صاحب خلق عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظیم الشان صفات میں سے ایک جلیل قدر صفت تبسم فرمانا ہے ،نبی متبسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بکثرت تبسم ریزی کی وجہ سے علمائے امت نے ان کا ایک نام المتبسم بھی شمار کیا۔

یاد رہے اس طرح ہنسنا کہ صرف دانت ظاہر ہوں آواز پیدا نہ ہو یہ”تبَسُّم“ کہلاتا ہے۔

(مرآۃ المناجیح ج6، ص281)

تبسم سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لبریز چند واقعات:۔

1:ایک شخص بغیر بسم اﷲ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب ایک لقمہ باقی رہ گیا، تو بِسْمِ اللہِ اَوَّلہٗ وَاٰخِرَہٗ کہکر کھا لیا رسولاﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبسم کیا اور فرمایا کہ ’’شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے اﷲ عزوجل کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اُگل دیا۔

(سنن ابی داؤد 3/ 388،ا لحدیث: 3768)

2: ایک مرتبہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک کھال پر آرام فرما تھے تو آپ کو پسینہ آگیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا پسینہ کو شیشی میں بھرنے لگیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟ بولیں :آپ کے پسینے کو عطر میں ملاؤں گی، یہ سن کر نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرانے لگے۔(سنن نسائی ص1001، حدیث: 5373 )

واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا

خوبرو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا

(ذوق نعت ص26)

3: حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت ایک آدمی دربار الٰہی میں لایا جائے گا، حکم ہوگا کہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں کہ تو نے فلاں دن فلاں گناہ کئے ہیں تو وہ اقرار کرے گا ، وہ کبیرہ گناہوں کی باری کا سوچ کر خوفزدہ ہوگا ،اسی اثناء میں حکم ہوگا کہ اس کے ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے وہ شخص یہ سنتے ہی بول اٹھے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے۔ یہ بیان کرتے ہی حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دئیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوئے۔

(شمائل ترمذی ،باب ماجاء فی ضحك رسول الله)

4:حضرت عبدﷲ ابن مغفل فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک چربی کا تھیلا پایا تو میں اس سے لپٹ گیا میں نے کہا کہ آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا پھر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا رہے تھے۔( مرآۃ المناجیح ج5،ص 578)

5:ابو رمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ نے میرے والد سے پوچھا : یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ میرے والد نے کہا : جی رب کعبہ کی قسم ! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : واقعی ؟ انہوں نے کہا : میں اس کی گواہی دیتا ہوں ،تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرائے۔

(سنن ابو داؤد ص1139، حدیث: 4495 دار ابن کثیر)

معزز قارئین کرام! ہمیں بھی موقع محل کی مناسبت سے حضور سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا کو ادا کرتے ہوئے مسکراتے رہنا چاہیے، اللہ پاک ان تبسم ریز ہونٹوں کے صدقے مسلمانوں کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین۔


تورات شریف میں آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا نام مبارک "احمد الضحوک" بھی آیا ہے۔ ابن فارس نے لکھا ہے کہ آپ کو الضحوک اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ آپ کا نفس عمدہ تھا آپ اپنے پاس آنے والے کو مسکرا کر ملتے تھے اہل عرب کے جفاجو(ظالم،ستم گر) اور اعرابی آپ کے پاس آتے تھے وہ آپ کو سخت اور تندخو نہیں پاتے تھے بلکہ گفتگو میں آپ نرم ہوتے تھے۔ آپ کا لہجہ انتہائی شائستہ ہوتا تھا ۔

(سبل الھدی و الرشاد ،جلد 7 صفحہ، 195 القاہرہ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور یہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے تابعدار، خادم اور صحابی تھے کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا وصال ہوا حضرت ابو بکر نمازیں پڑھایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب دوشنبہ (پیر) کا دن ہوا اور صحابہ صف باندھے نماز میں تھے کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹایا اور ہماری طرف دیکھنے لگے اور حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کھڑے تھے حضور پرنور کا چہرہ انور ایسا لگتا تھا گویا وہ مصحف کا ورق ہے۔ پھر حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم مسکراتے ہوئے ہنسے نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے دیکھنے کی خوشی کی وجہ سے ہم قریب تھے کہ نماز چھوڑ بیٹھتے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں آ جائیں اور انھوں نے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں اس پر نبی اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے اشارہ فرمایا اپنی نماز پوری کرو اور پردہ چھوڑ دیا۔ اسی دن وصال فرمایا۔(صحیح بخاري شریف ص:169،حديث:680، دار ابن كثير بيروت)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کیا۔ مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے سعد کو فرمایا تم پر میرے ماں باپ فدا تیر مارو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بغیر پَر کا تیر لے کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا۔ رسول اللہ صلى الله علیہ واٰلہ وسلم اس کے گرنے سے مسکرائے حتی کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی ڈاڑھیں مبارکہ دیکھیں۔

(صحیح مسلم ص: 1202، حديث :2412،مکتبہ دارالفكر بيروت)

صحابہ کرام علیہم الرضوان بیان کرتے ہیں ایک دن ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔درحال کہ چہرہ انور کا رنگ بدلا ہوا تھا اعرابی نے کچھ پوچھنا چاہا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا ایسا نہ کر اعرابی نے کہا مجھے چھوڑ دو اس ذات کی قسم جس نے حضور علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کو ہنسا کر ہی رہوں گا، اس نے عرض کی مجھے خبر پہنچی ہے کہ دجال لوگوں کے پاس ثرید ( ایک عمدہ کھانا) لائے گا جبکہ وہ بھوک سے مر رہے ہونگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے کیا حکم دیتے ہیں کہ میں اس کا ثرید کا نہ کھاؤں اور کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جاؤں یا پھر اس کا ثرید کھالوں یہاں تک کہ جب پیٹ بھر جائے تو اللہ پاک پر ہی ایمان کا اقرار کروں اور اسے جھٹلاؤں ، صحابہ کرام فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس بات پر اتنا مسکرا ئے کہ داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں۔ پھر ارشاد فرمایا نہیں بلکہ اللہ عزوجل جس شئے کے سبب دوسرے مسلمان کو بے نیاز کر دے گا تجھے بھی اسی کے سبب بے نیاز کر دے گا۔(ملخصاً احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 1287 المدینہ العلمیہ)

