
آپ رضی اللہ
عنہا کا نام فاطمہ لقب زہرا اور بتول ہے، آپ
کا بچپن شریف اور زندگی کا ہر لمحہ نہایت ہی پاکیزہ تھا، کیونکہ آپ نے حضور نبی
کریم ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی آغوش رحمت میں تربیت
پائی، آپ دن رات اپنے والدین کی پاکیزہ زبان سے پاکیزہ اقوال سنتی تھیں، آپ نہایت
عبادت گزارمتقی اور پاکباز تھیں۔ اس لیے آپ کو زاہدہ، عابدہ اور طاہرہ کے القابات
سے پکارا جاتا ہے۔ (سفینہ نوح ص 14، 15)
خاتون
جنت سے حضور انور کی محبت: رحمت للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوارہ جو اسے پسند وہ مجھے
پسند،روز محشر سوائے میرے سبب اور میرے رشتوں کے تمام نسب منقطع ہو جائیں گے۔ (مستدرک
للحاکم، 4/144، حدیث: 4801)
سرور کونین ﷺ جب
کبھی سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں دو رکعت ادا فرماتے اس کے بعد پہلے
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر، پھر ازواج کے گھر تشریف لے جاتے۔ (معجم کبیر، 9/264،
حدیث:18042)
حضور
ﷺ کا نسب بیٹی سے کیوں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا ہر بیٹے
کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے سوائے اولاد فاطمہ کے چونکہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں
اور ان کا نسب بھی میں ہوں ایک مرتبہ سرور کونین ﷺ نے مولا علی رضی اللہ عنہ اور
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر ان کی دل جوئی فرمائی مولا علی
رضی اللہ عنہ نے عرض کی آپ ﷺ کو فاطمہ پیاری ہے یا میں؟ یہ سن کر سرکار کریم ﷺ نے
فرمایا:وہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22،
حدیث: 38)
اللہ اللہ! ساری
دنیا فخر موجودات ﷺ سے محبت کرتی ہے اور فخر موجودات رحمت للعالمین ﷺ خاتون جنت
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت فرماتے ہیں اور جس کو محبوب رحمت للعالمین
ﷺ چاہیں ان کی عظمتوں کا تو کوئی بیان ہی نہیں کر سکتا۔
سرور عالم ﷺ کو
سیدنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بےحد محبت تھی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی
حضور ﷺ سے والہانہ محبت کرتی تھیں، چنانچہ
خادم رسول
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے برابر کسی کو
اپنی اولاد سے محبت کرتے نہیں دیکھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا آتیں تو نبی کریم ﷺ ازراہ محبت
کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی
جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی
کھڑی ہو جاتیں بے حد محبت اور عقیدت سے آپ ﷺ کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر
بٹھاتی تھیں۔(ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
اللہ کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے صدقے ہمیں بھی نبی کریم ﷺ
کی محبت میں سے کچھ حصہ عطا فرما اور حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت کو
اپنانے کی توفیق عطا فرما۔

خاتون جنت
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش علان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی۔آپ رضی اللہ عنہا
نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ کا نام
مبارک فاطمہ اور لقب زہراء اور بتول ہے۔
آپ کا وصال ظاہری 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو ہوا۔
نبی کریم ﷺ کا
فرمان ہے: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور ایک
روایت میں ہے: ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشكوة
المصابیح، 2/436، حديث: 6139) ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوا کہ
نبی کریم ﷺ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت کرتے ہیں کہ آپ کو
اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور فرمایا کہ آپ کی خوشی میں میری خوشی ہے آپ کی ناراضی کو
اپنی ناراضی قرار دیا۔ یہاں ان کے لیے غور کا مقام ہے جو آپ کی ذات مبارکہ یا آپ کی
اولاد مبارکہ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو بلند آواز سے
سلام کرتے میں جواب دیتی مگر آپ دروازے پر کھڑے رہتے پھر میں مسکراتی اور فاطمۃ رضی
اللہ عنہا کو آواز دیتی اور کہتی کہ آپ کے والد تشریف لائے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا
دوڑ کر جاتی اور دروازہ کھولتی اور آپ ﷺ کی انگلی مبارک پکڑ کر گھر میں لاتی۔ حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تک حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا دروازے
پر نہیں جاتی تھیں آپ گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔
دیکھا آپ نے
کے نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے کہ جب تک آپ دروازے
پر نہیں آتی تھیں آپ ﷺ گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔
مشکاۃ شریف کی
حدیث میں ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ ﷺ کو سب سے
زیادہ کس سے پیار تھا ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ پیار
حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے تھا۔ (ترمذی، 5/ 701، حدیث: 3874)
ایک روایت میں
ہے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہو
جاتے اور آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مبارک چومتے اور آپ رضی اللہ عنہا کو اپنی جگہ
پر بٹھا دیتے۔ ذکر کردہ روایت میں دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ
عنہا سے کتنی محبت فرماتے کہ آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے اور ہاتھ چومتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
حضور کے غلام
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے
آخر میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملتے ہوئے سفر پر جاتےاور سفر سے
واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ہی سے ملاقات کرتے پھر
اپنے گھر تشریف لے جاتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
رسول خدا ﷺ
گھر سے باہر نکلے، اس حالت میں کہ آپ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا
ہاتھ مبارک پکڑا ہوا تھا، پھر آپ نے فرمایا کہ: جو بھی اسکو پہچانتا ہے، وہ تو
پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا تو وہ اسکو جان لے کہ یہ فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی
ہے، وہ میری دل و جان اور میرے بدن میں موجود میری روح ہے۔ (الفصول المہمۃ: ص 146)
نبی کریم ﷺ
حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کس قدر پیار و محبت فرماتے کہ آپ کو اپنی جان
و دل کہا اور آپ رضی اللہ عنہا کو اپنی روح کہا۔
رسول خدا ﷺ نے
فرمایا ہے: فاطمہ میرے جسم کا ایک بال ہے، پس جس نے میرے بدن کے بال کو اذیت کی تو
اس نے مجھے، اذیت کی ہے اور جس نے مجھے اذیت کی تو اس نے اللہ پاک کو اذیت کی ہے
اور جو اللہ پاک کو اذیت دے گا تو اللہ پاک اسکو زمین اور آسمان کے برابر لعنت کرے
گا۔ (حلیۃ الاولياء، 2/40)
اس حدیث
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی تکلیف نبی کریم ﷺ کی
تکلیف ہے اور نبی کریم ﷺ کی تکلیف اللہ پاک کی تکلیف ہے تو جو ان کو تکلیف دے گا
تو اللہ پاک اس کو رسوا کردے گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت خاتون جنت
سے فیض یاب ہونے کے توفیق عطا فرمائے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت عبدالوسیم بیگ، جامعۃ المدینہ نارتھ کراچی

آپ کا نام
مبارک فاطمہ لقب زھراء اور بتول ہے آپ کا بچپن شریف اور زندگی کا ہر لمحہ ہی نہایت
ہی پاکیزہ تھا کیونکہ آپ کا بچپن حضور کریم ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری
رضی اللہ عنہا کی آغوش رحمت رحمت میں گزرا۔ آپ اخلاق و عبادات کردار میں نبی پاک ﷺ
سے بہت مشابہت رکھتی تھی، ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا
سے بے پناہ محبت فرمانے والے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے
رسول الله ﷺ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادت و
اطوار سیرت و کردار میں آپ کی مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔ (ابو داود، 4/454،
حدیث: 5217)
پیارے آقا ﷺ حضرت
فاطمہ رضی الله عنہ سے اس قدر محبّت کرتے کہ جب آپ پیارے آقا کی خدمت اقدس میں
حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس پر بوسہ
دیتے اور اپنی جگہ بیٹھا لیتے اور اسی طرح حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی کیا کرتیں
کہ جب حضور ﷺ آپ کے پاس تشریف لاتے تو آپ کھڑی ہوجاتی ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتیں اور
انکو اپنی جگہ بیٹھا لیتیں۔
پیارے آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا: فاطمہ جنّت کی عورتوں کی سردار ہیں اور یہی سب سے پہلے جنّت میں داخل
ہونگی۔
صحیح بخاری میں
ہے نبی کریم روف الرحیم فرماتے ہیں کہ فاطمہ خواتین امّت کی سردار ہیں فاطمہ میرے جگر
کا ٹکڑا ہیں جس نے انہیں تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اس نے
الله کو تنگ کیا اور قریب ہے الله اسکا مواخذہ کرے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
حضرت ثوبان سے
روایت ہے فرماتے ہیں: حضور ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سب سے
بعد میں جس سے گفتگو فرما کر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اور واپسی پر سب سے
پہلے جس کے پاس تشریف لے جاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا ہوتیں کیا شان ہے
بی بی فاطمہ رضی الله عنہا کی کہ ساری دنیا حضور ﷺ سے محبت کرتی ہے اور پیارے آقا ﷺ
اپنی صاحبزادی زہراء بتول سے بے حد محبت فرماتے ہیں جن کی عظمتوں اور رفعتوں کا
کیا ہی کہنا ہے۔
حضرت جمیع بن
عمیر تیمی سے روایت ہے کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمرا حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر
ہوا اور پوچھا حضور نبی اکرم ﷺ کو کون زیاده محبوب تھا ؟ ام المومنین نے فرمایا:
فاطمہ۔ عرض کیا: مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا: ان کے شوہر۔ جہاں تک
میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے۔ (ترمذی،
5/468، حدیث: 3900)
حضرت ابو سلمہ
بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید نے مجھے بتایا کہ میں ایک دن بیٹھا
ہوا تھا کہ حضرت علی اور حضرت عبّاس رضی الله عنہما تشریف لائے، انہوں نے کہا
اسامہ ہمارے لئے حضور ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگیں۔ عرض کی: یا رسول الله ﷺ حضرت
علی اور حضرت عبّاس اندر آنے کی اجازت مانگتے ہیں آپ نے فرمایا: جانتے ہو وہ کس کام
سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کی نہیں آپ نے فرمایا: میں جانتا ہوں انہیں اندر آنے دو، چنانچہ
دونوں حضرات داخل ہوئے انہوں نے عرض کی یا رسول الله ﷺ ہم یہ بات جاننے کے لئے
حاضر ہوئے کہ اہلِ بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ بنت
محمد۔
ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی کہ یا
