک میں ہے:انّ من اشتراط الساعة ان يرفع العلم ويكثر الجهل

(صحیح بخاری ۔ج 3 ۔ص 476)

ترجمہ: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کی علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت کی کثرت ہوگی    

(2) تیس نبوت کے دعویدار ہونگے جن کا فتنہ بہت سخت ہوگا۔جن میں سے بعض گزر گئے ۔

جیسے 1)مسیلمہ کذاب 2)طلیحہ بن خویلد 3) غلام احمد قادیانی اور بعض ضرور آئے گے۔

حدیث پاک میں ہے: وانه سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انه نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی(سنن ابی داؤد ج 4۔ص 133)

ترجمہ: ضرور میری امت میں تیس کذاب ہونگے ان میں سے ہر ایک خود کو نبی گمان کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(3) زکوة دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ لوگ اسے تاوان سمجھیں گے۔

حدیث پاک میں ہے:اذااتخذ الفيء دولا . والأمانة مغنما۔ والزکاة مغرما۔

ترجمہ:جب لوگ مال فئے کو دولت ۔امانت کو مال غنیمت ۔اور زکوۃ کو ٹیکس سمجھیں گے۔

(سنن الترمذی ج4 ۔ ص90)

(4) مرد ماں باپ کی نا فرمانی کرے گا:

حدیث پاک میں ہے:وعق امه    (سنن الترمذی ج 4 ۔ص 90)

ترجمہ:اور مرد اپنی ماں کی نا فرمانی کرےگا

(5) گانے باجے کی کثرت ہوگی :

حدیث پاک میں ہے:وظھرت القینات والمعازف  (سنن الترمذی ج 4 ۔ص 90)

ترجمہ:گانے باجے کے طرح طرح کے آلات ایجاد ہونگے

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں یقینا یہ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چمکتے سورج کی طرح حق نظر آتے ہیں ۔

اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خُدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں دُرُود

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین       


اس ذاتِ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نے ہمیں ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔

وہ ذات کہ جس نے تخلیقِ انسان کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت، رہن سہن اور زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بھی عطا فرمائی۔

اس ربِّ ذوالجلال نے اپنے بندوں کو جہالت اور ضلالت ( گمراہی) سے بچانے اور اپنی بندگی کے احکام انسان تک پہنچانے کے لیے کم و بیش سوا لاکھ پیغمبر صحیفوں اور کتابوں کے ساتھ بھیجے ۔

جب ربِّ غفَّار عزوجلّ نے خاتَمُ النَّبِیِّین خاتم المُرسَلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بندوں کی طرف مبعوث فرمایا تو کتابِ عظیم قرآنِ کریم عطا فرمائی۔اور ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام احکام (جو اللہ عزوجل نے عطا فرمائے) بندوں تک پہنچا دیئے اور بد دینی کے گڑھے سے نکالا ۔ لیکن اس دنیا کے آخری زمانے میں (قُربِ قیامت) گمراہی، بد دینی پھر سے پھیلنا شروع ہو گی اور آہستہ آہستہ اسلام کی روشنی بجھتی چلی جائے گی ۔

قیامت سے پہلے کچھ علامات کا ظہور ہوگا جن میں سے بعض تو زمانۂ حال میں ظاہر ہو چکی ہیں اور عروج پا رہی ہیں۔

موجودہ دور میں پائی جانے والی کچھ نشانیاں ذکر کرتے ہیں۔

(1): دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہو گا جیسے مٹھی میں انگارا لینا، یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جا کر تمنا کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں ہوتا۔ ( بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 118)

(2): ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)

(3): گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)

واقعی آج اکثر جگہوں پر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس طرف جائیں گانے چلائے ہوتے ہیں۔ دکانوں،گاڑیوں، گھروں حتیٰ کہ شادی بیاہ کے موقع پر تو اکثر لوگوں نے گانے باجے کو رواج بنا لیا ہے۔

(4): اگلوں پر لوگ لعنت کریں گے، ان کو برا کہیں گے۔

(فیضانِ فرض علوم حصہ اول صفحہ 86)

یہ حقیقت ہے کہ آجکل لوگ اکثر اپنے بڑوں پر لعن طعن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

(5): علم اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ علماء تو باقی رہیں گے اور ان کے دلوں سے علم محو کر لیا جائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم، الحدیث 100)