ابن عساكر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا اسی اثنا میں کہ حضور اکرم صلى الله علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ایک شخص بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوا اس نے کہا میں ہلاک ہو گیا آپ علیہ السلام نے پوچھا تیری خیر! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا میں رمضان المبارک میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وظیفہ زوجیت ادا کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو اس نے عرض کی میرے پاس غلام نہیں ہے آپ نے فرمایا لگاتار دو ماہ روزے رکھو اس نے عرض کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ آپ نے فرمایا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے عرض کی مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے مابین مجھ سے زیادہ کوئی مفلس نہیں آپ مسکرائے حتی کہ دندان مبارک نظر آنے لگے فرمایا اسے لے لو اور اپنے رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔

(سبل الھدی و الرشاد ، جلد 7 صفحہ ، 193 القاھرہ)


ہم اگر سیرتِ مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مطالعہ کریں تو ہزارہا مسائل اور مشکلات کے باوجود ہمیں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ انور پر مسکراہٹ اور تبسّم کا دیدار ہوتا ہے۔

چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن حارِث رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نےرَسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےزیادہ مسکرانے والاکوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی، ص136)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اُس تبسّم کی عادت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش)

لہٰذا جب بھی کسی سے ملیں ، گفتگو کریں اُس وَقت حتَّی الامکان مُسکراتے رہئے۔ اگر خُشک مزاجی یا بے توجُّہی سے ملنے کی خصلت ہے تو مِلنساری اورمُسکرا کر ملنے کی عادت بنانے کیلئے خوب کوشِش کیجئے بلکہ مُسکرانے کی عادت پکّی کرنے کیلئے تاریخ اسلامی سے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مسکرانے کے پانچ واقعات ملاحظہ کیجیے۔

(1) اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے خَزِیْرہ (ایک عربی کھانا جس میں گوشت کے ٹکڑے پانی میں پکاتے ہیں جب پانی تھوڑا رہ جاتا ہے تو آٹا ملا کر اتار لیتے ہیں) پکا کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لائی (وہاں حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا بھی موجود تھیں) ۔میں نے حضرت سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا سے کہا : اسے کھاؤ ! انہوں نے انکار کیا۔ میں نے دوبارہ کہا: اسے کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مَل دُوں گی۔ انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے اپنا ہاتھ خَزِیْرہ میں ڈالا اور اسے حضرت سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا کے چہرے پر مَل دیا۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرانے لگے پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دستِ اقدس سے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھَا کے لئے خَزِیْرہ ڈال کر ان سے فرمایا: تم بھی اسے عائشہ کے منہ پر مَل دو اور پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرانے لگے۔

(مسند ابی یعلی ، ج4 ، حدیث : 4476)

(2)ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار میں حاضر ہونے کی اِجازت مانگی،اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس(اَزواجِ مُطَہّرات میں سے)قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محوِگفتگو تھیں،زیادہ بخشش کا مطالبہ کر رہی تھیں اوران کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اجازت مانگی تو وہ جلدی سے اٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی،(جب یہ اندر داخل ہوئے تو) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تَبسُّم فرما رہے تھے۔یہ عرض گزار ہوئے:اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اللہ تعالیٰ آپ کو مسکراتا رکھے (کیا بات ہے؟)۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:مجھے اِن عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس حاضر تھیں کہ انہوں نے جب تمہاری آواز سنی تو جلدی سے اٹھ کر پردے میں چلی گئیں۔حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عرض گزار ہوئے کہ یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ آپ سے ڈرتیں۔ پھر(حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےان کی جانب مُتَوجّہ ہو کر)کہا: اے اپنی جانوں سے دُشمنی کرنے والیو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نہیں ڈرتیں؟انہوں نے کہا:ہاں کیونکہ آپ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرح نہیں بلکہ غُصّے والے اور سخت گیر ہیں۔حُضُورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،شیطان تمہیں کسی راستے پرچلتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔

(صحیح بخاری ، باب صفۃ ابلیس و جنودہ ،حدیث:3294)

(3)حضرت عبدﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ مکی مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :میں اس شخص کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ جو سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو گا،وہ شخص اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا تو اللہ تعالٰی اُس سے فرمائے گا : جا ! جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے گمان گزرے گا کہ شاید جنت بھری ہوئی ہے۔وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا : اے ربّ ! جنت تو بھری ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا : جا ! جنت میں چلا جا۔وہ جنت میں داخل ہو گا تو اُسے دوسری مرتبہ گمان گزرے گا کہ شاید جنت بھری ہوئی ہے، وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا: اے ربّ ! جنت بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ ا ﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: جا اور جنت میں داخل ہو جا کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اُس کا دس گنا ہے۔وہ عرض کرے گا: اے اﷲ ! کیا تو مجھ سے تمسخر کرتا ہے یا مجھ سے ہنسی فرماتا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے۔حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہنسے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک چمک گئیں۔(صحیح بخاری ، باب صفۃ الجنۃ والنار ،حدیث: 6202)

(4)حضرت سَیِّدُنا ابو ہُرَیْرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ اَقْدَس میں حاضر ہوکر عَرْض کی: یارسولَ الله صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میں ہلاک ہوگیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا : کس چیز نے تمہیں ہلاکت میں ڈال دِیا؟اس نے عر ض کی:میں رَمَضان میں اپنی عورت سے صُحبت کر بیٹھا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا: کیا غلام آزاد کرسکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔فرمایا : کیا لگاتار دو(2)مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو ؟عَرْض کی: نہیں۔فرمایا : کیا ساٹھ(60)مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟عَرْض کی:نہیں۔اتنے میں خدمتِ اَقْدَس میں کھجور لائے گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(اُس شخص سے)فرمایا: اِنہیں خَیْرات کردو۔عَرْض کی:کیا اپنے سے زیادہ کسی محتاج پرخَیْرات کروں ؟حالانکہ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں۔یہ بات سُن کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہنسےیہاں تک کہ دندانِ مُبارک ظاہر ہوئے اورفرمایا :جاؤ یہ کھجوریں اپنے گھروالوں کو کھلادو (سمجھو کہ تمہارا کَفّارہ ادا ہوگیا) (صحیح بخاری ، باب اذا جامع فی رمضان ولم یکن لہ شیء ،حدیث : 1936 )

(5) حضرتِ سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نَجرانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے جس کے کَنارے موٹے اور کُھردرے تھے۔ اچانک ایک بَدوی (یعنی عَرَب شریف کے دیہاتی) نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر مبارک کو پکڑ کراتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک گردن پر چادر کی کَنار سے خَراش آ گئی ، وہ کہنے لگا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کا جو مال آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حکم دیجئے کہ اُس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرا دیے پھر اُسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔

(صَحیح بُخاری ، حدیث: 5738)


ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین!

