خاتون جنت حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی اور چہیتی شہزادی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ بعثت کے پہلے سال یا بعثت سے ایک سال پہلے یا پانچ سال پیدا ہوئیں۔

ہمارے پیارے نبی نانائے حسنین ﷺ اپنی پیاری شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بےحد محبّت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے: جب آپ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کو مرحباً بابنتی کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (فیضان فاطمۃ الزہرا، ص 5)

صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)

نبی پاک ﷺ جب نماز کے لیے تشریف لاتے اور راستے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر سے گزرتے اور گھر سے چکی کے چلنے کی آواز سنتے تو بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے: یا ارحم الراحمین ! فاطمہ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالت فقر میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ (فیضان فاطمۃ الزہرا، ص 13)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔


حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی کا نام حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہے۔آپ کی ولادت جمعۃ المبارک کے دن اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی۔آپ نبی کریم ﷺ کی سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی اور آپ ﷺ کو بہت محبوب تھیں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک پاکیزہ ہستی ہیں۔آپ کے بہت سے القابات ہیں جیسا کہ خاتون جنت بتول اور زہرہ وغیرہ۔

حضرت محمد ﷺ سیدہ فاطمۃ الزہرا سے بہت محبت کرتے تھے اور نہایت الفت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔آپ ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بےشک فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے مجھے وہ چیز تکلیف دیتی ہے جو اسے دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

ایک اور حدیث مبارکہ ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال طور طریقہ شکل مشابہت اور بات چیت میں سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو رسول ﷺ کی مشابہ نہیں دیکھا۔

جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے ان کا ہاتھ پکڑتے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے اور جب آپ ﷺ ان کے پاس جاتے تو آپ کے استقبال کے لیے بھی وہ کھڑی ہو جاتیں ہاتھوں چومتی اور اپنی جگہ پر بٹھاتی۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصال کے وقت بلایا اور ان کے کان میں کوئی بات کہی تو وہ رو پڑیں۔ آپ ﷺ نے پھر بلایا اور پھر ان کے کان میں ایک بات کہی تو وہ مسکرا دی۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا انہوں نے کہا رسول ﷺ نے پہلے مجھے بتایا کہ اس بیماری میں ان کا انتقال ہو جائے گا تو میں رو پڑی پھر آپ ﷺ نے بتایا کہ میں خاندان میں سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ سے ملوں گی اس لیے ہنس پڑی۔

حضور ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی انتقال کر گئیں۔

یا اللہ ہمیں حضرت محمد ﷺ کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی محبت عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


حضور ﷺ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے محبت ایک بے مثال اور قابل تقلید رشتہ ہے جس میں شفقت عزت اور روحانی تعلق کی جھلک ملتی ہے چند نمایاں واقعات اور اقوال جو اس محبت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں درج ذیل ہیں۔

قیام کے ساتھ استقبال: جب بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے پاس آتیں آپ ﷺ ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ان کا ہاتھ پکڑ کر پیشانی چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

سب سے زیادہ محبوب: جب ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ اور ان کا شوہر علی رضی اللہ عنہ۔ (ترمذی، 5/468، حديث: 3900)

آخری ملاقات: مرض الوفات کے دنوں میں نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا آہستہ کچھ کہا جس پر وہ روئیں پھر دوبارہ کچھ کہا تو وہ مسکرا دی بعد میں حضرت فاطمہ نے بتایا کہ پہلے آپ نے فرمایا کہ میری وفات قریب ہے جس پر وہ روئیں پھر فرمایا کہ تم سب سے پہلے میرے پاس آؤ گی جس پر وہ مسکرا دیں۔(بخاری، 2/508، حدیث: 3625، 3626)