رسول الله ﷺ آپ کو فاطمہ اور مجھ میں کون زیادہ عزیز ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ مجھے
تم سے پیاری ہے اور تم میرے نزدیک فاطمہ سے عزیز ہو۔ (خاتون جنّت، ص 48)
حضرت مسور رضی
الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز
سے فاطمہ کو خوشی ہوتی ہے اس سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے فاطمہ کو تکلیف
ہوتی ہے اسے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ (حلیہ الاولیاء، 3/48)
حضور اکرم ﷺ حضرت
سیدہ فاطمہ زہراء رضی الله عنہا کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے اور تقریبا روز آپ
کے گھر آپ کی خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے آپ کو کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور فرماتے
اگر حضور ﷺ کے گھر کوئی چیز پکتی تو کچھ نہ کچھ ضرور فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر
بھجواتے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت طفیل الرحمان ہاشمی، جامعۃ المدینہ نارتھ کراچی

کل کائنات میں
قدرت کا سب سے حسین شاہکار ذات مصطفی ﷺ ہیں آپ کا وجود مسعود وجہ تخلیق کائنات ہے،
آپ بشریت اور نورانیت کے حسین امتزاج ہیں، آپ ﷺ کی ذات، وہ ذات مبارکہ ہے جو تمام
مسلمین کے لیے واجب المحبت ہے۔ آپ ﷺ کا مقام ورفعنا لك ذكرك ہے،پھر وہ مبارک ہستی
جن کا ممدوح کائنات ﷺ کی نگاہ ناز میں مقام و مرتبہ ہے،جن سے حضور ﷺ کو بے پناہ و
بے مثل محبت ہے، جو تسکین ذات مصطفی ﷺ ہے،جو راحت جان مجتبیٰ ہیں، جو جگر گوشہ
رسالت خیر الورٰی ہیں، جو تصویر حسن صل علیٰ ہیں، جو نور نظر سیدہ ہیں، جو قرار
جانب سرورا ہیں، جو باعث انبساط سید الانبیاء ہیں، جو شبیہ وجہ مصطفی ہیں، جو قد و
قامت رسول کا عکس جمیل ہیں، وہ مبارک ذات سیدہ، طیبہ، طاہرہ، عابدہ، زاہدہ، خاتون
جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی سب سے
چھوٹی، چہیتی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔
حضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا حصہ (یعنی ٹکڑا) ہے جو اسے ناگوار وہ مجھے
ناگوار، جو اسے پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے
ازدواجی رشتوں کے تمام نصب منقطع (یعنی ختم)ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144،
حديث:4801)
پیارے آقا ﷺ
نے فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی
سردار ہیں۔ مزید فرمایا:فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا
اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے: ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکاۃ
المصابیح، 2/436، حديث: 6139)
سبحان الله!
کیا ہی کمال درجے کی محبت ہے کہ شہزادی کی پسند آپ ﷺ کی پسند، ان کی تکلیف آپ کی
تکلیف، جو انہیں ناپسند ہو وہ آپ کو ناپسند، حضور ﷺ کی مبارک محبت کا پیارا انداز
یہ ہوتا کہ جب آپ رضی اللہ عنہا کو آتے دیکھتے تو خوشی سے کھڑے ہو جاتے آپ کو پیار
کرتے محبت سے اپنی جگہ پر بٹھاتے چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں:
میں نے چال
ڈھال،شکل و شباہت (رنگ روپ) اور بات چیت میں فاطمہ عفیفہ (رضی اللہ عنہا) سے بڑھ
کر حضور نبی اکرم ﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی
بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے،
آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے، اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب
حضور انور ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے جاتے تو آپ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی
تعظیم کے لیے قیام فرماتیں، آپ ﷺ کی مبارک ہاتھوں کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر
بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
صحابی رسول
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے
تو سب سے آخر میں حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب
سفر سے واپسی تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك
للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
ایک مرتبہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی: حضور ﷺ کو کون سب سے
زیادہ محبوب تھا ؟ فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا،پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے؟
فرمایا: ان کے شوہر، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے اور کثرت سے
قیام کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حدیث: 3900)
معجم کبیر اور
مستدرک للحاکم میں سرکار دو عالم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جب میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو فاطمہ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔
(مستدرك للحاكم، 4/120، حديث: 4791)
بتول
و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا کہ
دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنت کی نکہت کا
مسلمانوں کے
چوتھے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بار حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہ کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی
کو حضور اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والد محترم کے بعد
لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیزو پیارا نہیں۔ (مستدرك للحاكم، 4/139،
حديث:4789)
حضور علیہ
