تورات شریف میں آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا نام مبارک
"احمد الضحوک" بھی آیا ہے۔ ابن فارس نے لکھا ہے کہ آپ
کو الضحوک اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ آپ کا نفس عمدہ تھا آپ اپنے پاس آنے والے کو مسکرا کر ملتے تھے اہل عرب کے جفاجو(ظالم،ستم
گر) اور اعرابی آپ کے پاس آتے تھے وہ آپ کو سخت اور تندخو نہیں پاتے تھے بلکہ گفتگو میں آپ نرم ہوتے تھے۔ آپ کا لہجہ انتہائی شائستہ ہوتا تھا ۔
(سبل
الھدی و الرشاد ،جلد 7 صفحہ، 195 القاہرہ )
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور یہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے تابعدار، خادم اور صحابی تھے کہ نبی
کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام
کا وصال ہوا حضرت ابو بکر نمازیں پڑھایا
کرتے تھے یہاں تک کہ جب دوشنبہ (پیر) کا دن ہوا اور صحابہ صف باندھے نماز میں تھے
کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹایا اور ہماری طرف دیکھنے
لگے اور حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کھڑے تھے حضور پرنور کا چہرہ انور
ایسا لگتا تھا گویا وہ مصحف کا ورق ہے۔ پھر حضور اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم
مسکراتے ہوئے ہنسے نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم کے دیکھنے کی خوشی کی وجہ سے
ہم قریب تھے کہ نماز چھوڑ بیٹھتے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے
پلٹے تاکہ صف میں آ جائیں اور انھوں نے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ
وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں اس پر نبی اکرم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے
اشارہ فرمایا اپنی نماز پوری کرو اور پردہ چھوڑ دیا۔ اسی دن وصال فرمایا۔(صحیح
بخاري شریف ص:169،حديث:680، دار ابن كثير بيروت)
حضرت
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلى الله
علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کیا۔ مشرکوں میں سے ایک شخص نے
مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا نبی کریم صلى الله علیہ واٰلہ وسلم نے سعد کو فرمایا تم
پر میرے ماں باپ فدا تیر مارو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بغیر پَر کا
تیر لے کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر
پڑا۔ رسول اللہ صلى الله علیہ واٰلہ وسلم اس کے گرنے سے مسکرائے حتی کہ آپ علیہ
الصلوۃ و السلام کی ڈاڑھیں مبارکہ دیکھیں۔
(صحیح مسلم ص: 1202، حديث :2412،مکتبہ دارالفكر بيروت)
صحابہ
کرام علیہم الرضوان بیان کرتے ہیں ایک دن ایک اعرابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔درحال کہ چہرہ انور
کا رنگ بدلا ہوا تھا اعرابی نے کچھ پوچھنا چاہا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا ایسا نہ کر اعرابی نے کہا مجھے چھوڑ
دو اس ذات کی قسم جس نے حضور علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں آپ
صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کو ہنسا کر ہی رہوں گا،
اس نے عرض کی مجھے خبر پہنچی ہے کہ دجال
لوگوں کے پاس ثرید ( ایک عمدہ کھانا) لائے گا جبکہ وہ بھوک سے مر رہے ہونگے میرے
ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے کیا حکم دیتے ہیں کہ میں اس کا ثرید کا نہ کھاؤں اور
کمزوری کی وجہ سے ہلاک ہو جاؤں یا پھر اس کا ثرید کھالوں یہاں تک کہ جب پیٹ بھر
جائے تو اللہ پاک
پر ہی ایمان کا اقرار کروں اور اسے جھٹلاؤں ، صحابہ کرام فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس بات پر اتنا مسکرا ئے
کہ داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں۔ پھر ارشاد فرمایا نہیں بلکہ اللہ عزوجل جس شئے کے
سبب دوسرے مسلمان کو بے نیاز کر دے گا تجھے بھی اسی کے سبب بے نیاز کر دے گا۔(ملخصاً احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 1287 المدینہ العلمیہ)
ابن
عساكر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا اسی اثنا
میں کہ حضور اکرم صلى الله علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ایک شخص بارگاہ
رسالت مآب میں حاضر ہوا اس نے کہا میں ہلاک ہو گیا آپ علیہ السلام نے پوچھا تیری
خیر! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا میں رمضان المبارک میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وظیفہ
زوجیت ادا کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو اس نے عرض کی میرے پاس غلام
نہیں ہے آپ نے فرمایا لگاتار دو ماہ روزے رکھو اس نے عرض کی مجھ میں طاقت نہیں ۔
آپ نے فرمایا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ اس نے عرض کی مدینہ طیبہ کے دونوں
کناروں کے مابین مجھ سے زیادہ کوئی مفلس نہیں آپ مسکرائے حتی کہ دندان مبارک نظر
آنے لگے فرمایا اسے لے لو اور اپنے رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔
(سبل الھدی و الرشاد ، جلد 7 صفحہ ، 193 القاھرہ)