حضور ﷺ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے محبت قرآن مجید کی ایک اہم آیت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو اہل بیت کی پاکیزگی اور محبت پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ اللہ پاک نے سورۃ احزاب کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)ترجمہ: اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کی گندگی کو دور کرے اور وہ تمہیں خوب پاک اور صاف کرے۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے اہل بیت کو ہر قسم کی گندگی سے پاک کیا ہے اور ان کی محبت مسلمانوں پر فرض قرار دی ہے اس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی محبت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ نبی کریم ﷺ کی بیٹی اور اہل بیت میں شامل ہیں اس تفصیل میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ کی محبت نبی کریم ﷺ کی محبت کے مترادف ہے اور جو شخص حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے وہ دراصل نبی کریم ﷺ سے محبت کرتا ہے اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت کی محبت اور ان کی پاکیزگی پر ایمان لانا اسلامی ایمان کا حصہ ہے اور اس سے نبی ﷺ کا اظہار ہوتا ہے حضور ﷺ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے محبت نہ صرف حدیثوں میں بلکہ قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفسیر میں بھی واضح ہے یہ محبت مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہے کہ وہ اہل بیت کی محبت اور ان کی پاکیزگی پر ایمان رکھیں حضور ﷺ کی حضرت فاطمہ سے محبت کا ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لے رہے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ کیا آپ اپنی بیٹی سے محبت کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں فاطمہ سے محبت کرتا ہوں اور اگر تم میری فاطمہ سے محبت کو جان لیتی تو تمہاری ان کے لیے محبت میں اضافہ ہو جاتا۔

اس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ حضور ﷺ اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور اس محبت کا اظہار بھی کرتے تھے۔


جب محبت اپنی اعلیٰ ترین شکل اختیار کرتی ہے تو وہ محض جذبات کی کیفیت نہیں رہتی، بلکہ روح کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک پاکیزہ روشنی بن جاتی ہے۔ ایسی ہی روشنی ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب ہم نبی اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سے محبت کو دیکھتے ہیں۔ حضرت فاطمہ وہ ہستی تھیں جو اپنے والد محترم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سکون اور روح کا قرار تھیں۔ نبی کریم ﷺ ان سے ویسے ہی محبت کرتے تھے جیسے ایک عاشق صادق اپنے رب کی رضا سے کرتا ہے بے غرض، پاکیزہ اور مقام معرفت پر فائز۔

احترام و تعظیم: جب بھی حضرت فاطمہ حاضر ہوتیں، نبی کریم ﷺ کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ چومتے اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے۔ یہ نہ صرف باپ کی محبت تھی بلکہ ایک روحانی رشتے کی علامت تھی جس میں نور نبوت اور عصمت زہرا یکجا تھے۔

اظہار محبت کی رفعت: ایک موقع پر فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)یہ الفاظ فقط جذبات نہیں، بلکہ فاطمہ کے مقام کا روحانی اعلان تھے۔

وصال کا لمحہ: نبی کریم ﷺ کی آخری گھڑیوں میں حضرت فاطمہ کا رونا اور پھر مسکرانا، وہ لمحہ تھا جس میں دنیا سے رخصتی کی خبر اور جلد وصال کی بشارت ملی۔ یہ ایک باپ اور بیٹی کی محبت نہیں، دو پاکیزہ روحوں کی دائمی ملاقات کا وعدہ تھا۔

فرمایا: فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔ یہ اعلان نہ صرف حضرت فاطمہ کی عظمت کا تاج تھا بلکہ امت کو بتایا گیا کہ بیٹی، اگر تقویٰ، حیا، خدمت اور اطاعت کا نمونہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں باعث عزت بن جاتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کی حضرت فاطمہ سے محبت صرف ایک رشتے کی محبت نہ تھی، بلکہ یہ ایک روحانی درس تھا کہ بیٹی، نعمت خداوندی ہے۔ سیدہ فاطمہ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا طرز عمل ہر دور کے انسان کو سکھاتا ہے کہ عورت اگر پاکیزگی کا پیکر ہو تو وہ نبوت کی آنکھوں کا نور بن جاتی ہے۔


خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا ﷺ کی سب سے چھوٹی اور محبوب شہزادی تھیں۔ نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا سے بے مثال محبت فرماتے تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ اکرام و احترام سے پیش آتے تھے۔

اس حوالے سے چند روایات ملاحظہ فرمائیے:

رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر: ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/434، حدیث: 6138)

دلجوئی کا پیارا انداز: نبی پاک ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کی دل جوئی کا بھی اہتمام فرماتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اپنی لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک فرش پر بیٹھا کر ان کی دل جوئی فرمائی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ پیارے آقا ﷺ نے خوبصورت جواب دیتے ہوئے فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)

سفر نبوی ﷺ کا آغاز و اختتام: نبی کریم ﷺ کا آپ رضی اللہ عنہ سے ایک محبت بھرا انداز یہ بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کے سفر کا آغاز و اختتام آپ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہوتا تھا۔ چنانچہ نبی پاک ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرک للحاکم، 4/141، حدیث: 4792)

بیٹی کی آمد پر شاندار استقبال: آپ رضی اللہ عنہا جب پیارے نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوتیں تو پیارے آقا ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کا شاندار استقبال فرماتے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو پیارے آقا ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے، آپ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بیٹھاتے۔ (شان خاتون جنت، ص 26)