الصلوۃ والسلام کی اپنی شہزادی سے بےمثل محبت کا بخوبی اندازہ اس بات سے بھی ہوتا
ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے ہی سے اپنی شہزادی کو باخبر کر دیا تھا کہ میرے گھر والوں میں
سب سے پہلے تم (وفات پا کر) مجھ سے ملو گی۔ (حلیۃ الاولياء، 2/50، حديث: 1443)

سیدہ،
زاہرہ، طیبہ، طاہرہ جان احمد کی راحت
پہ لاکھوں سلام
ہم شکلِ مصطفی،جاں
پارہ مصطفی،جگر گوشہ مصطفی، راحت جان مصطفی،سیدہ و عابدہ،طیبہ و طاہرہ،فاطمہ
الزہرا رضی اللہ عنہا حضور جان عالم ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ ﷺ اپنی
شہزادی حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی الله عنہا سے بےحد محبت فرماتے تھے، چنانچہ
حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً بابنتی یعنی خوش
آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507،
حدیث: 3623)
تمام مسلمانوں
کی پیاری امی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ، طیبہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے چال ڈھال، شکل وصورت اور بات چیت میں بی بی فاطمہ سے بڑھ کر کسی کو حضور
اکرم ﷺ سے مشابہ (یعنی ملتی جلتی) نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو
جاتے، ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور پرنور ﷺ
بی بی فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں
اور پیارے آقاﷺ کے مبارک ہاتھ کو تھام کر چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود،
4/454، حدیث:5217)
رسول
اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا
نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
نبی پاک ﷺ جب
نماز کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر سے
گزرتے اور گھر سے چکی کے چلنے کی آواز سنتے تو بار گاہ رب العزت میں دعا کرتے: یا
ارحم الراحمین! فاطمہ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالت فقر
میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ (سفینہ نوح، حصہ: دوم، ص 35)
صحابی رسول
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ
فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے
اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔
(مستدرک للحاکم، 4/141، حدیث: 4792)
حضرت علی
المرتضی کرم الله وجہہ الكريم فرماتے ہیں: ایک انتہائی ٹھنڈی اور شدید سرد صبح
رسولِ خدا محمد مصطفى ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے آپ نے ہمیں دعائے خیر سے نوازا اور
پھر حضرت فاطمہ سے تنہائی میں پوچھا: اے
میری بیٹی ! تو نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ جواب دیا: وہ بہترین شوہر ہیں۔ پھر آپ ﷺ
نے حضرت علی کو بلا کر ارشاد فرمایا: اپنی زوجہ سے نرمی سے پیش آنا، بے شک فاطمہ
میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے دکھ دے گی مجھے بھی دکھ دے گی اور جو اسے خوش کرے
گی مجھے بھی خوش کرے گی، میں تم دونوں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم دونوں کو
اس کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ اس نے تم سے ناپاکی دور کر دی اور تمہیں پاک کر کے خوب
ستھرا کر دیا۔
حضرت علی
المرتضی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! اس حکم مصطفیٰ کے بعد میں نے نہ تو کبھی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا پر غصہ کیا اور نہ ہی کسی بات پر انہیں ناپسند کیا یہاں تک کہ
اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا، بلکہ وہ بھی کبھی مجھ سے ناراض نہ ہوئیں اور نہ
ہی کسی بات میں میری نافرمانی کی اور جب بھی میں ان کو دیکھتا تو وہ میرے دکھ درد
دور کرتی دکھائی دیتیں۔ (الروض الفائق، ص 278
ملخصاً)
ایک مرتبہ
رسول الله ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر ان کی دل جوئی فرمائی۔ حضرت علی المرتضی نے عرض
کی: يا رسول الله! آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22،
حدیث: 38)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مراۃ میں فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہا کے جسم سے جنت کی خوشبو
آتی تھی جسےحضور ﷺ سونگھا کرتے تھے۔ اس لئے آپ رضی اللہ عنہا کا لقب زہرا ہوا۔ (مراة
المناجيح، 8/453)
بتول
و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا کہ
دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنت کی نکہت کا
اے کاش! حضور ﷺ
کی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کا صدقہ ہمیں بھی محبت رسول اور محبت
اہل بیت نصیب ہو جائے۔

بابائے فاطمۃ
الزہرہ رضی اللہ عنہا جن پر ہماری کروڑوں جانیں فدا اپنی لاڈلی شہزادی کونین رضی
اللہ عنہا سے اس قدر محبت فرماتے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی
سے محبت کرکے ان تمام جاہلانہ رسوم و رواج کا خاتمہ کردیا جہاں بیٹی کو بوجھ اور
نفرت کے قابل سمجھا جاتا تھا آپ رحمۃ للعالمین بن کر اس دارفانی میں تشریف لائے
آپکی آمد سے پہلے ہر طرف جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے عورتوں کے ساتھ
کئے جانے والے سلوک کے تصور سے ہی انسانیت کانپ جاتی ہے اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا
ہو جاتی تو غم و غصّے کے مارے اسکا چہرہ سیاہ ہوجاتا غصے کی آگ بجھانے کے لئے اس
ننھی کلی کو زندہ دفن کردیا جاتا الغرض عورتوں پر ظلم کی انتہا اپنے عروج پر تھی
انکی بےبسی کا ان کے غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