قیامت ایک اٹل حقیقت ہے، اس کا انکار کرنے والا  کافر ہے۔ قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم اللہ رب العزت اور اس کے بتائے سے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے کے قیام کے بارے میں قطعی وقت تو نہیں بتایا مگر چند ایسی نشانیاں بتا دیں کہ جن کا وقوع قرب قیامت میں ہوگا۔ کچھ نشانیاں تو وقوع پذیر ہوچکی ہیں جبکہ کچھ کا ظاہر ہونا ابھی باقی ہے۔

وہ علامات کہ جو ظاہر ہو چکیں متعدد ہیں جن میں سے پانچ یہ ہیں۔

1: علم دین اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے:

اس نشانی کے ظہور کا آغاز بھی ہو چکا ہے ، صرف 2020ء میں اس دار ناپائیدار کو الوداع کہنے والے علماء کی فہرست اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کتنی تیزی سے اہل علم اس جہاں سے اٹھتے جارہے ہیں ۔

2: جہالت کی کثرت:

آج کے اس نام نہاد جدیدیت پسند دور میں بھی جہالت کی بپھری موجیں ہمارے سروں سے گزر چکی ہیں، آئے روز اخبار وغیرہ کے ذریعے ایسی عجیب و غریب خبریں سننے ،پڑھنے کو ملتی ہیں کہ عقل جنہیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتی ، کبھی باپ بیٹا ،بیٹی اور بیوی کو قتل کر رہا ہوتا ہے تو کبھی ماں اپنے خاندان کو ہمیشہ کی نیند سلا رہی ہوتی ہے، کبھی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کے جنازے میں بینڈ باجے بجائے جارہے ہوتے ہیں تو کبھی بیٹی پیدا ہونے کے "جرم" میں سفاک باپ، ماں اور بیٹی دونوں کو موت کی گھاٹ اتار دیتا ہے الغرض چار دانگ عالم میں جہالت کی تیرگی نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں۔

3: اگلوں پر لعنت کرنا:

آج کل آپ کو ایسے لوگ بکثرت ملیں گے جو کسی نہ کسی بات کو بنیاد بنا کر اپنے بڑوں کے بارے میں اول فول بکتے ہوں گے بلکہ یہ لوگ اتنے گر چکے کہ اسلام کی بزرگ ہستیاں مثلاً صحابہ کرام و اہل بیت اطہار علیہم الرضوان تک کو بھی نہیں چھوڑتے ، آئے روز بسیار گوئی اور دشنام طرازی سے آلودہ کلپس کہیں نہ کہیں سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

4: مسجد میں شور شرابہ کرنا:

آئے روز مساجد سے شور و غل کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، کسی نہ کسی بات کا سہارا لے کر خوب غل غپاڑہ کیا جاتا ہے ، کبھی شرارتی بچوں کو سمجھانا ہو تو پوری مسجد کو سر پر اٹھا لیں گے ، وضو خانے میں پانی ختم ہو جائے تو مسجد کی ادب کو پس پشت ڈال کر جم کے واویلا کریں گے۔

5: وقت میں برکت نہ ہونا:

یعنی وقت بہت جلد گزرے گا حتی کہ سال مثل مہینہ کے ، مہینہ مثل ہفتہ کے ، ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا گزرے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی یعنی وقت بہت تیزی سے گزرے گا۔

اللہ پاک ہمیں قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین


  بیشک زمین وآسمان اور جن و انس وملک سب ایک دن فناہونے والے ہیں صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لیے ہمیشگی وبقا ہے۔ دنیاکے فناہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی۔

نمبر 1۔ تین خسف ہوں گے یعنی آدمی زمین میں دھنس جائیں گے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں تیسراجزیرہ عرب میں۔

نمبر 2۔ علم اُٹھ جائے گا یعنی علمااٹھالیےجائیں گے یہ مطلب نہیں کہ علما تو باقی رہیں اور ان کے دلوں سے علم محو کردیا جائے ۔

نمبر 3۔ جہل کی کثرت ہوگی نمبر 4 زناکی زیادتی ہوگی اور اس بے حیائی کے ساتھ زناہوگا جیسے گدھے جفتی کھاتے ہیں بڑے چھوٹے کسی کا لحاظ پاس نہ ہوگا۔

نمبر 4۔ مردکم ہوں گے اور عورتیں زیادہ یہاں تک کہ ایک مردکی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی ۔

نمبر 5۔ علاوہ اس بڑے دجال کے اور تیس دجال ہوں گے کہ وہ سب دعویٰ نبوت کریں گے حالانکہ نبوت ختم ہو چکی جن میں بعض گزر چکے جیسے مسلیمہ کذاب، طلحیہ بن خویلد، اسود عنس سجاح عورت کہ بعد کو اسلام لےآئی۔

