اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا  ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

ترجمہ کنزالایمان : بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (پ 21،احزاب:21)
اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کی گواہی دی ہے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ہنسنا ،مسکرانا ،خوشی کا اظہار کرنا بشاشت کے ساتھ کسی سے ملنا جلنا اور اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا (جس میں دل آزاری نہ ہو)یہ وہ صفات حمیدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا ہی ایک حصہ تھیں ۔تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے واقعات سے پہلے مزاح ،تبسم ،ضحک اور قہقہ کی تعریف بیان کی جائے۔

مزاح کی تعریف : مزاح سنجیدگی کے ضد ہے دل لگی، ہنسی اور خوش طبعی سب مزاح میں شامل ہے۔ مزاح کا مقصد باہم محبت و الفت عزیز واقارب میں بے تکلفی کی فضا قائم رکھنا ہے۔ اس سے احباب میں الفت بڑھتی ہے لیکن ہنسی مزاح میں جھوٹ فریب تہمت فحش گوئی اور کسی کی تذلیل قطعا ممنوع ہے۔

تبسم کی تعریف :چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئے اور آواز نہ ہو تو اس کو تبسم کہتے ہیں۔ ضحک اور قہقہ کی تعریف :چہرے کی خوشی سے اگر دانت، نظر آئے اور آواز دور تک جائے تو اس کو قہقہ کہتے ہیں ورنہ ہنسی ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکرانے کے واقعات:

(1)حضرت صہیب رومی کا شمار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جانثاروں میں ہے جو ابتدا میں ہی مسلمان ہو گئے تھے جب دین اسلام کی تبلیغ کے لیے حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر دارارقم کو تبلیغ کا مرکز بنایا تو حضرت صہیب رومی اس دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت کر کے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کی خوشی کا اظہار کیا اور جس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ پڑھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دمک رہا تھا۔( حضور کی مسکراہٹیں ،ص 105)

(2)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا آپ موٹے کنارے والی ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے اچانک ایک بدو آیا اور اس نے آپ کے چادر کو زور سے کھینچی ۔میں نے دیکھا کہ اس کی وجہ سے آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا پھر کہنے لگا اے اللہ کے نبی آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا۔( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تبسم ص 43)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے۔ اس وقت ایک اعرابی ( دیہاتی) بھی مجلس میں حاضر تھا۔ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی باڑی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: کیا تو اپنی موجودہ حالت پر خوش نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا پھر وہ بیج ڈالے گا پلک جھپکتے ہی وہ اگ آئے گا ،پک بھی جائے گا اور کاٹ بھی لیا جائے گا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوں گے۔ اب اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا :"اے ابن آدم اسے رکھ لے تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کر سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنتے ہی وہ بدو کہنے لگا اللہ کی قسم وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ہم تو کھیتی باڑی نہیں کرتے۔ بدو کی یہ بات سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔( ضحک النبی، 10)