ایسے میں بی
بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے وہ چاند چمکا جس نے سالوں سے جاری ظلم و ستم
کے اندھیروں کو اپنے نور سے بجھا دیا اور عورت کو وہ عزت و شرف اور بلند مقام عطا
فرمایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی آپ نے عورت کے ہر کردار یعنی بیٹی،بہن،ماں،بیوی
وغیرہ کے حقوق کا تحفظ کرکے ان پر رہتی دنیا تک کے لیے احسان عظیم فرمایا آپ محسن
نسواں بلکہ محسن انسانیت بن کر اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے آپ نے بیٹی سے
محبت کی عملی تفسیر پیش کی آپ نے بیٹی کو عظمت و رفعت سے نوازا جس کی جیتی جاگتی
مثال آپکی شہزادی کونین،بانوئے مرتضی،خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بے
انتہا محبت ہے کہ جنکی تعظیم کے لیے آپ بنفس نفیس کھڑے ہو جاتے ہاتھ چومتے اور
اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ (ابو داود،4/454، حدیث: 5217)
زہراء
جدوں وی آئیاں کھڑے ہو گئے رسول اینہوں
کہواں شفقت یا پیار فاطمہ
حضور جان عالم
ﷺ نے بیٹی کو رحمت کا درجہ عطا فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔
(مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
آپ کی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت مثالی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
سیدۂ
کائنات کے ساتھ پیارے آقا کا طرز عمل:ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے پاس جب حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا آتیں تو آپ ﷺ انکی طرف متوجہ ہوتے پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ
میں ان کا ہاتھ لے کر اسے بوسہ دیتے پھر انہیں اپنی جگہ بٹھاتے اسی طرح جب نبی
کریم ﷺ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو
جاتیں آپ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چومتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔
(ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
سب
سے زیادہ پیاری: حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا: حضور ﷺ حضرت علی اور
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے وہ بیٹھے ہنس رہے تھے جب انہوں نے
آپ کو دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے تھے جب مجھے
دیکھا تو خاموش ہو گئے حضرت فاطمہ جلدی سے عرض کرنے لگیں انہوں نے فرمایا میرے
والدین آپ پر فدا انہوں نے کہا کہ میں تم سے زیادہ آپ کو پیارا ہوں میں نے کہا کہ
میں تم سے زیادہ آپ کو پیاری ہوں یہ سن کر آپ ﷺ مسکرانے لگے فرمایا: نور نظر! تمہارے
لیے والد گرامی کی رقت ہے اور وہ مجھے تم سے زیادہ معزز ہیں۔ ایک اور روایت ہے کہ
اہل بیت میں مجھے سب سے زیادہ پیاری فاطمہ ہیں۔
حضور پاک ﷺ نے
حضرت فاطمہ سے فرمایا: رب تمہاری ناراضگی سے ناراض اور تمہاری رضا سے راضی ہو جاتا
ہے۔
یہ تمام
ارشادات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عظمت و رفعت کی دلیل ہیں۔
حضرت خدیجۃ
الکبری رضی اللہ عنہا کی لاڈلی شہزادی ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی جنت کی
عورتوں کی سردار ہیں آپ کی تربیت ایسی شخصیات کے ہاتھوں ہوئی جن کی بدولت وہ ایسے
اعلیٰ مراتب پر فائز ہوئی جن کا ثانی نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے آپ کے بابا جان کی آپ سے
بے مثال محبت نےرہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے بیٹی سے محبت کے تمام دریچے وا
کردئیے ہیں جن کی بدولت ہر بیٹی کو عظمت و رفعت حاصل ہوئی۔
اللہ پاک ہمیں
بھی اہل بیت اطہار کی محبت کے صدقے میں بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت شہزاد احمد، جامعۃ المدینہ دھوراجی کراچی

حضرت خاتون
جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ لاڈلی
شہزادی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کا نام فاطمہ اور لقب زہراء اور بتول ہیں۔
جان
رحمت سرور دو عالم ﷺ کی محبت: نانائے حسنین پیارے آقا ﷺ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت فرماتے تھے جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: جب آپ تشریف
لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحبا بابنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال
فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507، حدیث: 3623)
اسی طرح ایک
اور حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ
جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے
ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے
ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
پیارے آقا ﷺ حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت فرماتے تھے اس کا اندازہ آپ ﷺ کے فرامین سے
بھی لگایا جاسکتا ہے۔ جیساکہ
اللہ کےمحبوب ﷺ
نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میر اٹکڑا ہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا
اور ایک روایت میں ہے کہ جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو
انہیں تکلیف دے مجھے ستاتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے یا میرے گوشت کا ٹکڑا،اس
بناء پر جناب فاطمہ زہرا سب سے افضل ہیں بھلا حضور کے لخت جگر کے برابر کون ہوسکتا
ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
درس:
اس
حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کو سیکھنا چاہیے جو اہل بیت اطہار کے خلاف نازیبا کلمات