نمبر 6۔ مال کی کثرت ہوگی نہرفرات اپنے خزانے کھول۔ دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑیوں گے۔

نمبر 7۔ ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہوجا ئیں گی۔

نمبر 8۔ دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہوگا جیسے مٹھی میں انگارا لینا یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں۔ جاکر تمنا کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں ہوتا۔

نمبر 9۔ وقت میں برکت نہ ہو گی یہاں تک کہ سال مہینے کے اور مہینے مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا ہوجائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی یعنی بہت جلد جلد وقت گزرےگا ۔

نمبر 10۔ زکوٰۃ دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ اس کو تاوان سمجھیں گے۔

نمبر 11۔ علم دین پڑھیں۔ گے مگر دین کے لیے نہیں۔

نمبر 12۔ مرد اپنی عورت کا مطیع ہوگا۔

نمبر 13۔ ماں باپ کی نافر مانی کرےگا۔

نمبر 14۔ اپنے ا حباب سے میل جو ل ر کھے گا اور باپ سے جدائی۔

نمبر 15۔ مسجد میں لوگ چلا ئیں گے۔

نمبر 16۔ ا گلوں پر لعنت کریں گے ان کو برا کہیں گے۔

نمبر 17۔ گانے باجے کی کثرت ہوگی ۔( بہار شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 116 تا 119)


قیامت کب قائم ہوگی؟

حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے ،نبیِّ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جب میری امت پندرہ کاموں کو کرے گی تو اس پر مَصائب کا آنا حلال ہو جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! وہ کیا کام ہیں ؟ ارشاد فرمایا:’’ جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے گا، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے گا، زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھ لیا جائے گا، جب لوگ اپنی بیوی کی اطاعت کریں گے اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں گے، جب دوست کے ساتھ نیکی کریں گے اور باپ کے ساتھ برائی کریں گے، جب مسجدوں میں آوازیں بلند کی جائیں گی، ذلیل ترین شخص کو قوم کا سردار بنا دیا جائے گا، جب کسی شخص کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کی جائے گی، شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والیاں اور ساز رکھے جائیں گے اور اس امت کے آخری لوگ پہلوں کو برا کہیں گے۔ اس وقت تم سرخ آندھیوں ، زمین کے دھنسنے اور مَسخ کا انتظار کرنا۔

(جامع الاصول، حرف القاف، الکتاب التاسع،، 10 / 384، الحدیث: 7925)

موجودہ دور میں پائی جانے والی قیامت کی 5 نشانیاں:

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امت نے اہلِ اسلام کو قیامت کے دن کی تیاری کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی نصیحتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ایسی علامات و اسباب کا بھی ذکر کیا جن کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں علاماتِ قیامت کہا جاتاہے۔ ان علاماتِ قیامت میں سے بہت سی علامات کا ظا ہر ہونا باقی ہے جبکہ موجودہ زمانہ میں بھی کچھ علامات ظاہر ہو گئی ہیں ان علامات میں سے چند یہ ہیں۔

(1)جھوٹے مد عیانِ نبوت دجالوں کا خروج۔

(2) قطع رحمی ، بری ہمسائیگی اور فسادات کا عام ہو جانا۔

(3) علم کا اٹھ جانا۔(علماء کرام کا انتقال ہو جاتا) اور جاہلوں کو اپنا پیشوا بنایا جا ئے گا،

(4) شراب کا عام ہو جانا۔

(5) وَقْت میں برکت نہ ہوگی۔

ان نشانیوں کی تفصیل یہ ہے:

(1)جھوٹے مد عیانِ نبوت دجالوں کا خروج:

قیامت کی علامات اور نشانیوں میں سے جھوٹے دجالوں کا نکلنا ہے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے اور اپنے سر کردہ قائد کے ساتھ فتنے کو ہوا دیں گے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ان کی تعداد تیس (30) کے قریب ہے ۔

فرمایا :لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ»(صحيح بخارى 3413)

’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تیس کے قریب جھوٹے دجال نکلیں گے ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ ‘‘

اس نشانی کا وقوع ثابت ہوا اور یہ قیامت کی علامات میں سے ہے ۔ قدیم اور جدید زمانے میں بہت سے مدعیانِ نبوت نکلے او ریہ بعید نہیں کہ جھوٹے ، کانے دجال کے ظاہر ہونے تک ابھی او ر دجال ظاہر ہوں ۔ ہم دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہیں۔