یاد رکھیئے مسلمان کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرایا کرتے تھے ۔

ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے مواقع پر مسکرایا کرتے تھے لیکن ہم یہاں 5 مختلف آپ علیہ السلام کے مسکرانے کے مواقع ذکر کرتے ہیں ۔ سب پہلے ہم یہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا مسکرانا کیسا تھا :۔چنانچہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پورے طریقے سے ہنسے ہوں میں نے نہیں دیکھا کہ آپ علیہ السلام کے حلق کا کوا نظر آتا ہوں بلکہ آپ علیہ السلام صرف مسکرایا کرتے تھے۔

اور انہی سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کا ہسنا صرف تبسم فرمانا تھا۔

حضرت حصین بن یزید کلبی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ میں نے نبی پاک علیہ السلام کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا بلکہ آپ علیہ السلام مسکرایا کرتے تھے۔

1۔ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے: حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر بیمار ہے اور آپ کو یاد کرتا ہے حضور علیہ السلام نے اس کی بات سنی تو مسکراتے ہوئے فرمایا اس کے آنکھ میں تو سفیدی ہے۔

2۔ جذبہ عقیدت: ایک مرتبہ حضرت طلحہ بن البراء رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی حکم دیں جس کی میں تعمیل کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جذبہ عقیدت دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے باپ کو قتل کر دو حضرت طلحہ بن البراء رضی اللہ عنہ اٹھے اور اپنے باپ کے قتل کرنے کے لئے نکلنے لگےحضور نبی کریم علیہ الصلاۃوالسلام نے جب ان کا ارادہ دیکھا انہیں روکا اور فرمایا میں قطعی رحمی کے لئے نہیں بھیجا گیا۔

3۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ خوش طبعی کرنا: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتے تو خوش ہوتے اور مسکراتے تھے۔

4۔ صبح مسکراتے ہوئے فرمائی: حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صبح مسکراتے ہوئے فرمائی اور آپ علیہ السلام کا چہرہ خوشگوار تھاصحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپ علیہ السلام سے اس خوشی کی وجہ دریافت کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھے گا تو میں اسے دس نیکیاں عطا کروں گا اور اس کے دس گناہ کو مٹاؤں گا اور اس کے درجات کو بلند کروں گا پس یہ سن کر میرا چہرہ کھلکھلا اٹھا۔ سبحان اللہ

تو اس طرح کے کئی ایسے واقعات ہیں کہ جہاں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے تبسم فرمایا ہے یاد رکھئے تبسم فرمانا ہی آقا علیہ السلام کی سنت ہے نہ کہ قہقہہ لگانا کیونکہ قہقہہ لگانا شیطان کی طرف سے ہے ۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا علیہ السلام کی مسکراہٹ کا صدقہ نصیب فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم (ماخوذ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹیں)


ایسی ہنسی جس میں ہونٹ کھل جائیں اور کبھی دانت بھی نظر آئیں لیکن آواز نہ ہو تو اسے تبسم یا مسکرانا کہتے ہیں ۔ حضرتِ عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضورِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔(شمائلِ ترمذی ، حدیث: 215)

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسکرانے کے 5 واقعات مندرجہ ذہل ہیں :

1) حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک شخص کے صغیرہ گناہ پیش کیے جائیں گے وہ اقرار کرے گا اور خوفزدہ ہوگا کہ ابھی کبائر کی باری ہے۔ لیکن حکم ہوگا کہ اسکے ہر گناہ کے بدلے نیکی لکھی جائے تو وہ خود بولے گا کہ ابھی کبائر باقی ہیں ۔ یہ مقولہ نقل کرنے کے بعد حضورِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے کہ جن گناہوں کے اظہار کا ڈر تھا انہیں خود ظاہر کردیا۔

(شمائلِ ترمذی ، حدیث: 217)

2) حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میری گردن کاٹ دی گئی اور میرا سر گر گیا ہے ، میں اس کے پیچھے گیا اور اسے پکڑ کر واپس لگا لیا۔نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے اور فرمانے لگے کہ جب شیطان تمہارے ساتھ نیند میں کھیلے تو اسے لوگوں سے بیان نہ کرو۔

(سلسلۃ الصحیحہ : 248)

3) حضرتِ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک تھیلا (قلعہ سے ) باہر پھینکا گیا۔ میں اس سے چمٹ گیا اور اپنے آپ سے کہا : میں اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا ۔ اچانک میں مڑا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (مجھے دیکھ، سن کر) مسکرا رہے تھے۔(سنن نسائی ،حدیث:4440،ج3)

4)حضرتِ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :قریب آؤ اور کھاؤ ۔میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمانے لگے کہ تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے۔میں نے عرض کی کہ دوسری جانب سے چبا رہا ہوں ۔ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا دیے۔

(سنن ابن ماجہ ، حدیث:٣٤٤٣،ج٤)

5)سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چل رہے تھے اور ایک حدی خواں حدی ؎۱ کرتے ہوئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بیویوں والے اونٹ چلا رہا تھا ،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا پڑے۔ (مسندِاحمد، حدیث:2343، ج3)

۱؎ حدی یا حدا وہ گانا ہے جس سے اونٹ کو مستی دلا کر چلایا جاوے اونٹ گانے کا عاشق ہے جیسے سانپ خوش آواز کا،جب اونٹ تھک جاتا ہے تو خوش آوازی سے اسے گانا سنایاجاتا ہے جس سے مست ہوکر خوب تیز دوڑتا ہے اس گانے کو حدی اور گانے والے کو حاد کہتے ہیں۔

(مرآۃ المناجیح 6/363 )

(یاد رہے اس سے مراد معروف گانا نہیں ہے وہ خاص طرح کا کلام ہو تا تھا )


کتنا خوبصورت ہوتا ہوگا وہ منظر جب حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوں گے تب کائنات مسکراتی ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ ان لمحوں پر رشک کرتے ہوں گے، جن و ملائک وجد میں آجاتے ہوں گے۔ لاکھوں درود اور لاکھوں سلام اس ہستی پر جو امت کے غم میں مبتلا رہتی تھی اور راتوں کو اٹھ کر روتی تھی۔ جو خلقِ خدا کی ہدایت کی حریص تھی اور کمر سے پکڑ پکڑ کر انہیں جہنم میں جانے سے روکتی تھی، جب کہ خلقت پروانوں کی طرح جہنم میں جانے کو تیار تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 برس کی نبوت کی زندگی میں ہمہ وقت کشاکش تھی، غزوات تھے، سرایہ تھے، لیکن سیرتِ مطہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خوش طبعی کے واقعات سے معمور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانِ کامل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بھی قریب آتا، آپ کا گرویدہ ہوجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل دے بیٹھتا۔ آج 1443ہجری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذاق و مزاح کی لطافت مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے…!!