استعمال کرتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں اور یقینا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
بھی اہلِ بیت میں سے ہیں۔
چنانچہ رسول
الله ﷺ نے فرمایا کہ الله سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے
اور الله کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرواور میری محبت کے لیے میرے اہل بیت سے
محبت کرو۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی جان و مال سے زیادہ پیارے آقا ﷺ اور
آپکے اہل بیت سے محبت کرے۔
حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے چال، ڈھال، شکل و شباہت اور بات چیت میں فاطمہ
عفیفہ سے بڑھ کر کسی کو حضور ﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ آپ علیہ
الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے
ہوجاتے آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
رسول
اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا
نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
بارگاہ
مصطفی ﷺ میں محبوبیت: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر انکی دل جوئی فرمائی۔ حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا
میں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند
حمیدی، 1/22، حدیث: 38)
مبارک
خوشبو: حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے پیارے آقا ﷺ سونگھا
کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا لقب زہرا ہوا۔ (مستدرک للحاکم، 4/140، حدیث: 4791)
سیدہ
زاہدہ طیبہ طاہرہ جان احمد کی
راحت پہ لاکھوں سلام
یقینا ہر
مسلمان یہی چاہتا ہے کہ پیاے آقا ﷺ ہمیں پسند کریں ہمارے عمل سے خوش ہو تو اسے
چاہیے کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اہلبیت سےمحبت کرے انکے جیسے عمل کریں
کیونکہ ان سے محبت انکی پیروی ہی پیارے آقا ﷺ کو راضی کرنے کا سبب ہے۔ جیساکہ
پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا حصہ (ٹکڑا) ہے، جو اسے ناگوار وہ
مجھے ناگوار، جو اسے پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور
میرے ازدواجی رشتوں کے تمام نسب منقطع (یعنی ختم) ہوجائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144،
حدیث:4801)
نبی
کی لاڈلی، بیوی ولی کی، ماں شہیدوں کی یہاں
جلوہ نبوت کا ولایت کا شہادت کا
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت ارشد محمود، جامعۃ المدینہ چباں فیصل آباد

پیارے آقا ﷺ کی
چار بیٹیاں تھیں سب سے چھوٹی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا تھیں۔ پیارے
آقا ﷺ بیٹیوں سے بے پناہ محبت اور شفقت فرماتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی حضرت فاطمہ
الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت بے مثال تھی اور اس کے کئی واضح شواہد احادیث میں
موجود ہیں۔ ذیل میں کچھ اہم احادیث بمع حوالہ درج کی جارہی ہیں:
1۔ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے جگر کا ٹکڑا ہیں، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: فاطمہ
میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے خوش کرتی ہے اور جو چیز اسے اذیت
دے وہ مجھے اذیت دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
2۔ رسول اللہ
ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خاص محبت کرتے تھے۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
نبی ﷺ کے پاس آتی تھیں تو آپ کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑتے، بوسہ دیتے اور اپنی
جگہ پر بٹھاتے۔(ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
3۔ ارشاد
فرمایا: فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔
رسول اللہ ﷺ
کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کے اور بھی کئی واقعات اور احادیث کتب میں
موجود ہیں۔ ذیل میں مزید چند احادیث بیان کی جاتی ہیں:
4۔ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: فاطمہ میرے لیے سب سے عزیز ہے۔
5۔ رسول اللہ
ﷺ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے دعا کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ اور
حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لیے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ان دونوں میں برکت عطا
فرما، ان پر برکت نازل فرما، اور ان کی اولاد میں برکت عطا فرما۔
6۔ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کی چال و طرز گفتگو میں نبی ﷺ کو سب سے زیادہ مشابہ قرار دینا۔ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے فاطمہ سے زیادہ کسی کو چال، طرز اور گفتگو
میں رسول اللہ ﷺ سے مشابہ نہیں پایا۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
7۔ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کی آمد پر نبی ﷺ کا خاص برتاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آتی تھیں تو نبی ﷺ ان کا استقبال کرتے، ان کی پیشانی
چومتے اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے تھے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)
ان احادیث
مبارکہ سے ثابت ہوا کہ پیارے آقا ﷺ حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بے
پناہ محبت اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔
اللہ پاک ہمیں
بھی بیٹیوں کا ادب کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت محمد انور، جامعۃ المدینہ جھمرہ سٹی فیصل آباد

حضور ﷺ وجہِ
تخلیق کائنات ہیں اللہ پاک نے آپ کو ورفعنالک ذکرک کے منصب پر فائز فرمایا اور آپ کو
تمام اوصاف حمیدہ سے سرفراز فرمایا جو کہ شمار سے ورا ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
آپ کو اپنا محبوب اور برگزیدہ بندہ بنایا تو وہ ذات جو محبوب خدا کی نگاہ ناز میں
محبوب ہو اسکا تو بیاں ہی نہیں مولانا حسن رضا خاں اپنے نعتیہ دیوان ذوق نعت میں
کیا خوب فرماتے ہیں:
اللہ
کا محبوب بنے جو تمہیں چاہے اس
کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو
آئیے! حضور ﷺ کی
اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا سے محبت کی جھلکیاں ملاحظہ کیجیے
جو بزبان
مصطفیٰ ﷺ جگر گوشہ رسول ہیں اور گلشن رسالت کا مہکتا پھول ہیں اور جن کی ناراضی
رسول اللہ ﷺ کی ناراضی کا سبب ہے یہ حضور ﷺ کی سب سے لاڈلی اور چھوٹی شہزادی ہیں۔
حضور ﷺ نے ان
سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں اور سب
جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ مزید فرمایا: فاطمہ
میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے: ان
کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشكوة المصابيح، 2/436،
حدیث:6139)
سیده،
زاہرہ، طیبہ، طاہرہ جانِ
احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سفر
مصطفے کی ابتدا وانتہا: حضرت عبد الله ابن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں:
نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ الزہرا رضی الله
عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات
فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
آقا
شہزادی کونماز کے لئے بیدارکرتے: حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے
ہیں: چھ مہینے تک نبی اکرم ﷺ کا یہ معمول رہا کہ نماز فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی الله عنہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے: اے اہلِ بیت!
نماز، اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو ! کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے
اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔ (ترمذی، 5/142، حديث: 3217)
پارہ 16، سوره
طہ، آیت نمبر 132 میں ارشاد رب العلی ہے: وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ
وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے گھر والوں
کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ۔
مفسر شہیر،
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نور العرفان میں اس آیت
مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ گھر میں رہنے
والے تمام لوگ انسان کے اہل کہلاتے ہیں۔ بیویاں، اولاد، بھائی، برادر وغیرہ۔ دوسرے
یہ کہ نمازی کامل وہ نہیں جو صرف خود نماز پڑھ لیا کرے بلکہ وہ ہے جو خود بھی
نمازی ہو اور اپنے سارے گھر والوں کو نمازی بنا دے۔ تیسرے یہ کہ حکم نماز کی
نوعیتیں جداگانہ ہیں۔ چھوٹے بچوں اور بیوی کو مار کر نماز پڑھائے۔ بھائی برادر کو
زبانی حکم دے۔
(تفسير نور
العرفان، ص 386)
تصویر
مصطفی: ام
المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: میں نے چال ڈھال، شکل و شباہت (رنگ
روپ) اور بات چیت میں فاطمہ عفیفہ سے بڑھ کر کسی کو حضور نبی اکرم سے مشابہ نہیں
دیکھا اور جب حضرت فاطمہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور آپ کے استقبال کے
لئے کھڑے ہو جاتے، آپ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور
جب حضور پرنور ﷺ آپ کے پاس تشریف لے جاتے تو آپ حضور کی تعظیم کے لئے قیام فرماتیں،
آپ کے مبارک ہاتھوں کو تھام کر بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454،
حدیث: 5217)
رسول
اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا
نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
سبحٰن اللہ باپ
بیٹی کا کیسا محبت بھرا انداز ہے، معلوم ہوا بے شک حضور ﷺ کی زندگی ہماری رہنمائی
کے لیے مشعل راہ ہے لیکن افسوس آج ہم حضور ﷺ کی تعلیمات کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں
اولاد والدین کے حقوق سے اور والدین اولاد کے حقوق سے یکسر غافل ہو چکے ہیں۔ اے
کاش! ہم حضور ﷺ کی سنت کو اپنانے والے بن جائیں۔ آمین
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت ہدایت اللہ، جامعۃ المدینہ نندپور سیالکوٹ

خاتون جنت
سیدہ پاک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو زہد وتقوع، صبر وقناعت کی نعمت عظمی اپنے
بابا جان سید کائنات ﷺ کی تربیت سے ہی ملی تھی حضور ﷺ ساری کائنات کے والی ہوکر
سادہ طرز زندگی گزارتے،گھرکےکام کاج بنفس نفیس کرتے، گھریلو کاموں میں اہل خانہ کا
ہاتھ بٹاتے تھے، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان والا کےبارے میں حضور نبی رحمت
دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضب الٰہی ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے
رضائے الٰہی۔ (مستدرک للحاکم، 4/137، حدیث: 4783)
فاطمہ میرے
جسم کا حصّہ(ٹکڑا) ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند،
روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے ازدواجی رشتوں کے تمام نسب منقطع
(یعنی ختم) ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث:4801)
ایک حدیث
مبارک ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بھی میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو
فاطمہ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ (مستدرک للحاکم، 4/140،
حدیث: 4791)
مستدرک للحاکم
میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا: بےشک فاطمہ نے پاک
دامنی اختیار کی اور اللہ نے اس کی اولاد کو دوزخ پر حرام فرما دیا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 4/135،
حدیث: 4779)
فاطمہ تمام
جہانوں کی عورتوں اور سب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں۔ مزید فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا
ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور ایک روایت میں ہے، ان کی پریشانی
میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/436،
حدیث: 6139)

آقا کریم ﷺ اپنی
پیاری لاڈلی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت فرماتے تھے
چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو حضور علیہ السلام
آپ کا مرحبا با بنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے
ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507، حدیث: 3623)
مسلمانوں کے
چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض
کی! یارسول اللہ ﷺ آپ کو وہ (حضرت فاطمہ) مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ تو نبی
کریم ﷺ نے بڑا ہی خوبصورت جواب ارشاد فرمایا ؟ وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے
زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)
خادمِ نبی
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ آقا ﷺ نے پوچھا کہ عورتوں کے لئے کس
چیز میں بھلائی ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں ہم نہیں جانتے
کہ ہم کیا جواب دیں؟ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضرت فاطمۃ الزہرا کے پاس
تشریف لے گئے اور انہیں اس کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فرمایا: آپ نے رسول اللہ
ﷺ سے یہ کیوں نہ عرض کی کہ عورتوں کے لیے بھلائی اس میں ہے کہ وہ (غیر محرم) مردوں
کو نہ دیکھیں اور نہ ہی (غیر محرم) انہیں دیکھیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر یہ بات بتائی آپ ﷺ نے پوچھا یہ بات تمہیں کس نے بتائی
عرض کی فاطمہ نے تو سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ (مسلم، ص
1021، حدیث: 6307)
بی بی فاطمۃ الزہرا کے لیے دعائے رحمت: نبی
کریم ﷺ جب نماز کے لیے تشریف لاتے اور راستے میں حضرت سیدہ کے مکان سے گزرتے اور
گھر سے چکی کے چلنے کی آواز سنتے تو بارگاہ رب العزت سے دعا کرتے: یا ارحم
الراحمین ! فاطمہ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالت فقر میں
ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ (سفینہ نوح، حصہ: دوم، ص 35)
تمام مسلمانوں
کی پیاری امی جان حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے
چال، ڈھال، شکل وصورت اور بات چیت میں بی بی فاطمۃ الزہرہ سے بڑھ کر کسی کو حضور
علیہ السلام سے مشابہ (یعنی ملتی جلتی) نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمۃ الزہرا پیارے
آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور علیہ السلام ان کا استقبال کے لیے کھڑے ہو
جاتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور ﷺ بی بی فاطمۃ
الزہرا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ (بھی) حضور ﷺ کی تعظیم کے لیے کھڑی ہو جاتیں
اور پیارے آقا ﷺ کے مبارک ہاتھ کو تھام کر چومیتں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود،
4/454، حدیث: 5217)
رسول
اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا
نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
کاش! سیدہ فاطمۃ
الزہرا سے محبت وعقیدت کا دم بھرنے والیاں بھی سنتوں کو اپنائیں اور اپنا اٹھنا،
بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا سنت کے مطابق کرلیں۔ اے کاش صد کروڑ کاش ! ہم سب سنت مصطفی ﷺ
کی چلتی پھرتی تصویر بن جائیں۔
حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت محمد شفیق، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ

حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کا پچپن شریف اور زندگی کاہر لمحہ نہایت پا کیزہ تھا اور ایسا کیوں نہ
ہو گا جبکہ حضور ﷺ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی آغوش رحمت آپ تربیت
گاہ تھی اور آپ دن رات حضور ﷺ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی زبان پاک
سے پاکیزہ اقوال اور خدا شناسی کے تذکرے سنتیں اور ان کے مقدس افعال کا مشاہدہ
کرتیں۔
حدیث پاک میں
ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آ پ کا مرحبا بابنتی ﷺ یعنی خوش
آمدید میری بیٹی کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھا تے۔ (بخاری، 2/507،
حدیث: 3623)
حضرت بریدہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور ﷺ عورتوں میں سے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
مردوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (ترمذی، 5/468،
حدیث: 3900)
حضرت عبد اللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت محمد ﷺ جب شہر کو تشریف لے جاتے تو سفر کے بعد جب واپس تشریف
لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك
للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
کے غضبناک ہونے سے ناراض ہوجا تا ہے اس کے راضی ہو نے سے راضی ہو جاتا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 3/154)