اس
ذاتِ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نے ہمیں ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔
وہ ذات کہ جس نے تخلیقِ انسان کے ساتھ ساتھ اس
کی تربیت، رہن سہن اور زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بھی عطا فرمائی۔
اس ربِّ ذوالجلال نے اپنے بندوں کو جہالت اور
ضلالت ( گمراہی) سے بچانے اور اپنی بندگی کے احکام انسان تک پہنچانے کے لیے کم و
بیش سوا لاکھ پیغمبر صحیفوں اور کتابوں کے ساتھ بھیجے ۔
جب ربِّ غفَّار عزوجلّ نے خاتَمُ النَّبِیِّین
خاتم المُرسَلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بندوں کی طرف مبعوث فرمایا
تو کتابِ عظیم قرآنِ کریم عطا فرمائی۔اور ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ
وسلم نے وہ تمام احکام (جو اللہ عزوجل نے عطا فرمائے) بندوں تک پہنچا دیئے اور بد
دینی کے گڑھے سے نکالا ۔ لیکن اس دنیا کے آخری زمانے میں (قُربِ قیامت) گمراہی، بد
دینی پھر سے پھیلنا شروع ہو گی اور آہستہ آہستہ اسلام کی روشنی بجھتی چلی جائے گی ۔
قیامت سے پہلے کچھ علامات کا ظہور ہوگا جن میں
سے بعض تو زمانۂ حال میں ظاہر ہو چکی ہیں اور عروج پا رہی ہیں۔
موجودہ
دور میں پائی جانے والی کچھ نشانیاں ذکر کرتے ہیں۔
(1):
دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہو گا جیسے مٹھی میں انگارا لینا، یہاں تک کہ آدمی
قبرستان میں جا کر تمنا کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں ہوتا۔ ( بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 118)
(2):
ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)
(3):
گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)
واقعی
آج اکثر جگہوں پر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس طرف جائیں گانے چلائے ہوتے ہیں۔
دکانوں،گاڑیوں، گھروں حتیٰ کہ شادی بیاہ کے موقع پر تو اکثر لوگوں نے گانے باجے کو
رواج بنا لیا ہے۔
(4):
اگلوں پر لوگ لعنت کریں گے، ان کو برا کہیں گے۔
(فیضانِ فرض علوم حصہ اول صفحہ 86)
یہ حقیقت ہے کہ آجکل لوگ اکثر اپنے بڑوں پر لعن
طعن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
(5):
علم اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ علماء تو باقی
رہیں گے اور ان کے دلوں سے علم محو کر لیا جائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم، الحدیث 100)