ہمارے ماں باپ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا لطف وکرم تھے۔ بدّو دور دراز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آتے۔کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ کرلیا، کسی سے معانقہ کیا، کسی کےشانے پر دستِ مبارک رکھ دیا، کسی کو سینے سے لگا لیا، کسی کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لمس تاحیات اس کے ایمان کو حرارت بخشتا رہتا۔ زہد کے ساتھ خشکی کا تصور ہے،جتنی بڑی مذہبی شخصیت ہوتی ہے اُس کے رعب اور دبدبے سے لوگ کاپنتے ہیں۔ زمانۂ موجود میں جو جتنا صاحبِ جلال ہے، خلقِ خدا میں اتنا ہی پہنچا ہوا بزرگ تصور کیا جاتا ہے۔

ہم ان لمحات کا تصور کرتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ سے کائنات مسکرا اٹھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم سے جن وملائک متبسم ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود اصحاب رضی اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سرشار ہوگئے ہوں کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔ تصور میں کتنا خوبصورت بنتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا۔ یہ تصویر ہمیں مصورِ حقیقی تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ احادیث کی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے کئی واقعات مذکور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قہقہہ لگا کر ہنسنے اور زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا، اس سے دل مُردہ ہوجاتے ہیں۔ شمس و قمر قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم پر۔ وہ تبسم کس وقت کس موقع پر ہوتا تھا یہ جاننے کے لیے ان کی پاکیزہ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احمد مصطفی محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جبرئیل امین نے بتایا کہ ’’جہنم سے نکلنے والا آخری شخص کہے گا یارب جہنم سے دور کردے، اس کو دور کردیا جائے گا۔ پھر کہے گا یارب مجھے اس درخت کے سائے میں پہنچا دے، اس کو پہنچا دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے، اس کو پہنچا دیا جائے گا۔ (حالانکہ ہر مرتبہ وہ کہے گا کہ اس کے بعد میں مزید سوال نہیں کروں گا)، اس کے بعد اللہ رب العزت مسکراکر فرمائیں گے اس کو جنت میں داخل کردو۔‘‘

ماں سے ستّر گنا زیادہ پیار کرنے والا رب بندے کو خوب جانتا ہے۔ حسین جنتیں اس نے تیار ہی اپنے بندوں کے لیے کی ہیں۔ اسی لیے اس نے پیغمبر بھیجے کہ انسان راہِ راست پر آجائیں اور جنت کے حقدار ہوجائیں۔ یہ ہماری بداعمالیاں ہیں جو ہمیں جنت سے دور کرنے کا سبب بنیں گی۔ دنیا میں رب نے بن مانگے بے حد و حساب دیا، اس دن بھی وہ اپنے سوالی بندے کے ناز اٹھائے گا۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے اللہ اور بندے کے تعلق کی عکاسی کی۔

حضرت عمر بن عوف رضی اللہ عنہ انصاری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں۔ چنانچہ وہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے آئے۔ انصار کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی واپسی کا علم ہوا۔ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز میں شریک ہوگئے۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو مسکرا دئیے اور فرمایا: ’’میرا گمان ہے کہ تم لوگوں کو خبر ہوئی ہوگی کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے کچھ لے کر آیا ہے؟ اصحاب رضی اللہ عنہم نے فرمایا: جی ہاں یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو بشارت دیتا ہوں اور تم لوگ اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے گی۔ خدا کی قسم میں تم لوگوں پر فقر کا خوف نہیں کرتا بلکہ مجھے تم پر دنیا کے وسیع ہوجانے کا خوف ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوگئی تھی۔ پھر تم دنیا سے رغبت کرنے لگو گے جیسے تم سے پہلے لوگ کرتے تھے۔ پھر یہ دنیا تم کو ہلاک کردے گی جیسے اُن لوگوں کو ہلاک کیا تھا جو تم سے پہلے تھے۔‘‘ (متفق علیہ)

اس حدیث کے مطابق مال کی خواہش ناپسندیدہ نہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے مال حاصل ہونے کی خوشخبری دی، ساتھ ہی مال کے فتنہ ہونے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ ہے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ پاک۔

ایک صحابی کا نام عبداللہ اور لقب حمار ہے۔ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھی اور شہد بطور ہدیہ لایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بیچنے والے کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آتے اور کہتے جو تحفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لایا تھا ان صاحب کو اس کی قیمت ادا کردیجیے۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے اور قیمت ادا کرنے کا حکم دیتے۔ ایک دن حمار کو لایا گیا، اس نے شراب پی رکھی تھی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو، یہ تو اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ہے، یہ ہے رحمت۔

اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پیغام پہنچا کر گئے۔ کوئی فرد شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ کربیٹھے تو اس کو لعنت ملامت کے بجائے نصیحت کی جائے، امید رکھی جائے کہ توبہ کرکے پاک ہوجائے گا۔ حُسنِ سلوک سے اس کے راہِ راست پر آنے کے امکانات ہیں۔ بھری محفل میں اس کو لعنت ملامت کی جائے تو شیطان غلط راستے پر ڈال سکتا ہے۔ فداہٗ ابی و امی، کتنا پیارا ہے اسوۂ مبارک۔ تحفہ قبول کرتے ہیں اور مسکراتے ہوئے قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ موقع ہو تو عیب کی پردہ پوشی کا سبق دیتے ہیں۔ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے سبق رہتی دنیا تک روشنی کا ذریعہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ دس برس کے طویل عرصے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ خادموں کی گواہی خاص ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ پیاری گواہی دیتے ہیں ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُف تک نہ کہا اور نہ کبھی مجھے ملامت کی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے کبھی ملامت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اسے چھوڑ دو، اگر یہ کام مقدر میں ہوتا تو ہوجاتا۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک دن کا واقعہ بیان کرتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں نہ جائوں گا لیکن میرے دل میں تھا کہ چلا جائوں گا۔ میں وہاں سے نکلا، بازار میں چند لڑکے کھیل رہے تھے، میں وہیں رک گیا، تھوڑی دیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ نے پیچھے سے میری گدّی پکڑلی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس جہاں جانے کو کہا تھا وہاں گئے؟ میں نے کہا یارسول اللہ! ابھی جارہا ہوں۔‘‘ یہ بھی کہا ’’دس سال میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا۔‘‘ ( متفق علیہ)

بڑے خوش نصیب تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب نے انہیں خیرِکثیر عطا کی ۔ ساری زندگی اپنی گردن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا ۔ وہ مسکراہٹ یادوں کا سرمایہ رہی ہوگی۔ قصے کہانی کی بات لگتی ہے، خدمت گار بچے کو 10 برس اُف تک نہ کہنا۔ ہمارے معاشرے میں یہ خبریں آئے دن اخباروں کی زینت بنتی ہیں کہ ملازم بچے کے سر پر شیشے کا جگ دے مارا، کم سن ملازمہ کو زخمی کردیا، ملازمہ کو حبسِ بے جا سے برآمد کیا گیا وغیرہ۔ ملازموں سے بدسلوکی کو بدسلوکی سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اپنا حق گردانا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں ملازمین اور ان کے بچوں سے نامناسب رویہ رکھا جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی گواہی چودہ صدیوں کے بعد ہم تک پہنچی ہے کہ خادموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والدین جب انہیں واپس لینے آئے تو انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا چھاجوں مینہ جس پر بھی برستا تھا اس کو ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر کرلیتا تھا۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی خوبصورت روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اُس پہلے شخص کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہوگا۔ اُس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو۔ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو اس سے چھپائو۔ وہ اقرار کرے گا، انکار نہ کرے گا اور اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس کے لیے کہا جائے گا کہ اس شخص کو اس کی ہر برائی کے بدلے جو اس نے کی ہے، نیکی دے دو۔ یہ دیکھ کر وہ عرض کرے گا میرے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا‘‘۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ پہنچ کر ایسا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (ترمذی)

ہم عبد ہیں وہ معبود۔ دو اور دو چار کرنا ہماری گھٹی میں پڑا ہے۔ وقت ہوگا حساب کتاب کا۔ ہر ایک کی گٹھڑیاں کھولی جارہی ہوں گی، ترازو لگے ہوں گے، ہر ایک کا اعمال نامہ ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا میں بہت سے لوگوں کو بڑی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے، کچھ کی زندگی آزمائشوں میں گزرتی ہے۔ کوئی صبر کرتا ہے، کوئی شکر سے محروم۔ وہاں کے باٹ الگ ہوں گے۔ کچھ ایسی ہی منظر کشی ہے اس حدیثِ مبارک میں۔ بندہ اپنی نیکیاں اور گناہ خوب جانتا ہے، ڈرتا ہوگا کہ اب فلاں فلاں گناہ سامنے آئیں گے۔ رب کو نہ معلوم کون سا عمل یا ادا پسند آجائے، آزمائش پر صبر کرنا بلندیٔ درجات کا سبب بن جائے۔ رب نے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا عاصی کو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لمحات کا تصور کرکے سرشار ہیں اور رخِ مبارک متبسم ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اُس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، وہ جہنم سے سرین کے بل گھسٹتا ہوا نکلے گا۔ اس سے کہا جائے گا جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ جائے گا تاکہ جنت میں داخل ہو لیکن وہاں جاکر دیکھے گا کہ سب لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ وہ لوٹ آئے گا اور کہے گا اے رب لوگوں نے تمام گھروں پر قبضہ کرلیا۔ اس سے کہا جائے گا اچھا تو تمنا کر۔ وہ تمنا کرے گا تو اس سے کہا جائے گا جو تُو نے تمنا کی وہ تیرے لیے اور دنیا سے دس گنا زیادہ تیرے لیے ہے۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب تُو مذاق کرتا ہے؟ حالانکہ تُو بادشاہ ہے (جانتا ہے کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہے)۔ راوی کہتے ہیں نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماکر اس قدر ہنسے کہ آپؐ کی داڑھیں نظر آنے لگیں (رواہ الترمذی فی الشمائل)۔ بڑا خوبصورت ہوگا وہ دن اہلِ جنت کے لیے، اللہ کی رحمت اہلِ ایمان پر سایہ فگن ہوگی۔ مومنوں کو رب سے گفتگو کا اعزاز حاصل ہوگا۔

حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواج کے ساتھ تنہائی میں ہوتے تو کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تمہارے آدمیوں کی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ایک عام آدمی تھے، مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام لوگوں سے زیادہ نرم طبیعت انسان تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تبسم فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، ابن سعد)

محبت بھرا ماحول ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش طبعی نے گھر کو جنت بنایا ہوا ہے۔ ایک طرف نبوت کی عظیم الشان ذمہ داریاں ہیں، دوسری طرف خانگی معاملات ہیں۔ یہاں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک شوہر ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش طبعی نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج کی زندگیوں کو خوشی سے بھر دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کو خوشیاں دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تربیت اور اصلاح کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔

حضرت سوید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بطور وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ میں وفد کے آدمیوں میں سے ساتواں تھا۔ ہم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس پہنچے، گفتگو کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہماری اچھی ہیئت اور زینت سے تعجب ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم کون ہو؟ ہم نے عرض کیا: ہم مومن ہیں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے اس قول اور ایمان کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت سوید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے عرض کیا کہ پندرہ عادتیں ہیں، پانچ وہ ہیں جن پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قاصد نے یقین کرنے کا حکم دیا، پانچ وہ ہیں زمانۂ جاہلیت سے ہم جن کے عادی ہیں اور آج تک ان پر جمے ہوئے ہیں، اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناپسند ہوں تو ہم ان کو چھوڑ دیں گے۔

یہ سن کرکہ ہم مومن ہیں، بے ساختہ مسکراہٹ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ مبارک پر پھیل گئی کہ کتنی سادگی سے اپنے ایمان کے متعلق بتایا۔ ایمان کے بھی مرتبے ہوتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزید سوالات سے اپنی تشفی فرمائی کہ واقعی ہم ایمان کے تقاضوں کو سمجھتے بھی ہیں یا جذبات میں آکر ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کتنا صادق تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اصحاب کا ایمان کہ ابھی ایمان کی شیرینی چکھی ہے اور وہ سب کچھ چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہو۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فخر تھا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم پر۔ واقعی وہ ستارے اور جگنو تھے۔حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور حرۃ کی طرف چلے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: اے اللہ میرے گناہوں کو بخش دے، بے شک گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر میری طرف ہنستے ہوئے متوجہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین آپ کا اپنے رب سے استغفار کرنا اور میری طرف ہنستے ہوئے متوجہ ہونا، یہ کیا ہے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک مرتبہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور حرۃ کی طرف لے چلے، پھر اپنا سرِ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: اے میرے رب میرے گناہوں کو بخش دے، بے شک گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے رب کے ہنسنے کی وجہ سے ہنسا۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے پر تعجب کرنے کی وجہ کہ یہ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کا بخشنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں ہلاک ہوگیا، میں نے رمضان میں دن میں بیوی سے صحبت کرلی۔ آپ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کردے۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی غلام نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو دو ماہ لگاتار روزے رکھ۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ اس نے کہا: مجھ میں اس کی گنجائش نہیں۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بورا لایاگیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: سائل کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوا، فرمایا: اس کو لے جاکر صدقہ کردے۔ اس نے کہا: میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کروں؟ خدا کی قسم مدینہ کی دونوں پتھریلی سرزمین کے درمیان مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں اور فرمایا: پھر تم اور اہلِ خانہ اسے کھالینا۔ (بخاری)

ہم اپنے ساتھیوں کی تربیت کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے سیکھیں۔ ایک شخص اپنے گناہ کا اعتراف کرنے آتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت وملامت کرنے کے بجائے اسے گناہ دھونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ وہ اپنی مجبوریاں ظاہر کرتا چلا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آنے کے بجائے انسان کی فطری کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہیں، نرمی اور ترحم سے کام لیتے ہیں۔ گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے آیا تھا، کاشانۂ نبوت سے جھولی بھر کر گیا۔ اس کے عذرات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا امت کے لیے یہ پیغام ہے کہ داعیانِ دین کو انسانی کمزوریوں کا لحاظ کرنا چاہیے، وسیع الظرف ہونا چاہیے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے مرتبئہ لا متناھی(جس کی کوئی انتہا نہ ہو) پر فائز ہیں جس کی تصریح رب تعالی خود قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی کہ اِنّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو، بلکہ اخلاق کو بھی بلندی اسی در سے ملی ہے اور اخلاق کو بھی اس بات پر فخر و ناز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق میرے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق لا متناھیہ کو کما حقہ تو بیان کیا جا ہی نہیں سکتا انہی اخلاق میں سے ایک بے مثال خُلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین و جمیل مسکراہٹ بھی ہے، چنانچہ:

1۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا وہ ایسا آدمی ہو گا جو گھسٹتا ہوا ٓئے گا۔ اس سے کہا جائے گا :جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ جنت میں جاکر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام منازل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا کہ اے میرے رب لوگوں نے تمام مقام پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب تو کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ ارشاد ہوگا کہ وہ دنیا تجھے یاد ہے جس میں تُو رہتا تھا کہ وہ کتنی بڑی تھی؟ وہ عرض کرے گا یاد ہے! ارشاد ہو گا: کہ تمہیں تمہاری تمنّائیں بھی دیں اور تمام دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی دیا۔ حضور فرماتے ہیں، وہ شخص اللہ عزوجل سے عرض کرے گا کہ اے اللہ تو عظیمُ الشان بادشاہ ہو کر تمسخُر(مزاق) فرماتا ہے؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اُس شخص کے اِس جواب پر اتنا مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔

(ذکر جمیل، صفحہ 130، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کُھردرے تھے۔ایک دم ایک بَدوی(دیہاتی) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑلیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئ پھر اس بدوی نے یہ کہا کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائےحضور رحمت عالَم صلی اللہ وسلم نے جب اُس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔

(سیرت مصطفی، صفحہ نمبر 604،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

3۔جنگ بدر کے موقع پر جب انصار میں سے قبیلئہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ خدا کی قسم ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں، اسی طرح انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جاکر لڑیں، بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے انصار کے اِن دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک اٹھا۔

(سیرت مصطفی، صفحہ نمبر 212،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

4۔ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اللہ میں ہلاک ہو گیا، فرمایا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ عرض کی: میں نے رمضان میں اپنی عورت سے صحبت کر لی، فرمایا: غلام آزاد کر سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ عرض کی: نہیں، فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ عرض کی: میں نہیں پاتا، اتنے میں کھجور کا ٹوکرہ خدمت اقدس میں لایا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لو! اور خیرات کردو!، عرض کی: اپنے سے زیادہ کس محتاج پر؟ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں، رحمت عالَم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے یہاں تک کہ دندان مبارک ظاہر ہو گئے، اور فرمایا: جا! اپنے گھر والوں کو کھلا دے۔ (صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 259،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اُس تبسُّم کی عادت پہ لاکھوں سلام


جو تم مسکراؤ تو ہم مسکرائیں:

اے عاشقان رسول! کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دل ان کی طرف خود بخود مائل ہوتا ہے، ان کی ذات اپنے اندر مقناطیس(magnet) کی طرح کا کھچاؤ رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے چہرے پر خوشی ہوتی ہے، مسکراہٹ ہوتی ہے، تو ہمارے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجاتی ہے، ہمارے دل میں بھی خوشی داخل ہو جاتی ہے۔ ان کی تاثیر ایسی ہوتی ہے کہ جیسا ان کا موڈ ہوتا ہے اس جگہ کا ماحول بھی ویسا ہوجاتا ہے۔

انہیں میں ہمارے پیارے پیارے میٹھے میٹھے نبی مکی مدنی رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، بلکہ خوشیاں تو انہی کے صدقے میں بٹتی ہیں۔ ایسے ہی صحابہ ان سے محبت نہیں کرتے تھے، بلکہ جنہوں نے دیکھا نہیں وہ ان کے واقعات پڑھ کر خوش ہوجاتے ہیں گویا کہ سامنے موجود ہیں۔ آئیے ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ایسے واقعات پڑھتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کو بیان کیا گیا ہے۔

1- حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے پانی منگوایا اور وضو کیا۔ پھر مسکرانے لگے اور فرمایا : مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟ انہوں عرض کی : اے امیر المؤمنین آپ کس وجہ سے ہنسے؟ فرمایا: اس جگہ کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، پھر وضو کیا، جیسا میں نے کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ کس چیز مجھے ہنسایا؟ انہوں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ فرمایا : جب بندہ وضو کرتا ہے،تو چہرا دھوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان خطاؤں سے درگزر کرتا ہے جو اس نے چہرے سے کی ہوتی ہیں، اسی طرح جب وہ دونوں ہاتھ(کہنیوں سمیت) دھوئے، اس طرح جب وہ سر کا مسح کرے اور اسی طرح جب وہ پاؤں دھوئے(تو اس عضو سے ہونے والے گناہ بخش دیتا ہے)۔(مسند احمد ،415 )

2- حضرت علی بن ربیعہ فرماتے ہیں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے پاس سواری لائی گئی تو آپ نے اس کی رکاب(paddle) میں رکھا اور باسم الله کہی، پھر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو الحمد لله اور یہ دعا پڑھی :سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ -وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ پھر تین مرتبہ الحمد لله تین مرتبہ الله اكبر کہا اور یہ پڑھا: سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي، فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ پھر ہنسے۔ عرض کی گئی اے امیر المومنین آپ کیوں ہنسے؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا، اس کے بعد وہ مسکرائے تو میں نے بھی پوچھا تھا کہ آپ کس بات پر مسکرائے؟ تو فرمایا: اللہ اپنے بندے کو پسند فرماتا ہے جب وہ اس یقین کے ساتھ کہ میرے سوا گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا، کہتا ہے اے اللہ میرے گناہ بخش دے۔ (سنن ابی داؤد،2602 )

3- حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں میرے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور ساتھ میں سودہ بنت زمعہ رضی الله عنها بھی تھیں۔ میں حلوا تیار کر کے لائی اور سودہ رضي الله عنها سے کہا کہ کھائیے انہیوں نے کہا کہ میں اسے پسند نہیں کرتی، میں نے کہا یا تو آپ کھائیں گی یا میں آپ کے منہ پر لگادوں گی انہوں نے کہا میں نہیں کھاؤں گی تو میں نے اپنے ہاتھ میں حلوا لیا اور ان کے منہ پر لگا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھے تھے تو انہوں نے ان کے لیے گھٹنے جھکائے تاکہ وہ مجھ سے بدلہ لیں پھر انہوں نے برتن میں سے حلوا لیا اور میرے منہ پر لگا دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے۔(تخريج الإحياء للعراقی 3/160)

4۔ حضرت ابو ذر رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، کہا جائے گا اس کے گناہ لائے جائیں تو اس کے صغیرہ لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ چھپا دیے جائیں گے۔ کہا جائے گا تم نے اس دن یہ یہ کیا اس دن یہ یہ کیا تو وہ اقرار کرے گا انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہ کا خوف کر رہا ہوگا ان کا نہ پوچھ لیا جائے۔تو کہا جائے گا: اس کے ہر گناہ کی جگہ نیکی دے دو۔ وہ کہے گا میرے اور بھی گناہ ہیں وہ نظر نہیں آ رہے۔ ابو ذر رضي الله عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھ کے دانت نظر آنے لگے۔ (مسند احمد 21393)

5۔ حضرت صہیب رومی فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ کے پاس کھجور اور روٹی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب آؤ اور کھاؤ۔ میں کھجور کھانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں آنکھ کی بیماری ہے پھر بھی کھجور کھا رہے ہو؟ میں نے عرض کی میں تو دوسری طرف سے کھا رہا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔(أخرجہ ابن ماجہ (3443)، تخريج الإحياء للعراقي 3‏/161 )

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ان مسکراہٹوں کے صدقے میں قیامت کے دن مسکراتے ہوئے جنت میں داخلہ ہوجائے۔ اٰمین۔


سرکار  صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے تو درودیوار روشن ہو جاتے: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور بلکہ قاسم نور ہے شفاء شریف میں ہے جب نوروا لے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے تھے تو درودیوار روشن ہو جاتے۔( شفاء 1/41)

احیاء العلوم میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے۔( احیا ءالعلوم 2/453)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں تھا :حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔( ترمذی شریف 5/542،حدیث:226)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران گفتگو مسکرانا :حضرت سیدنا ام درداء رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ دوران گفتگو مسکرایا کرتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا ۔تو انہوں نے فرمایا : کہ میں نے سید عالم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران گفتگو مسکراتے رہتے تھے۔

(تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر )

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا: حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو میں کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم کو ڈر سنانے والے ہیں اور جب وحی نازل نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ مسکرانے والے اور اچھے اخلاق والے ہوتے تھے۔(الکامل فی ضعفاء الرجال، 42/1663)

ایک اہم واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کا:حضرت امیہ بن مخشبی صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور ایک مرد کھانا کھا رہا تھا تو اس نے اللہ عزوجل کا نام کھانے پر نہیں لیا تھا۔ یہاں تک کہ کھانا باقی نہ رہا مگر ایک لقمہ رہا تھا۔ تو جب اس نے وہ لقمہ منہ کی طرف اٹھایا تو اس نے کہا بسم اللہ اوّلہ و آخرہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا شیطان مسلسل اس کے ساتھ کھا رہا تھا۔ تو جب اس نے اللہ عزوجل کا نام لیا تو شیطان نے قے کر دی جو اس کے پیٹ میں تھا۔(ابو داود و نسائی شریف)


اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا  ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

ترجمہ کنزالایمان : بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (پ 21،احزاب:21)
اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کی گواہی دی ہے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ہنسنا ،مسکرانا ،خوشی کا اظہار کرنا بشاشت کے ساتھ کسی سے ملنا جلنا اور اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا (جس میں دل آزاری نہ ہو)یہ وہ صفات حمیدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا ہی ایک حصہ تھیں ۔تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے واقعات سے پہلے مزاح ،تبسم ،ضحک اور قہقہ کی تعریف بیان کی جائے۔

مزاح کی تعریف : مزاح سنجیدگی کے ضد ہے دل لگی، ہنسی اور خوش طبعی سب مزاح میں شامل ہے۔ مزاح کا مقصد باہم محبت و الفت عزیز واقارب میں بے تکلفی کی فضا قائم رکھنا ہے۔ اس سے احباب میں الفت بڑھتی ہے لیکن ہنسی مزاح میں جھوٹ فریب تہمت فحش گوئی اور کسی کی تذلیل قطعا ممنوع ہے۔

تبسم کی تعریف :چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئے اور آواز نہ ہو تو اس کو تبسم کہتے ہیں۔ ضحک اور قہقہ کی تعریف :چہرے کی خوشی سے اگر دانت، نظر آئے اور آواز دور تک جائے تو اس کو قہقہ کہتے ہیں ورنہ ہنسی ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے واقعات:

(1)حضرت صہیب رومی کا شمار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جانثاروں میں ہے جو ابتدا میں ہی مسلمان ہو گئے تھے جب دین اسلام کی تبلیغ کے لیے حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر دارارقم کو تبلیغ کا مرکز بنایا تو حضرت صہیب رومی اس دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت کر کے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کی خوشی کا اظہار کیا اور جس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ پڑھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دمک رہا تھا۔( حضور کی مسکراہٹیں ،ص 105)

(2)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا آپ موٹے کنارے والی ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے اچانک ایک بدو آیا اور اس نے آپ کے چادر کو زور سے کھینچی ۔میں نے دیکھا کہ اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا پھر کہنے لگا اے اللہ کے نبی آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تبسم ص 43)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے۔ اس وقت ایک اعرابی ( دیہاتی) بھی مجلس میں حاضر تھا۔ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی باڑی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: کیا تو اپنی موجودہ حالت پر خوش نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا پھر وہ بیج ڈالے گا پلک جھپکتے ہی وہ اگ آئے گا ،پک بھی جائے گا اور کاٹ بھی لیا جائے گا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوں گے۔ اب اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا :"اے ابن آدم اسے رکھ لے تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کر سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی وہ بدو کہنے لگا اللہ کی قسم وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ہم تو کھیتی باڑی نہیں کرتے۔ بدو کی یہ بات سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔( ضحک النبی، 10)


حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو اس نے کھینچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی پھراس بدوی نے یہ کہا کہ اﷲ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف تو جہ فرمائی تو کمال حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری ج۱ ص۴۴۶ باب ماکان یعطی النبی المولفۃ)

حضرتِ سیدناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ''خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃُ الِّلْعٰلمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امين صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حضرتِ سیدتنا ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لاتے تووہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھاناپیش کرتیں۔ آپ حضرت عُبَادہ بن صَامِتْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں۔ ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس دیکھنے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سو گئے پھر جب بیدارہوئے تو مسکرانے لگے۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا،'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟''فرمایا،''میر ی امت کے کچھ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو تخت نشین با دشاہوں کی طر ح اس سمند ر کے بیچ میں سوار ہوں گے۔''توحضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا،'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرمادے ۔''

(صحیح البخاری، 2/275،رقم:2877)

ایک روز سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایک حجرہ میں تشریف فرما تھے۔ کسی بات پر امہات المومنین زور زور سے گفتگو کر رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔ خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس محفل میں شریک تھے۔ اسی اثناء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تمام ازواج رسول یک دم خاموش ہوگئیں (جیسے کوئی ہیں ہی نہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم بدلی ہوئی حالت دیکھی تو ہنس پڑے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی۔ تو فرمایا :عمر !یہ تم سے بہت ڈرتی ہیں۔ ابھی تمہاری آمد سے پہلے خوب ہنس کھیل رہی تھیں۔ اور اب دیکھو جیسے ان میں سے کسی کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا :بے وقوف مجھ سے ڈرتی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی۔ جن سے میں تو کیا عام مسلمان ڈرتے ہیں۔(بخاری)


مسکرانا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔

نکھری نکھری پیاری پیاری مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو:۔

محسن کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو زیادہ میٹھی ہوتی تھی۔(ا حیا العلوم 2/1248)

چنانچہ رحمت عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے :انا افصح العرب و انّ اہل الجنۃ یتکلمون فیھا بلغۃ محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم یعنی میں عرب والوں سے زیادہ فصیح ہوں اور بے شک جنتی جنت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں گفتگو کریں گے۔( الشفا بتعریف حقوق المصطفی 1/80، المعجم الاوسط 6/385،حدیث:9147)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسکرانے والے تھے :حضور نبی اکرم شفیع امم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ تبسم فرمانے والے ،صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سامنے بہت مسکرانے والے ،ان کی باتوں پر خوش ہونے والے ،ان کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔

( سنن ترمذی،5/366،حدیث:2661)

بسا اوقات اس قدر ہنستے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں ظاہر ہو جاتیں۔

( صحیح مسلم ،حدیث:186،ص:116)

مذکورہ حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:" حسنے سے مراد تبسم( یعنی مسکرانا) ہے نہ کہ ٹھٹھا مارنا اور قہقہ ،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ مار کر کبھی نہ ہنسے۔(مرآۃ المناجیح 2/396)

مسکرانا صدقہ ہے :حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ہادی راہ نجات سرور کائنات شاہ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے:" اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔

(سنن ترمذی 3/384،حدیث :1963)

مغفرت کر دی جاتی ہے: حضرت سیدنا نفیع اعمٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے مصافحہ فرمایا( یعنی ہاتھ ملائے )اور مسکرانے لگے ۔پھر پوچھا جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کی نہیں۔ فرمانے لگے نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرف ملاقات بخشا تو میرے ساتھ ایسے ہی کیا پھر مجھ سے پوچھا جانتے ہو میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کی نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے (یعنی ہاتھ ملاتے ہیں) اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے اللہ تعالی کے لیے مسکراتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔( المعجم الاوسط 5/366،حدیث:7635)

دلچسپ بات پر مسکراہٹ :صحابہ کرام علیہم رضوان بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ اس وقت مکی مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ نور بار کا رنگ شریف بدلہ ہوا تھا۔ جبکہ صحابہ کرام اس سبب سے نا واقف تھے۔ چنانچہ اس اعرابی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھنا چاہا تو صحابہ کرام علیہم رضوان نے ان سے کہا :"اے اعرابی ایسا نہ کرو کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے انور کا رنگ بدلا ہوا دیکھتے ہیں، اور ہمیں اس کا سبب بھی معلوم نہیں"۔ اعرابی نے کہا:" مجھے چھوڑ دو اس ذات کی قسم جس کے جس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسا کر ہی رہوں گا۔ چنانچہ اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر پہنچی ہے کہ دجال لوگوں کے پاس ثرید ( ایک عمدہ کھانا) لائے گا جبکہ وہ بھوک سے مر رہے ہوں گے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ کہ میں اس کا ثرید نہ کھاؤں اور کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جاؤں یا پھر اس کا ثرید کھالوں یہاں تک کہ جب پیٹ بھر جائے پھر اللہ عزوجل پر ہی ایمان کا اقرار کروں اور اسے جھٹلاؤں صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک داڑھیں ظاہر ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا نہیں بلکہ اللہ جس شے کے سبب دوسرے مسلمانوں کو بےنیاز کر دے گا تجھے بھی اس کے سبب بےنیاز کر دے گا۔

(نثر الدرر لابی سعد ،2/97)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے :حضرت امیہ بن مخشی صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک مرد کھا رہا تھا تو اس نے اللہ کا نام لیا یہاں تک کہ کھانے کا ایک لقمہ رہ گیا تو جب اس نے اپنی طرف اٹھایا پھر پڑھا بسم اللہ اولہ آخرہ تو نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔ پھر فرمایا شیطان نے اس کے ساتھ کھانا زائل نہیں کیا۔ تو جب اس نے اللہ تعالی کے نام کا ذکر کیا شیطان نے قئے( الٹی )کر دی جو اس کے پیٹ میں تھا ۔( ریاض الصالحین ص 29 ، مکتبۃ المدینہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے تھے: سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا :ہاں بہت مرتبہ آپ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ جب آفتاب طلوع ہوتا تو وہاں سے اٹھتے۔ صحابہ کرام باتوں میں مشغول ہوتے اور زمانہ جاہلیت کے کاموں کا تذکرہ کرتے اور مسکراتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے تھے۔

( شرح صحیح مسلم،6/771)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران گفتگو مسکراتے تھے :حضرت سیدنا ام دردا ء رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے حسن اخلاق کے پیکر، ملنساروں کے رہبر، غمزدوں کے یاور ،محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران گفتگو مسکراتے رہتے تھے۔