محترم قارئین! معلوم ہوا کہ پیارے آقا ﷺ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت فرماتے تھے اور ان سے بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ پیارے آقا ﷺ کی پیاری سیرت کے اس مبارک پہلو سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنے کردار کو روشن کریں اور بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ ہمیں اسوہ حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے اور بیٹیوں کے ساتھ محبت و پیار اور عزت و احترام والا برتاؤ کرنا چاہئے۔ ان سے نفرت و بیزاری کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی دل جوئی کا خوب اہتمام کرنا چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے کی بجائے ان سے محبت و پیار کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


حضرت محمد ﷺ کی چار شہزادیاں ہیں مگر ان میں جن کو بہت عزت ملی اور جن کا آقا ﷺ نے خصوصیات کے ساتھ ذکر کیا اور ان کے تعلق سے بےشمار احادیث، ارشادات، اور فضائل ملتے ہیں اور اگر میں یوں کہوں کہ سیدوں کا سلسلہ ان سے چلا ہے۔نبی پاک ﷺ کی جو آل ہے جن کو آج دنیا سید اور سادات کے نام سے یاد کرتی ہے ان کا نام فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا ہے اور آپ شہنشاہ کونین ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب زہراء ہے۔

خاتم المرسلین ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضب الٰہی ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے رضائے الٰہی۔ (مستدرک للحاکم، 4/137، حدیث:4783)

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جسم کا حصّہ(ٹکڑا) ہے جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند، روز قیامت سوائے میرے نسب، میرے سبب اور میرے ازدواجی رشتوں کے تمام نسب منقطع (یعنی ختم) ہو جائیں گے۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث:4801)

سیدہ، زاہرہ،طیبہ،طاہرہ جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کی سب ازواج مطہرات آپ کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں اتنے میں حضرت سیدہ فاطمہ پاک رضی اللہ عنہا تشریف لائیں۔آپ کی چال ڈھال رسول اللہ ﷺ کی چال ڈھال سے مختلف نہ تھی تو جب حضور نبی کریم ﷺ نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:میری پیاری بیٹی لخت جگر خوش آمدید پھر آنحضور ﷺ نے ان کو اپنی بائیں جانب بٹھایا۔

حضرت سیدہ طیبہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کی تربیت آغوش نبوت میں ہوئی تھی آنحضور ﷺ نے اپنی لخت جگر کی تربیت اس انداز سے کی تھی کہ آپ کی ہر ہر ادا سنت مصطفی ﷺ کے مطابق تھی۔ آپ کا چلنا،اٹھنا،بیٹھنا،کھانا،پینا،اوڑھنا بچھونا،شرم وحیاء،عبادت وریاضت،تقوی وپرہیزگاری، الغرض حضرت سیدہ پاک پیارے آقا ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھیں آپ حضور ﷺ کی جان کی راحت وسکون تھیں۔ اس حدیث مذکور سے ایک اہم سبق ملا کہ مسلمان کا اپنی بیٹیوں سے والہانہ پیار ہونا چاہیے کیونکہ جب حضرت خاتون جنت حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو جونہی حضور ﷺ کی نگاہ مبارک ان پر پڑتی تو آپ خوشی میں ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور پیشانی اور ہاتھ کو بوسہ دے کر اپنی جگہ پر بٹھالیتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)قربان جائیں خاتون جنت کی عظمت وشان پر عرش اعظم کے مہمان جن کو اپنی جگہ پر بٹھالیتےتھے۔

معراج کی رات انبیا ورسل جس عظیم ہستی کے استقبال کے لئے کھڑے ہوتے ہیں وہی ختم الرسل اپنی عظیم لخت جگر کے استقبال کے لئے قیام فرماتے ہیں یہ والہانہ پیار نہیں تو اور کیا ہے۔


ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت فرماتے تھے آپ رضی اللہ عنہا کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ سونگھا کرتے تھے۔ (مستدرک للحاکم،  4/140، حدیث: 4791)

ہمارے پیارے آخری نبی مکی مدنی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے ناگوار وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث:4801)

محبوب پاک ﷺ کا ارشاد ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہیں مزید فرمایا فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/436، حدیث:6139)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے آپ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔(ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