(2) قطع رحمی ، بری ہمسائیگی اور فسادات کا عام ہو جانا:

موجودہ دور میں قیامت کی جو نشانیاں پائی جاتی ہیں ان میں قطع رحمی ، بری ہمسائیگی اور فواحش و فسادات کا عام ہونا بھی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص کی روایت اس بارے میں رہنمائی کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت ہی آئے گی جب فواحش ومنکرات اور قطع رحمی و بری ہمسائیگی عام ہو جائے گی ۔ (مسند احمد : 10 ۔26تا31)

جس بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی تھی وہ پوری ہوچکی چنانچہ ہم اپنی آنکھوں سے آج لوگوں کے درمیان فسادات ، قطع رحمی اور ہمسائیگی کا برا سلوک دیکھ رہے ہیں ۔ محبت کی جگہ بعض و نفرت نےلے لی ہے آج پڑوسی پڑوسی کو پہچانتا ہی نہیں ، عزیز واقارب ایک دوسرے کی موت و حیات سے بے خبر ہیں ۔ ان کی باہمی رویوں پر ہم حسبناالله ونعم الوكيل ہی کہہ سکتےہیں ۔ جب کہ قرآن وسنت میں قطع رحمی پر بڑی تنبیہ کی گئی اور اسے جنت سے محرومی و دوری کا سبب قرار دیا گیا ہے ۔

قرآن کریم میں ہے :

فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲)

ترجَمۂ کنزُالایمان:تو کیا تمہارے یہ لچھن(انداز) نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو۔(پ 26،سورہ محمد :22 )

اورحضرت ابوبَکْرَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سرکشی اور رشتے داری توڑنے سے بڑھ کر کوئی گناہ اس بات کا مستحق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزادنیا میں جلد دیدے اور اس کے ساتھ اس کیلئے آخرت میں بھی عذاب کا ذخیرہ رہے۔ (یعنی یہ دونوں گناہ دنیا میں جلد سزا اور آخرت میں عذاب کے زیادہ مستحق ہیں ۔)

(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ... الخ، 57،باب، 4 / 229، الحدیث: 2519)

(3) علم کا اٹھ جانا اور جاہلوں کو اپنا پیشوا بنایا جا ئے گا:

مسندِ احمد میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ ان میں تین چیزیں ظاہر نہ ہوجائیں:(1)علم کا قبض ہونا(2)ولدالزنا کی کثرت اور (3)صقارون، عرض کی گئی یارسول اللہ ! صقارون کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ آخری زمانہ کے لوگ ہیں جن کی باہم ملتے وقت کی تحیت ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہوگی۔“(مسند احمد جلد 24، صفحہ 391، حدیث: 15628)

جس بات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی تھی وہ پوری ہوتی نظر آ رہی ہے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آئے دن کوئی نہ کوئی عظیم و جلیل القدر عالم دین دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔اس حدیث پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیامت کی یہ نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے اٹھ جانے کی کیفیت اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:”اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا “ یعنی اﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور(دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔( بخاری، 1/54حدیث:100)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ کریم لوگوں کو علم دینے کے بعد ان سے واپس نہیں کھینچتا، بلکہ علماء کو لےجاتاہے، پس جب بھی کسی عالم کو لے جاتاہے تو اس کے ساتھ اس کا علم بھی چلاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ باقی رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہ ہوگا پس وہ گمراہ ہوں گے۔

(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 32)

(4) شراب کا عام ہو جانا:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا، زنا عام ہو گا اور شراب پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی حتّٰی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، 3 / 472، الحدیث: 5231)

موجودہ زمانہ میں مسلمان شراب کے عادی ہو تے جا رہے ہیں اگر شراب ہونے والوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے تو جواب دیتے ہیں ہم اپنے پیسوں کی پیتے ہیں اس لئے ہمیں کچھ بھی کہنے کو ضرورت نہیں! نیز شراب پینے والے اس فعل حرام کو برا بھی نہیں جانتے، کہتے نظر آتے ہیں شراب ہی تو پی ہے اور تھوڑی کچھ کیا ہے ۔ العیاذ باللہ

(5) وَقْت میں برکت نہ ہوگی:

قربِ قیامت سال مہینہ کی طرح، مہینہ ہفتہ کی طرح، ہفتہ دن کی طرح، دن ایک ساعت کی طرح اور ایک ساعت (ماچس کی تیلی وغیرہ سے) آگ جلنے کی طرح ہوجائے گا یعنی: وقت کی برکت ختم ہوجائے گی اور یہ گناہوں کی کثرت اور ان کی نحوست کی وجہ سے ہوگا، چنانچہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتّٰی کہ زمانہ جلد جلد گزرنے لگے گا۔ سال ایک ماہ کی طرح گزرے گا۔مہینہ ہفتہ کی طرح گزرے گا۔ ہفتہ ایک دن کی طرح، ایک دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ کی چنگاری کی طرح گزر جائے گا۔

(ترمذی، کتاب الفتن، 4 / 148، الحدیث: 2339)


بلاشبہ ایک دن زمین و آسمان اور تمام مخلوقات نے فنا ہو جانا ہے، اس دن کا ایک نام قیامت ہے  اور صرف اللّٰه تعالٰی وحدہ لاشریک کی ذات عالی باقی رہے گی جس کیلئےہمیشگی وبقا ہے۔جس طرح موت سے پہلے بیماری، شدّت درد وغیرہ موت کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں اسی طرح قیامت قاٸم ہونے سے پہلے بھی نشانیاں ظاہر ہونگی جو کہ احادیث میں وارد ہیں۔ان نشانیوں میں سے چند ایک فی زمانہ بھی پاٸی جاتی ہیں، جیسا کہ

1)علم کا اٹھالیا جانا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا" ( صحیح بخاری ، الحدیث 5231 ،ج3،ص472)

علم کے اٹھنے سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے۔ اگر تقریباً آخری دہائی میں دیکھا جائے تو کثیر علماء اس فانی دنیا سے چل بسے۔جبکہ عالِم کی موت عالَم کی موت ہے۔ گویا کہ علماء کی قلت ہونا قیامت کے برپا ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔

2)جہل کی کثرت:

مذکورہ حدیثِ پاک میں مزید فرمایا ”اورجہالت کی کثرت ہوگی " (ایضاً)یعنی لاشعوری اور لا دینیت عام ہوجائے گی ۔ یہ نشانی بھی بہت شدت سے ظاہر ہے ۔ کہ اگر ہزار بندوں سے نماز کی شرائط اور فرائض کا پوچھا جائے تو سینکڑوں کو علم نہ ہوگا ۔ بلکہ بیشتر حضرات تو غسل کا صحیح طریقہ بھی نا جانتے ہوں گے ۔

3) زنا کی زیادتی :

مذکورہ حدیثِ پاک میں آگےفرمایا ”اور زنا کثرت سے ہوگا" (ایضاً)یہ نشانی بھی اس حد تک پائی جا رہی ہے کہ جگہ جگہ فحاشی و زنا کے اڈے قائم ہوگئے ہیں جن کو روکنے اور بند کرنے والا کوئی نہیں ۔ اور سرِ عام دن دہاڑے لوگ اس فعلِ بد میں مبتلا ہیں جس کا ریشو(فیصد) آئے دن بڑھتاجا رہا ہے۔

4)گانے باجے کی کثرت:

حضور نبی غیب دان صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ" گانے والی عورتیں اور (قسم قسم) کے باجے ظاہر ہونگے۔"

(سنن ترمذی، الحدیث 2218،ج4،ص9)

فی زمانہ ہر خوشی کے موقع پر آلاتِ موسیقی والوں، گوئیوں، میراثیوں، ناچنے اور گانے والیوں کو بلایا جاتا ہے۔ گویا کہ ہر محفل کا لازمی جز ٕ ہو گیا ہے۔ اور والدین کااس قدر برا حال ہے کہ اپنے بچوں کورونے سے چپ کرانے کی لئے گانے باجے کے مختلف آلات کھلونوں یا موبائل وغیرہ تھما دیتے ہیں ۔

5)اگلوں پر لعنت:

اسی حدیث پاک میں مزید فرمایا کہ" امت کے پچھلے (یعنی بعد میں آنے والے) اگلوں پر لعنت کریں گے، ان کو برا بھلا کہیں گے"(ایضاً)یہ نشانی بھی دیکھی جا رہی ہے کہ بعض بے شعور اور نادان لوگ صحابہ و اہلیبیتِ عظام اور اولیا ٕ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو برا بھلا بکتےاور سب و شتم کرتے ہیں۔ اور انکی دینی خدمات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ان میں عیب تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں ان تمام نحوستوں سے محفوظ رکھے اور خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔ آمین