جو تم مسکراؤ تو ہم مسکرائیں:
اے عاشقان رسول! کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دل ان کی طرف خود
بخود مائل ہوتا ہے، ان کی ذات اپنے اندر مقناطیس(magnet) کی طرح کا کھچاؤ رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے چہرے پر خوشی ہوتی
ہے، مسکراہٹ ہوتی ہے، تو ہمارے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجاتی ہے، ہمارے دل میں بھی
خوشی داخل ہو جاتی ہے۔ ان کی تاثیر ایسی ہوتی ہے کہ جیسا ان کا موڈ ہوتا ہے اس جگہ
کا ماحول بھی ویسا ہوجاتا ہے۔
انہیں میں ہمارے پیارے پیارے میٹھے میٹھے نبی مکی مدنی رسول
عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، بلکہ خوشیاں تو انہی کے صدقے میں بٹتی ہیں۔ ایسے ہی
صحابہ ان سے محبت نہیں کرتے تھے، بلکہ جنہوں نے دیکھا نہیں وہ ان کے واقعات پڑھ کر
خوش ہوجاتے ہیں گویا کہ سامنے موجود ہیں۔ آئیے ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے کچھ ایسے واقعات پڑھتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
مسکرانے کو بیان کیا گیا ہے۔
1- حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے پانی منگوایا اور وضو
کیا۔ پھر مسکرانے لگے اور فرمایا : مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟ انہوں
عرض کی : اے امیر المؤمنین آپ کس وجہ سے ہنسے؟ فرمایا: اس جگہ کے قریب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، پھر وضو کیا، جیسا میں نے کیا، پھر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ کس چیز مجھے
ہنسایا؟ انہوں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟
فرمایا : جب بندہ وضو کرتا ہے،تو چہرا دھوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان خطاؤں سے درگزر
کرتا ہے جو اس نے چہرے سے کی ہوتی ہیں، اسی طرح جب وہ دونوں ہاتھ(کہنیوں سمیت)
دھوئے، اس طرح جب وہ سر کا مسح کرے اور اسی طرح جب وہ پاؤں دھوئے(تو اس عضو سے
ہونے والے گناہ بخش دیتا ہے)۔(مسند احمد ،415 )
2- حضرت علی بن ربیعہ فرماتے ہیں میں حضرت علی کرم اللہ
وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے پاس سواری لائی گئی تو آپ نے اس کی رکاب(paddle) میں رکھا اور
باسم الله کہی، پھر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو الحمد لله اور یہ دعا پڑھی :سُبْحَانَ
الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ -وَإِنَّا
إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ پھر تین مرتبہ الحمد لله تین مرتبہ الله اكبر کہا اور یہ
پڑھا: سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي، فَاغْفِرْ لِي،
فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ پھر ہنسے۔ عرض کی گئی اے امیر المومنین آپ کیوں ہنسے؟ میں نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا، اس کے بعد وہ مسکرائے تو میں نے بھی پوچھا
تھا کہ آپ کس بات پر مسکرائے؟ تو فرمایا: اللہ اپنے بندے کو پسند فرماتا ہے جب وہ
اس یقین کے ساتھ کہ میرے سوا گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا، کہتا ہے اے اللہ
میرے گناہ بخش دے۔ (سنن ابی داؤد،2602 )
3- حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں میرے ہاں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور ساتھ میں سودہ بنت زمعہ رضی الله عنها
بھی تھیں۔ میں حلوا تیار کر کے لائی اور سودہ رضي الله عنها سے کہا کہ کھائیے
انہیوں نے کہا کہ میں اسے پسند نہیں کرتی، میں نے کہا یا تو آپ کھائیں گی یا میں
آپ کے منہ پر لگادوں گی انہوں نے کہا میں نہیں کھاؤں گی تو میں نے اپنے ہاتھ میں
حلوا لیا اور ان کے منہ پر لگا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان
بیٹھے تھے تو انہوں نے ان کے لیے گھٹنے جھکائے تاکہ وہ مجھ سے بدلہ لیں پھر انہوں
نے برتن میں سے حلوا لیا اور میرے منہ پر لگا دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
ہنسنے لگے۔(تخريج الإحياء للعراقی 3/160)
4۔ حضرت ابو ذر رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، کہا جائے گا
اس کے گناہ لائے جائیں تو اس کے صغیرہ لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ چھپا دیے
جائیں گے۔ کہا جائے گا تم نے اس دن یہ یہ کیا اس دن یہ یہ کیا تو وہ اقرار کرے گا
انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہ کا خوف کر رہا ہوگا ان کا نہ پوچھ لیا جائے۔تو
کہا جائے گا: اس کے ہر گناہ کی جگہ نیکی دے دو۔ وہ کہے گا میرے اور بھی گناہ ہیں
وہ نظر نہیں آ رہے۔ ابو ذر رضي الله عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھ کے دانت نظر آنے لگے۔ (مسند احمد 21393)
5۔ حضرت صہیب رومی فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ کے پاس کھجور اور روٹی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ قریب آؤ اور کھاؤ۔ میں کھجور کھانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا تمہیں آنکھ کی بیماری ہے پھر بھی کھجور کھا رہے ہو؟ میں نے عرض کی میں تو
دوسری طرف سے کھا رہا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔(أخرجہ
ابن ماجہ (3443)، تخريج الإحياء للعراقي 3/161 )
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ان مسکراہٹوں کے صدقے میں قیامت کے
دن مسکراتے ہوئے جنت میں داخلہ ہوجائے۔ اٰمین۔