حضور ﷺ کی خاتون جنت کو وصیت: اے فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے تم ہماری حیات شریف میں طیبہ طاہرہ متقیہ صابرہ رہی ہو ایسے ہی ہماری وفات کے بعد بھی رہنا تمہارے پائے استقلال (یعنی مستقل مزاجی) میں جنبش (یعنی حرکت) نہ آنے پائے خاتون جنت رضی اللہ عنہا نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔

سیدہ،زاہرہ،طیبہ،طاہرہ جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

سفر سے واپسی پر تشریف لے جانا: ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ سفر سے واپسی پر سب سے پہلے بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لاتے۔ (مستدرک، 4/141، حدیث:4792)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا صدقہ ہمیں باپردہ اور شرم و حیا والا بنائے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، شہنشاہِ کونین ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب زہرا اور بتول ہے، آپ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔

آپ ﷺ کو اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت تھی جس کا اظہار آپ ﷺ وقتا فوقتا فرماتے رہتے تھے، آپ رضی اللہ عنہا جب بھی اپنے والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتےتھے پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے،اسے بوسہ دیتے پھر انکو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں، نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792) یعنی آپ ﷺ کے شوق و محبت کا تقاضا یہ ہوتا کہ جب کچھ د ن سفر کی وجہ سے دور رہتے تو انکی خواہش ہوتی سب سے پہلے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے آپ ﷺ سونگھا کرتے تھے۔ (مراۃ المناجیح، 8 /458)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: فاطمہ تمام اہل جنت یا مؤمنین کی عورتوں کی سردار ہیں مزید فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: تمہارے غضب سے غضبِ الہی ہوتا ہے اور تمہارے رضا سے رضائے الہی۔ (شان خاتون جنت، ص 23)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اکرم ﷺ نے اپنی شہزادی خاتون جنت کو بلا کر انکے کان میں کوئی بات فرمائی وہ بات سن کے خاتون جنت رونے لگیں،آقا ﷺ نے پھر سرگوشی کی تو خاتون جنت ہنسنے لگیں۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے خاتون جنت سے کہا آپ کے بابا جان نے آپ کے کان میں کیا فرمایا جو آپ روئیں اور دوبارہ سر گوشی میں کیا فرمایا جو آپ ہنسیں؟ خاتون جنت نے کہا: میرے بابا جان نے پہلی سرگوشی میں اپنی وفات ظاہری کی خبر دی تو رونے لگی اور دوسری بار سرگوشی میں یہ خبر دی کہ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ سے ملوں گی، تو میں ہنسنے لگی۔ (شان خاتون جنت، ص 32)

یہ آپ رضی اللہ عنہا سے محبت کا خوبصورت انداز تھا کہ سب سے پہلے اپنی وفات ظاہری کی خبر اپنی شہزادی کو دی اور سب سے پہلے ملنے کی بھی۔

ایک بار زمانہ قحط میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوٹی اور دو روٹیاں ایثار کرتے ہوئے اپنے والد محترم کی بار گاہ میں بھیج دی آپ ﷺ اس تحفہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کے پاس آئے اور فرمایا: اے میری بیٹی ! ادھر آؤ حضرت فاطمہ نے جب اس برتن کو کھولا جس میں کھانا بھیجا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ وہ روٹیوں اور بوٹیوں سے بھرا ہوا تھا آپ رضی اللہ نے جان لیا کہ یہ کھانا اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: یہ سب تمہارے لیے کہاں سے آیا تو آپ نے عرض کیا وہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بےشک اللہ جسے چاہے بےگنتی دے۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی حضرات حسن وحسین اور دوسرے اہل بیت کو جمع فرما کر سب کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور سب سیر ہوگئے پھر بھی کھانا اسی قدر باقی تھا۔ (شان خاتون جنت، ص 66)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تو اپنے والد کی بھوک کا احساس کرتے ہوئے ان کو کھانا بھیجا لیکن یہ آپ ﷺ کی محبت ہی تھی کہ وہ جنتی کھانے کے ساتھ واپس آئے اور اپنی لاڈلی بیٹی اور اہل بیت کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔

الغرض ہمارے پیارے آقا ﷺ کو اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ اور دیگر شہزادیوں سے بے پناہ محبت تھی آپ خاص طور پر انکی تعلیم وتربیت اور خوش رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے نہ صرف بچپن میں بلکہ جب شیزادیاں شادی شدہ ہو گئیں تب بھی ان سے محبت فرماتے اور انکی خبر گیری کرتے تھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی توفیق دے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حضور ﷺ کی چار شہزایاں تھیں لیکن اللہ پاک کے پیارے محبوب ﷺ کی شہزادیوں میں سے آپ کی سب سے پیاری اور محبوب شہزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء تھیں حضور ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور سیدہ پاک بھی حضور سے بہت محبت فرماتی تھیں آپ کے استقبال کےلئے حضور کھڑتے ہوتے،آپ کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے، اپنی جگہ پر بٹھاتے اور یہ ہی عمل سیدہ پاک اپنے بابا کےلئے کرتیں جب حضور آپ کےگھر تشریف لےجاتےتو آپ حضور کی تعظیم کےلئے کھڑی ہوتیں، ہاتھ تھام کر بوسہ لیتیں اوراپنی جگہ بٹھاتیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں مزید فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے، ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/436، حدیث:6139)

امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور ﷺ نے اپنی شہزادی خاتون جنّت حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کان میں کوئی بات فرمائی وہ بات سن کر خاتون جنّت رونے لگیں، آقا ﷺ نے پھر سرگوشی کی (یعنی کان میں کوئی بات فرمائی) تو خاتون جنّت ہنسنے لگیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے خاتون جنّت سے کہا: آپ کے بابا جان، رحمت عالمیّان ﷺ نے آپ کے کان میں کیا فرمایا جو آپ روئیں اور دوبارہ سرگوشی میں کیا فرمایا جو آپ ہنسیں؟ خاتون جنّت نے کہا: میرے بابا جان رحمت عالمیّان، محبوب رحمن ﷺ نے پہلی بار سرگوشی میں اپنی وفات ظاہری کی خبر دی تو میں روئی اور دوسری بار سرگوشی میں یہ خبر دی کہ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ سے ملوں گی، تو میں ہنسنے لگی۔ (بخاری، 2/508، حدیث:3625، 3626)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بھی میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو فاطمہ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ (مستدرک للحاکم،4/140، حدیث:4791)

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ کرّم اﷲ وجہہ الکریم اور حضرت فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر ان کی دل جوئی فرمائی۔ حضرت علی المرتضیٰ کرّم اﷲ وجہہ الکریم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: ایک انتہائی ٹھنڈی اور شدید سرد صبح حضور ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے، آپ نے ہمیں دعائے خیر سے نوازا اور پھر حضرت فاطمہ سے تنہائی میں پوچھا: اے میری بیٹی! تو نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ جواب دیا: وہ بہترین شوہر ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر ارشاد فرمایا: اپنی زوجہ سے نرمی سے پیش آنا، بے شک فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے دکھ دے گی مجھے بھی دکھ دے گی اور جو اسے خوش کرے گی مجھے بھی خوش کرے گی، میں تم دونوں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم دونوں کو اس کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ اس نے تم سے ناپا کی دور کر دی اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دیا۔ (الروض الفائق، ص 278 ملخصاً)

شہزادیٔ کونین رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار، خوبصورت کلی کی طرح پاکیزہ طہارت والی ہیں، آپ کی ذات حضور ﷺ کے لئے راحت ِ جان ہے۔

اللہ پاک خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ہمیں ان کے فیض سے مالا مال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بیٹی، دل کا سکون، روح کی راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جو رشتہ ماں باپ اور بیٹی کے درمیان ہوتا ہے، وہ سراپا محبت و قربانی کا نام ہے۔ لیکن جب اس رشتے کو نبی کریم ﷺ جیسے شفیق باپ کی شفقت نصیب ہو، تو وہ رشتہ مثال بن جاتا ہے۔

زمانۂ جاہلیت کا وہ دور بھلا کون بھول سکتا ہے جب بیٹی کو زندہ درگور کر دینا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ دلوں میں رحم مفقود تھا اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے اندھیرے وقت میں نبی مہربان ﷺ نے بیٹی کو رحمت کا درجہ دیا، عزت و احترام کا تاج پہنایا، اور دنیا کو سکھایا کہ بیٹی نہ صرف قابل محبت ہے، بلکہ جنت کا دروازہ ہے۔

آپ کی اپنی بیٹیوں سے محبت عام محبت نہ تھی۔ جب وہ آتیں، تو چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی، زبان پر دعائیں آ جاتیں اور دل سے محبت چھلکنے لگتی۔ یہ وہ محبت تھی جس میں باپ کی شفقت، نبی کی عظمت اور روحانی قربت کے رنگ ایک ساتھ جھلکتے تھے۔نبی کریمﷺ اپنی تمام بیٹیوں سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے خصوصا خاتون جنت، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے یہ حضور پاک ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ کا نام مبارک فاطمہ جبکہ زہرا اور بتول آپ کے القابات ہیں۔

‌سب سے زیادہ محبوب: حضرت مجمع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے عرض کی گئی: حضور ﷺ کو کون زیادہ محبوب (یعنی پسندیدہ) تھا؟ فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا، پھر عرض کی گئی: مردوں میں سے ؟ فرمایا! ان کے شوہر، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بہت روزے رکھنے والے اور کثرت سے قیام کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، 5/468، حدیث: 3900)

جگر گوشہ رسول: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ اور ایک روایت میں ہے، ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشكاة المصابيح، 2/436، حدیث: 6139)

نانائے حسنین ﷺ اپنی شہزادی حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بےحد محبت فرماتے تھے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً بابنتی یعنی خوش آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507، حدیث: 3623)

بیٹیاں نعمت بھی ہیں اور رحمت بھی۔ نبی کریم ﷺ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس بات کا روشن پیغام ہے کہ بیٹی کو عزت، محبت اور مقام دینا سنت مصطفیٰ ہے۔ آج اگر ہم اپنی بیٹیوں سے سچی محبت کریں، ان کے حقوق پہچانیں اور ان کو عزت دیں، تو ہم نہ صرف ایک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں، بلکہ حضور پاک ﷺ کی محبت کے حقیقی وارث بھی بن سکتے ہیں۔

اللہ ہمیں بھی اپنے گھروں کی بیٹیوں سے محبت، شفقت اور حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اللہ پاک کے پیارے محبوب ﷺ کی شہزادیوں میں سے آپ کی سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ہیں، آپ ہی وہ ہستی ہیں جو تسکین ذات مصطفی ہے، جو راحت جان مجتبی ہے، جو جگرگوشہ رسالت خیر الوری ہیں آپ  امّ السّادات، مخدومۂ کائنات، دختر مصطفےٰ، بانوئے مرتضیٰ، سردار خواتین جہاں وجناں، حضرت سیدہ، طیبہ، طاہرہ، زاکیہ، راضیہ، مرضیہ، عابدہ، زاہدہ، محدثہ، مبارکہ، ذکیہ، عذراء، سیدۃ النساء، خیرالنساء، خاتون جنّت، امّ الحسنین سیدہ کائنات ماں خاتوں جنت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ وضع قطع اور شکل و صورت میں آقا کریم ﷺ سے بہت مشابہ تھیں۔

آئیے حصولِ علم دین و برکت کے لئے حضور اکرم ﷺ کی خاتون جنت سے محبت کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

سیدہ زاہرہ، طیبہ طاہرہ جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے رسول خدا ﷺ سے عرض کی: یارسول اللہ آپ کو وہ (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ ارشاد فرمایا:وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22، حدیث: 38)

تمہاری پسند میری پسند: آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جو اسے ناگوار وہ مجھے ناگوار جو اسے پسند وہ مجھے پسند۔ (مستدرک للحاکم، 4/144، حدیث: 4801)

سفر مصطفےٰ کی ابتدا و انتہا: مروی ہے کہ جب رسول کریم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)

حضرت فاطمہ کا استقبال: جب حضرت فاطمہ حضور پرنور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور اکرم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے آپ کے ہاتھ تھام کر ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔

ان واقعات سے امت کے لئے اپنی بیٹیوں سے محبت و شفقت کا درس ملتا ہے۔


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچپن شریف اور دور زندگی کا ہر لمحہ نہایت پاکیزہ تھا۔ آپ کی عمر شریف تقریبا 15 برس کی ہوئی توحضور ﷺ نے اللہ کے حکم سے آپ کا نکاح حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نہایت سادگی کے ساتھ کر دیا۔حضرت علی کی عمر اس وقت 24 سال کے قریب تھی نکاح کے بعد آپ ﷺ نے پانی دم کر کے دونوں پر اس کے چھینٹے مارے اور فرمایا: میں تمہیں اور تمہاری اولاد شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

نبی کریم ﷺ کی نور نظر لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ پیاری تھیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھ (محمد ﷺ) کو ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

اضطراب میں ڈالتی ہے مجھ کو وہ چیز جو اس (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو اضطراب میں ڈالتی ہے اور تکلیف میں ڈالتی ہے مجھ کو وہ چیز جو فاطمہ کو تکلیف دے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور اکرم ﷺ جب سفر کو تشریف لے جاتے تو سب کے بعد اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)

حضور ﷺ عورتوں میں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور مردوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (ترمذی، 5/468، حدیث: 3900)